قلم انسانیت کی سب سے بڑی اختراعوں میں سے ایک ہے۔ یہ نہ صرف خیالات کی ترسیل کا ذریعہ ہے بلکہ تہذیب و تمدن کی تعمیر میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ قلم کا اصل حق یہ ہے کہ یہ آزادی اور حقیقت کو سچائی کے ساتھ پیش کرے۔ اس کا مقصد لوگوں کی آگاہی کو بڑھانا، ان کے دماغ کو مہمیز کرنا اور معاشرتی تبدیلی کی راہ ہموار کرنا ہوتا ہے۔ لیکن جب ہم قلم کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو اس میں صرف اس کی آزادی نہیں بلکہ اس کے تحفظ کی بات بھی شامل ہوتی ہے۔

(1) آزادیِ اظہار: قلم کی آزادی انسانوں کے حقوق میں سب سے اہم حق ہے۔ جب تک انسان اپنی رائے کو آزادانہ طور پر اظہار نہیں کر سکتا، تب تک معاشرتی ترقی ممکن نہیں ہو سکتی۔ قلم کا یہ حق اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ ہر فرد اپنی بات دنیا کے سامنے رکھ سکے، چاہے وہ رائے حکومت کے خلاف ہو یا کسی اور طاقتور ادارے کی مخالفت ہو۔ اس حق کے ذریعے لوگ سچ بولنے کی جرات حاصل کرتے ہیں اور یہ معاشرتی انصاف کے قیام کی طرف ایک اہم قدم ہوتا ہے۔

(2) سچائی کی تلاش: قلم کا دوسرا حق سچ کو بے نقاب کرنا ہے۔ صحافت، ادب، اور تاریخ نویسی میں اس بات کی اہمیت ہے کہ قلم حقیقت کو اس کی اصل شکل میں پیش کرے۔ اس حق کا تحفظ کرنے سے ہم جھوٹ، ملامت اور پروپیگنڈے کے خلاف لڑ سکتے ہیں۔ سچائی کا اظہار، خواہ وہ کسی کے لئے تکلیف دہ ہی کیوں نہ ہو، ایک معاشرتی ذمہ داری ہے۔ کسی بھی ملک یا معاشرے میں سچ کو دبانا قلم کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

(3) تخلیقی آزادی: قلم کا ایک اور اہم حق تخلیقی آزادی ہے۔ ہر انسان کا حق ہے کہ وہ ادب، شاعری، کہانیاں یا دیگر تخلیقی مواد تخلیق کرے اور اس میں اپنی انفرادیت کو ظاہر کرے۔ تخلیقی آزادی کا تحفظ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ نئے خیالات، نئے نقطہ نظر اور نئی تخلیقات سامنے آئیں۔ یہ معاشرتی ترقی، ثقافتی تنوع اور فنون کے ارتقاء کے لئے ضروری ہے۔

(4) قلم کا تحفظ:قلم کے حقوق کا ایک اہم پہلو اس کی حفاظت بھی ہے۔ دنیا بھر میں کئی صحافی، ادیب اور مصنف اپنے خیالات اور رائے کے اظہار کی وجہ سے جانی نقصان یا قید و بند کا شکار ہو چکے ہیں۔ ان لوگوں کو تحفظ دینے کی ضرورت ہے تاکہ وہ آزادانہ طور پر اپنے خیالات کا اظہار کر سکیں۔ اس تحفظ کے بغیر قلم کا صحیح استعمال ممکن نہیں۔

(5) نقل و اشاعت کے حقوق: قلم کا حق یہ بھی ہے کہ اس کی تخلیقات کا صحیح طریقے سے نقل اور اشاعت ہو۔ جب تک تخلیق کار کو اپنی محنت کا مناسب انعام اور تسلیم نہیں ملتا، اس کی تخلیقات کا صحیح استعمال ممکن نہیں ہوتا۔ یہ اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ مصنف کی محنت کا اعتراف کیا جائے اور اس کی تخلیقات کا غلط استعمال نہ ہو۔

(6) ذاتی آزادی اور عدم مداخلت: قلم کا ایک حق یہ بھی ہے کہ کسی دوسرے فرد یا ادارے کو کسی تخلیق کار کی ذاتی آزادی میں مداخلت کرنے کا اختیار نہ ہو۔ ہر تخلیق کار کو اپنی سوچ اور اظہار میں آزادی حاصل ہونی چاہئے۔ اگر کسی کے کام میں مداخلت کی جاتی ہے یا اس کے مواد میں کسی قسم کی تبدیلی کی جاتی ہے تو اس سے قلم کے حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔

قلم کا حق انسان کے بنیادی حقوق میں شامل ہے اور اس کی آزادی اور تحفظ کے لئے ہمیں ہمیشہ کوشاں رہنا چاہئے۔ قلم معاشرتی انصاف، سچائی، اور آزادی کا علمبردار ہے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ بہتر ہو، تو ہمیں قلم کی آزادی اور اس کے حقوق کا احترام کرنا ہوگا تاکہ ایک ایسی دنیا میں زندگی گزار سکیں جہاں سچ اور آزادی دونوں کا تحفظ کیا جائے۔

قرآن مجید فرقان حمید میں اللہ رب العزت نے جن چیزوں کی قسم کھائی ہے ان میں سے ایک قلم بھی ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَۙ(۱) ترجمہ کنزالعرفان: نون، قلم اور اس کی قسم جو لکھتے ہیں۔ ( القلم: 1)

ذات باری تعالیٰ کا قلم کی قسم یاد فرمانے سے معلوم ہوا کہ بارگاہ خداوندی میں قلم کی کتنی حرمت اور قدرو منزلت ہے ۔ قلم اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے قلم نہ ہوتا تو دین و دنیا کے علوم محفوظ نہ ہوپاتے۔ تصانیف و تالیف کے عظیم الشان ذخائر شاہد ہیں کہ قلم نے دین و دنیا کے علوم اور اور اقوام کی تواریخ کو محفوظ رکھنے میں بنیادی کردار ادا کیا ۔ قرآن مجید فرقان حمید ، احادیث مبارکہ اور دنیا کا کوئی بھی فنون ہو اسی قلم کے ذریعے ہی محفوظ ہوئے ۔ قلم تلوار سے بھی زیادہ طاقت وار ہے اس کی سب سے بڑی مثال امام اہلسنت امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کی ذات مبارکہ ہے جنہوں نے قلم کے ذریعے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر پہرہ دیا اور دین کی اشاعت کے لیے تقریباً ایک ہزار کتب تصانیف فرمائی ۔ قلم کی اتنی اہمیت ہے کہ اس کا ذکر قرآن پاک اور احادیث مبارکہ موجود ہے لہذا قلم کے بارے ہمیں معلومات ہونی چاہیے کہ اس کے کیا حقوق ہیں ۔ آئے اب ہم قلم کے حقوق کے متعلق جانتے ہیں:

(1)علم کا سیکھنا : اللہ تعالیٰ قرآن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے کہ الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِۙ(۴) عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ یَعْلَمْؕ(۵) ترجمہ کنز العرفان: جس نے قلم سے لکھنا سکھایا۔انسان کو وہ سکھایا جو وہ نہ جانتا تھا۔(پ30، العلق، آیت: 4.5)

تفسیر صراط الجنان میں اس آیت مبارکہ کے تحت لکھا ہے کہ وہ رب عَزَّوَجَلَّ بڑا کریم ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھایا جس کے ذریعے غائب اُمور کی پہچان حاصل ہوتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قلم کے ذریعے علم کو سیکھنا زیادہ آسان ہیں ۔

(2) علم کو قید کر لو: حضرت عبد اللہ بن عمرو رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ،رسولِ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَ سَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’علم کو قید کر لو۔میں نے عرض کی:اسے قید کرنا کیا ہے؟ ارشاد فرمایا’’علم کو لکھ لینا(اسے قید کرنا ہے)۔( تفسیر صراط الجنان پ 30.العلق۔ آیت 4.5، مستدرک، کتاب العلم، قیّدوا العلم با لکتاب، ۱ / ۳۰۳، الحدیث: ۳۶۹)

(3)سب سے پہلے قلم کو پیدا کیا :روایت ہے حضرت عبادہ بن صامت سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے: رب نے جو چیز پہلے پیدا کی وہ قلم تھا پھر فرمایا اس کو لکھ بولا کیا لکھوں فرمایا تقدیر لکھ تب اس نے جو کچھ ہوچکا اور جو ہمیشہ تک ہوگا لکھ دیا۔ (مراٰة المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ج 1، ایمان کا بیان، باب تقدیر پر ایمان لانے کا بیان، حدیث نمبر 94)

(4)قلم کو کان پر رکھنا : روایت ہے حضرت زید بن ثابت سے فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے سامنے کاتب تھا میں نے حضور کو فرماتے سنا کہ قلم اپنے کان پر رکھو کہ یہ انجام کو زیادہ یاد کرانے والا ہے۔

مفسرشہیر حکیم الامت حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں کہ اگر کاتب قلم کو کان سے لگائے رکھے تو اسے وہ مقصد یاد رہے گا جو اسے لکھنا ہے۔بہتر یہ ہے کہ قلم داہنے کان پر رکھے الله تعالٰی نے ہر چیز میں کوئی تاثیر رکھی ہے،قلم کان میں لگانے کی یہ تاثیر ہے کہ اسے مضمون یاد رہتا ہے۔ (مراة المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح ج 6، اچھی باتوں کا بیان، باب سلام کا بیان، حدیث نمبر 4658)

قلم کی اہمیت کا اندازہ پہلی وحی میں قلم کے ذکر سے لگایا جا سکتا ہے۔معاشرے میں توازن برقرار رکھنے کے لیے اٹھا ہوا قلم قوموں کی تقدیر بدلنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ آج بھی ہم قلم کا صحیح استعمال کرکے دین و دنیا کے علوم کو محفوظ کرکے کامیاب ہو سکتے ہیں ۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں قلم کے ذریعے علم کی اشاعت کے لیے زیادہ سے زیادہ کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ۔


قلم انسان کی عقل، فکر اور جذبات کا آلہ ہے۔ اس کے ذریعے انسان اپنے خیالات، علم اور احساسات کو دوسرے لوگوں تک پہنچاتا ہے۔ قلم کا استعمال علم کی ترسیل، معاشرتی اصلاح اور دین کی دعوت میں ایک بنیادی وسیلہ ہے۔قلم کے حقوق صرف اس کے استعمال کے حوالے سے نہیں ہیں بلکہ اس کے ذریعے جتنے بھی کام کیے جاتے ہیں، ان کی اخلاقی اور دینی ذمہ داری بھی ہے۔ قلم کا استعمال انسان کو سچائی کی طرف راہنمائی فراہم کرتا ہے اور معاشرتی ترقی کے لیے بھی اہم کردار ادا کرتا ہے۔

قلم کا ایک اور اہم حق یہ ہے کہ اس کا استعمال علم کے پھیلاؤ اور فہم کی ترقی کے لیے کیا جائے۔ کسی بھی علم کو صحیح طریقے سے بیان کرنا اور اس کی توہین نہ کرنا ضروری ہے۔ قلم کی مدد سے انسان علم کی اس اہمیت کو اجاگر کر سکتا ہے جو اس کی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے

قلم کے ذریعے کسی کی ذاتی زندگی، عزت یا مقام پر حملہ کرنا اسلامی اخلاقی اصولوں کے خلاف ہے۔ قلم کا استعمال دوسروں کی عزت کی حفاظت کے لیے ہونا چاہیے۔ اگر کسی کی برائی لکھنا مقصود ہو، تو یہ حق استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔ قلم کا ایک اور حق یہ ہے کہ اس کا استعمال انسانیت کی خدمت کے لیے ہو۔ یہ انسانوں کی فلاح، اصلاح اور ان کے حقوق کی حفاظت کے لیے استعمال کیا جانا چاہیے۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو ایک دوسرے کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے، اور قلم کے ذریعے انسان یہ خدمت کر سکتا ہے۔

آئیے قرآن مجید میں قلم کے حوالے سے رب تعالیٰ کا اِرشاد باری تعالیٰ ملاحظہ فرمائیں : نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَۙ(۱) ترجمہ کنزالعرفان: نون، قلم اور اس کی قسم جو لکھتے ہیں۔ (سورۃ القلم: 1، پارہ 29)

تفسیر صراط الجنان: ن یہ حروف مقطعات میں سے ایک حرف ہے ، اس کی مراد اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔ ایک قول یہ ہے کہ اس آیت میں قلم سے مراد وہ قلم ہے جس سے لوگ لکھتے ہیں اور ان کے لکھے “ سے مراد لوگوں کی دینی تحریریں ہیں ۔ دوسرا قول یہ ہے کہ قلم سے مراد وہ قلم ہے جس سے فرشتے لکھتے ہیں ہیں اور " ان کے لکھے “ سے بنی آدم کے اعمال کے نگہبان فرشتوں کا لکھا مراد ہے یا ان فرشتوں کا لکھا مراد ہے جو لوح محفوظ سے عالم میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات اپنے صحیفوں میں لکھتے ہیں۔ تیسرا قول یہ ہے کہ اس قلم سے وہ قلم مراد ہے جس سے لوح محفوظ پر لکھا گیا، یہ نوری قلم ہے اور اس کی لمبائی زمین و آسمان کے فاصلے کے برابر ہے ، اور ”ان کے لکھے “ سے لوح محفوظ پر لکھا ہوا مراد ہے۔ ( مدارک، القلم، تحت الآیۃ: ١، ص ۱۲۶۶ ، خازن، ن، تحت الآيۃ : ۱ ، ۴ / ۲۹۳ ، جمل، القلم، تحت الآية: ۱۰ / ۷۲-۷۱ ، ملتقطاً)

حدیث پاک میں قلم کے حوالے سے حضورصلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلّم کا فرمان: وَعَنْ عُبَادَةِ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ قَالَ رَسُولُ الله صَلّٰى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّ أَوَّلَ مَا خَلَقَ اللّٰهُ الْقَلَمَ فَقَالَ لَهٗ اُكْتُبْ فَقَالَ مَا أَكْتُبُ قَالَ اُكْتُبِ الْقَدَرَ فَكَتَبَ مَا كَانَ وَمَا هُوَ كَائِنٌ إِلَى الْأَبَدِ

ترجمہ: روایت ہے حضرت عبادہ ابن صامت سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے رب نے جو چیز پہلے پیدا کی وہ قلم تھا پھر فرمایا اس کو لکھ بولا کیا لکھوں فرمایا تقدیر لکھ تب اس نے جو کچھ ہوچکا اور جو ہمیشہ تک ہوگا لکھ دیا۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:1 ایمان کا بیان باب: تقدیر پر ایمان لانے کا باب , حدیث نمبر:94 )

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا ہے کہ عَنْ زَيْدِ بنِ ثَابِتٍ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ يَدَيْهِ كَاتِبٌ فَسَمِعْتُهٗ يَقُولُ: ضَعِ الْقَلَمَ عَلٰى أُذُنِكَ فَإِنَّهٗ أَذْكَرُ لِلْمَآلِ

روایت ہے حضرت زید بن ثابت سے فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے سامنے کاتب تھا میں نے حضور کو فرماتے سنا کہ قلم اپنے کان پر رکھو کہ یہ انجام کو زیادہ یاد کرانے والا ہے ۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد:6 اچھی باتوں کا بیان: باب سلام کا باب ، حدیث نمبر:4658)

قلم کی آزادی ہر انسان کا حق ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی اس کی اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔ اس کا استعمال اخلاقی حدود کے اندر رہ کر کیا جانا چاہیے۔ انسان کو اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی آزادی حاصل ہے، مگر اس کی قیمت پر دوسروں کی آزادی یا حقوق کو نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔

قلم کے حقوق کی اہمیت اس بات میں ہے کہ جب انسان اسے اللہ کی رضا کے لیے استعمال کرتا ہے، تو اس کا ہر لفظ صدقہ بن جاتا ہے۔ اس کے ذریعے انسان دوسروں تک علم پہنچاتا ہے اور ان کی فلاح کے لیے کام کرتا ہے۔

قلم ایک طاقتور اور اہم آلہ ہے جس کا استعمال انسانوں کی فلاح اور معاشرتی ترقی کے لیے کیا جا سکتا ہے۔ اس کے حقوق کا خیال رکھنا ضروری ہے تاکہ اس کا استعمال اللہ کی رضا کے لیے ہو اور اس سے لوگوں کی اصلاح ہو۔ قلم کو سچائی، اخلاق، اور علم کی خدمت کے لیے استعمال کرنا ہر مسلمان کی ذمہ داری ہے۔ اس کے ذریعے انسان اپنے معاشرتی اور دینی فرائض کی ادائیگی میں مددگار بن سکتا ہے۔

اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے آمین ثم آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


قلم، جو ازل سے تا ابد روشنی و بصیرت کا مظہر اور علم و حکمت کا سر چشمہ ہے اور اللہ تبارک وتعالیٰ کی عظیم ترین نعمتوں میں سے ایک ہے۔ اسی قلم کی عظمت کو ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے،قرآن و حدیث سے بھی قلم کی اہمیت کے بارے میں پتا چلتا ہے۔ربّ العالمین نے قرآن مجید میں اس کی قسم کھائی فرمایا:

نٓ وَ الْقَلَمِ وَ مَا یَسْطُرُوْنَۙ(۱)

ترجمہ کنزالعرفان: نون، قلم اور اس کی قسم جو لکھتے ہیں۔ (سورۃ القلم: 1، پارہ 29)

اسی طرح حدیث پاک میں ہے: حضرت عبادہ ابن صامت سے فرماتے ہیں فرمایا رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے رب نے جو چیز پہلے پیدا کی وہ قلم تھا پھر فرمایا اس کو لکھ بولا کیا لکھوں فرمایا تقدیر لکھ تب اس نے جو کچھ ہوچکا اور جو ہمیشہ تک ہوگا لکھ دیا۔ (مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد: 1 ،ایمان کا بیان، باب تقدیر پر ایمان لانے کا بیان، حدیث نمبر: 94)

پتا چلا کہ یہ محض ایک عام سادہ سی شے ہی نہیں بلکہ ایک امانت ہے، جو انسانی تہذیب و تمدن اور شعور کی بیداری، اور حق و صداقت کی ترویج کا ناقابلِ تسخیر ذریعہ ہے۔ مگر چونکہ ہر نعمت کے ساتھ ایک آزمائش جُڑی ہوتی ہے تو اسی طرح قلم کے بھی کچھ حقوق ہیں جو ہم پر لازم آتے ہیں ان حقوق میں سے بعض درج ہیں:

قلم کا حق ہے: حق گوئی اور سچائی کی پاسداری ، قلم وہ آئینہ ہے جو دل کی گہرائیوں میں چھپے خیالات کو صفحۂ قرطاس پر منعکس کرتا ہے۔ اسے جھوٹ، فریب اور باطل کے غلاف میں لپیٹ کر پیش کرنا، درحقیقت خیانت اور ظلم کی انتہا ہے۔ قلم کا حق ہے کہ اس کے ذریعے صرف اور صرف سچائی کو رقم کیا جائے، خواہ وہ کڑوی ہو یا میٹھی ،کسی کے مفادات پر ضرب لگاتی ہو یا نہ لگاتی ہو۔

قلم کا حق ہے: علم و ہدایت کو عام کرنا قلم کو بے وجہ سفاک اور بے روح تحریروں کا اسیر بنانے کے بجائے، اسے نورِ علم کی روشنی پھیلانے کا ذریعہ بنانا چاہیے۔ جیسا کہ میرے آقا صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق مرنے کے بعد جو تین اعمال آدمی کے کام آنے ہیں ان میں سے ایک ایسا علم بھی ہے جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں۔ پس، قلم کا حق یہ ہے کہ وہ ایک ایسا ذریعہ بنے جس کے ذریعے لوگ رشد و ہدایت کے نور سے منور ہوں نہ کہ اندھیروں میں بھٹکتے رہیں۔

قلم کا حق ہے: عدل و انصاف کا قیام قلم ایک ایسی تلوار ہے جو ظالم کے خلاف بلند کی جائے تو انقلاب برپا کر سکتی ہے، مگر یہی قلم اگر بے انصافی کی راہ پر گامزن ہو جائے تو معاشرہ بربادی پستی اور تباہی کی دلدل میں جا گرتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قلم کا حق ہے کہ اسے عدل و مساوات کا عَلَم بنایا جائے اور کسی بھی قسم کے ذاتی مفاد یا نفرت کی آمیزش سے اسے آلودہ نہ کیا جائے۔

قلم کا حق ہے: فتنہ و فساد سے اجتناب جب قلم بے لگام ہو جائے اور شر کے بازار میں عام ہو جائے تو معاشرتی امن و سکون خراب ہوجاتا ہے آج ہم دیکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع میں قلم کو منفی پروپیگنڈے، نفرت انگیزی، اور جھوٹے بیانیے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے، جس کی اسلام میں سخت ممانعت ہے۔ پس معلوم ہوا کہ قلم کا حق ہے کہ اس کے ذریعے وہ تحریریں رقم کی جائیں جو انسان کے اخلاق و کردار کو بلند کریں اور اسے اللہ کے قریب کریں۔

قلم کے متعلق میرے آقا کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: روایت ہے حضرت زید ابن ثابت سے فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے سامنے کاتب تھا میں نے حضور کو فرماتے سنا کہ قلم اپنے کان پر رکھو کہ یہ انجام کو زیادہ یاد کرانے والا ہے۔ ( مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد: 6 ،اچھی باتوں کا بیان ، سلام کا باب، حدیث نمبر: 4658)

یعنی اگر کاتب قلم کو کان سے لگائے رکھے تو اسے وہ مقصد یاد رہے گا جو اسے لکھنا ہے۔ قلم کی حیثیت محض ایک مادی شے کی نہیں، بلکہ یہ ایک روحانی اور اخلاقی ذمہ داری ہے، جس کا استعمال انسان کو جنت کے راستے پر بھی لے جا سکتا ہے اور جہنم کی دہلیز تک بھی پہنچا سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک مسلمان پر لازم ہے کہ وہ اپنے قلم کو ہمیشہ سچ، علم، عدل، خیر اور اصلاح کے لیے استعمال کرے، تاکہ وہ اللہ کے ہاں سرخرو ہوسکے۔

اللہ کریم ہمیں قلم کے حقوق ادا کرنے، اس کی عظمت کا پاس رکھنے، اور اسے صرف خیر و بھلائی کے لیے استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلّم

قراٰنِ مجید فرقانِ حمید میں اللہ ربُّ العزت نے جن چیزوں کی قسم یاد فرمائی ہے ان میں سے ایک قلم بھی ہے۔ ارشادِ ‏باری ‏تعالیٰ ہے: ﴿نٓ وَالْقَلَمِ وَمَا یَسْطُرُوْنَۙ(۱)﴾ ترجَمۂ کنزالایمان: قلم اور ان کے لکھے کی قسم ۔ (پ29،القلم: 1)‏

ذاتِ باری تعالیٰ کا قلم کی قسم یاد فرمانے سے معلوم ہوا کہ بارگاہِ خداوندی میں قلم کی کتنی حرمت اور قدرو منزلت ہے ‏۔ قلم ‏اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے قلم نہ ہوتا تو دین و دنیا کے علوم محفوظ نہ ہوپاتے۔ تصانیف و تالیف کے عظیم ‏الشان ذخائر شاہد ہیں ‏کہ قلم نے دین و دنیا کے علوم اور اقوام کی تواریخ کو محفوظ رکھنے میں بنیادی کردار ادا کیا۔

احادیثِ مبارکہ اور دنیا کا کوئی بھی فن ہو وہ قلم کے ذریعے ہی محفوظ ہوا۔ قلم تلوار سے ‏بھی زیادہ طاقتور ہے اس کی ایک بڑی ‏مثال امامِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کی ذاتِ مبارکہ ‏ہے جنہوں نے قلم کے ذریعے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ختمِ ‏نبوت پر پہرہ دیا اور دین کی اشاعت کے لئے تقریباً ‏ایک ہزار کتب تصنیف فرمائیں۔ قلم کی اتنی اہمیت ہے کہ اس کا ذکر قراٰنِ پاک ‏اور احادیثِ مبارکہ میں موجود ہے، اللہ تعالیٰ قراٰنِ مجید فرقانِ حمید میں ارشاد فرماتا ہے:﴿الَّذِیْ عَلَّمَ بِالْقَلَمِۙ(۴) عَلَّمَ الْاِنْسَانَ مَا لَمْ ‏یَعْلَمْؕ(۵)﴾ ترجَمۂ کنزالایمان: جس نے قلم سے لکھنا سکھایا آدمی کو سکھایا جو نہ جانتا تھا۔ (پ30، العلق: 4، 5)‏

تفسیر صِراطُ الجنان میں ہے: وہ رب عزوجل بڑا کریم ہے جس نے قلم سے لکھنا سکھایا جس کے ذریعے غائب اُمور کی پہچان ‏حاصل ہوتی ہے۔ (صراط الجنان، 10/764) معلوم ہوا کہ قلم کے ذریعے علم کو سیکھنا زیادہ آسان ہے۔

پیارے اسلامی بھائیو! کہا جاتا ہے کہ دنیا کے معاملات سین اور قاف سے چلتے ہیں”سین“ سے مراد ہے سیف یعنی تلوار اور ‏‏قاف سے مراد ہے:”قلم“ سیف و قلم عالمِ اسلام میں نہایت اہمیت کے حامل ہیں، شیطان صفت انسانوں کو لگام ڈالنی ہو ‏یا جہالت ‏کے اندھیروں میں زندگی گزارنے والوں کو شعور و آگاہی فراہم کرنی ہو، ہر جگہ قلم اپنی قوتِ گویائی سے ‏سرکرداں ہے قلم کی ‏طاقت کبھی کمزور نہیں پڑ سکتی کہ جب بھی نوکِ قلم سینۂ قرطاس پر چلنا شروع کرتی ہے تو میدان ‏میں چلنے والی تلوار سے کم نہیں ‏ہوتی، یہی وجہ ہے کہ دینِ اسلام نے قلم کے حقوق کو اُجاگر فرمایا تاکہ علم و فن، شعور و ‏آگاہی اور قدیم و جدید علوم کے چراغ روشن ‏رہیں چنانچہ آپ بھی قلم کے چند حقوق ملاحظہ کیجئے اور عمل کی نیت کیجئے:‏

‏(1)ادب کرنا: قلم کا ایک حق یہ ہے کہ اس کا ادب کیا جائے کیونکہ قلم حصولِ علم کا ایک آلہ ہے چنانچہ قلم کے تراشے اور قلم ‏کو زمین اور بے ادبی والی جگہ نہ پھینکا جائے بلکہ اس کو محفوظ جگہ رکھا جائے جیسا کہ بہار شریعت ‏میں ہے: مستعمل قلم کا تراشہ احتیاط ‏کی جگہ میں رکھا جائے پھینکا نہ جائے۔‏(بہار شریعت، 2/496)‏

‏(2)ناجائز معاملہ نہ لکھنا:قلم کے ساتھ کوئی بھی ناجائز معاملہ اور جھوٹ نہ لکھنا کیونکہ اس کا وبال لکھنے والے پر ہے جیسا کہ ‏ ‏حضرت جابر رضی اللہُ عنہ سے مروی کہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سود لکھنے والے اور اُس کے ‏گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا ‏کہ وہ سب برابر ہیں۔ (دیکھئے: مسلم، ص 663، حدیث: 4093)‏

‏(3)سونے چاندی کے قلم سے نہ لکھنا: سونے چاندی کے قلم سے لکھئے کیونکہ اس کی ممانعت ہے جیسا کہ دُرِّ مختار میں ہے: سونے ‏چاندی کے قلم ‏دوات سے لکھنا مرد عورت دونوں کے لئے ممنوع ہے۔(درمختار، 9/564)‏

‏(4)تحریر دل آزاری کا سبب نہ بنے: جب معاشرتی مسائل پر لکھا جائے تو ضروری ہے کہ تحریر سے کسی کی کردار ‏کُشی نہ ہو، ‏حالات اور مسائل کو گمنام یا فرضی کرداروں کے ذریعے پیش کیا جاسکتا ہے تاکہ کسی کی دل آزاری نہ ہو ‏۔

اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ہمیں ان حقوق پر عمل کرنے اور اسے دوسروں تک پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن ‏بِجَاہِ خاتمِ النّبیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مسلمانوں کی راہنمائی کے لیے ارشادات بیان فرمائے ۔ایسے ارشادات جو حکمت و نصائح ،تعلیم و تربیت ،اور ترغیب و تنبیہات سے مزین ہیں تاکہ مسلمان ان پر عمل کرکے دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کریں اور بروز قیامت رب تعالیٰ کی بارگاہ میں سرخرو ہوں۔آئیے!آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کچھ ایسے ارشاد پڑھیے جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کلمہ ” اتانی“ کے ذریعے سے امت کی رہنمائی فرمائی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا شریک نہ ٹھہرانا: حضرت عوف بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: أَتَانِي آتٍ مِنْ عِنْدِ رَبِّي، فَخَيَّرَنِي بَيْنَ أَنْ يُدْخِلَ نِصْفَ أُمَّتِي الْجَنَّةَ وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ، فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ، وَهِيَ لِمَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا

ترجمہ:کہ میرے پاس رب تعالٰی کے پاس سے آنے والا آیا تو مجھے اختیار دیا اس کا کہ میری آدھی امت جنت میں داخل فرمائے اور درمیان شفاعت کے تو میں نے شفاعت اختیار فرمائی یہ شفاعت اس شخص کے لیے ہے جوکسی چیز کو الله کا شریک نہ ٹھہرائے۔ (مشکوٰۃ المصابیح، کتاب الفتن،باب الحوض و الشفاعۃ، جلد2،صفحہ505،حدیث:5357)

مسجد کو صاف ستھرا رکھنا: ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے صحابہ کو نماز پڑھا رہے تھے کہ آپ نے جوتے اتار دیئے اور اپنے بائیں طرف رکھ لئے جب قوم نے دیکھا تو انہوں نے بھی اپنے جوتے اتار دیئے جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پوری کی تو فرمایا کہ تمہیں جوتے اتارنے پرکس نے آمادہ کیا عرض کی ہم نے آپ کو جوتے اتارتے دیکھا تو ہم نے بھی اپنے جوتے اتار دیئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:إِنَّ جِبْرِيْلَ أتانِيْ فَأَخْبَرَنِيْ أَنَّ فِيْهِمَا قَذَرًا، إِذا جَاءَ أَحَدكُم الْمَسْجِدَ فَلْيَنْظُرْ، فَإِنْ رَأَى فِي نَعْلَيْهِ قَذَرًا فَلْيَمْسَحْهُ وَلِيُصَلِّ فِيْهِمَا

ترجمہ: حضرت جبریل میرے پاس آئے مجھے بتایا کہ ان میں گندگی ہے جب تم میں سے کوئی مسجد میں آیا کرے تو دیکھ لیا کرے اگر جوتوں میں گندگی دیکھے تو انہیں پونچھ دے اور ان میں نماز پڑھ لے۔ (مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الصلوٰۃ،باب الستر،جلد1،صفحہ74،حدیث:709)

مریض کی عیادت کرنا: مریض کی عیادت کو جانا آخری نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے۔حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں:

مَرِضْتُ مَرَضًا أَتَانِي النَّبِيُّ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي فَوَضَعَ يَدَهٗ بَيْنَ ثَدْيَيَّ حَتّٰى وَجَدْتُ بَرْدَهَا عَلٰى فُؤَادِي

ترجمہ:میں بیمار ہوا تو نبی کریم صلی الله علیہ وسلم میری عیادت کو تشریف لائے اپنا ہاتھ میرے سینےکے بیچ رکھا حتی کہ میں نے اس کی ٹھنڈک اپنے دل پر پائی۔(مشکوٰۃ المصابیح،کتاب الاطعمۃ ،جلد2، صفحہ379، حدیث:4037)

گھر میں تصویر اور کتے کی ممانعت: گھر کی چار دیواری میں تصویر اور کتا رکھنے کی دین اسلام میں ممانعت ہے کیونکہ یہ ملائکہ رحمت کے آنے سے مانع ہو جاتے ہیں جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے :

قَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَانِي جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ قَالَ: أَتَيْتُكَ الْبَارِحَةَ فَلَمْ يَمْنَعْنِي أَنْ أَكُونَ دَخَلْتُ إِلَّا أَنَّهٗ كَانَ عَلَى البَابِ تَمَاثِيلُ وَكَانَ فِي الْبَيْتِ قِرَامُ سِتْرٍ فِيهِ تَمَاثِيلُ وَكَانَ فِي الْبَيْتِ كَلْبٌ

ترجمہ:فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ میرے پاس جناب جبریل آئے بولے کہ میں آج رات آپ کے پاس آیا تھا مجھے داخل ہونے سے کسی چیز نے نہ روکا بجز اس کے کہ دروازے پر تصاویر تھیں اور گھر میں باریک کپڑے کا پردہ تھا جس میں تصاویر تھیں اور گھر میں کتا تھا ۔ (مشکوٰۃ المصابیح،کتاب اللباس،باب التصاویر،جلد2،صفحہ399،حدیث:4299)

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سمجھائی ہوئی ترغیبات پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین مبارکہ ہر انسان کے لیے مشعلِ راہ ہیں اور ان فرامین کو اپنا کر انسان اپنی زندگی کو بدل سکتا ہے اور حضور نے انسان کی ہر معاملے میں تربیت فرمائی اس میں ایک لفظ جو احادیث طیبہ میں ملتا ہے وہ لفظ اتانی بھی ہے تو اس کے متعلق حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کو سنتے ہیں:

(1) اللہ عزوجل کی بندوں سے محبت: عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرْوِیہِ عَنْ رَبِّہِ قَالَ:اِذَا تَقَرَّبَ الْعَبْدُ اِلَیَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ ذِرَاعًا، وَاِذَا تَقَرَّبَ مِنِّی ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ مِنْہُ بَاعًا، وَاِذَا اَتَانِیْ مَشْیًا اَتَیْتُہُ ہَرْوَلَۃً.

ترجمہ: حضرت سَیِّدُنااَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے روایت کرتے ہیں اور آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ سے روایت کرتے ہیں کہ ربّ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا :جب بندہ مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو میں اس سے ایک گز قریب ہوتا ہوں اور جب وہ مجھ سے ایک گز قریب ہوتا ہے تو میں اس سے دو گز قریب ہو جاتا ہوں اور جب وہ میرے پاس چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں ۔

حدیث کی شرح: حدیث کے ظاہری معنی کی وضاحت:علامہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰ بِن شرف نووی فرماتے ہیں : ’’ اس حدیث کا ظاہری معنی لینا محال ہے (کیونکہ اللہ عَزَّوَجَلَّ چلنے یا دوڑنے سے پاک ہے) ۔حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص عبادت کے ذریعے میرا قرب حاصل کرتا ہے تو میں اپنی توفیق، رحمت اور اعانت اس کے قریب کر دیتا ہوں ۔بندہ جتنی زیادہ عبادت کرتا ہے میں اتنا ہی زیادہ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں اور اس پراپنی رحمت نچھاور کرتا ہوں ۔ ‘‘(فیضان ریاض الصالحین جلد:2،صفحہ :164،حدیث نمبر:96 )

(2) نبی ہونا معلوم ہوا:وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ كَيْفَ عَلِمْتَ أَنَّكَ نَبِيٌّ حَتّٰى اسْتَيْقَنْتَ فَقَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ! أَتَانِي مَلَكَانِ وَأَنَا بِبَعْضِ بَطْحَاءِ مَكَّةَ، فَوَقَعَ أَحَدُهُمَا عَلَى الأَرْضِ وَكَانَ الْآخَرُ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهٖ: أَهُوَ هُوَ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: فَزِنْهُ بِرَجُلٍ فَوُزِنْتُ بِهٖ فَوَزَنْتُهٗ ثُمَّ قَالَ: زِنْهُ بِعَشَرَةٍ فَوُزِنْتُ بِهِمْ فَرَجَحْتُهُمْ ثُمَّ قَالَ: زِنْهُ بِمِئَةٍ فَوُزِنْتُ بِهِمْ فَرَجَحْتُهُمْ كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَنْتَثِرُونَ عَلَيَّ مِنْ خِفَّةِ الْمِيزَانِ. قَالَ: فَقَالَ أَحَدُهُمَا لصَاحبه: لَوْ وَزَنتُهٗ بِأُمَّتِهٖ لَرَجَحَهَا

ترجمہ: روایت ہے حضرت ابو ذر غفاری سے فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی الله علیہ وسلم آپ نے کیسے جانا کہ آپ اللہ کے نبی ہیں حتی کہ آپ نے یقین کرلیا تو فرمایا اے ابو ذر میرے پاس دو فرشتے آئے جب کہ میں مکہ کے بعض پتھریلے علاقہ میں تھا تو ان میں سے ایک تو زمین کی طرف آگیا اور دوسرا آسمان و زمین کے درمیان رہا تو ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کیا یہ وہ ہی ہیں اس نے کہا ہاں اس نے کہا کہ انہیں ایک شخص سے تولو میں اس سے تولا گیا تو میں وزنی ہوا پھر اس نے کہا کہ انہیں دس سے تولو تو میں ان سے تولا گیا میں ان پر وزنی ہوا،پھر اس نے کہا کہ انہیں سو سے تولو میں ان سے تولا گیا میں ان پر بھاری ہوا گویا میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ پلہ ہلکا ہونے کی وجہ سے مجھ پر گرے پڑتے ہیں تو ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کہ اگر تم انہیں ان کی پوری امت سے تولو تو بھی یہ سب پر بھاری ہوں گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ، باب فضائل سید المرسلین ،جلد:2، فصل ثالث،صفحہ: 524،حدیث نمبر: 5523)

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنی اور اپنے رسول کی محبت عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم


نبی کریم ﷺ کی تربیت کے مختلف طریقے تھے، جن میں ایک طریقہ "اَتَانِي" (مجھے خبر دی گئی، میرے پاس آیا) جیسے الفاظ سے تربیت دینا بھی شامل تھا۔ اس طریقے میں رسول اللہ ﷺ کسی واقعہ یا حکم کی اطلاع دے کر اس پر وضاحت فرماتے، صحابہ کرام کی اصلاح کرتے اور امت کو ہدایت عطا فرماتے تھے۔

ذیل میں چند ایسی احادیث مع حوالہ جات پیش کی جا رہی ہیں جن میں نبی کریم ﷺ نے لفظ "(أَتَانِي)" کے الفاظ استعمال فرما کر تعلیم و تربیت فرمائی:

(1) حضرت جبرائیل کا نبی کریم ﷺ کے پاس آنا: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: أَتَانِي جِبْرِيلُ فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، عِشْ مَا شِئْتَ فَإِنَّكَ مَيِّتٌ، وَأَحْبِبْ مَنْ شِئْتَ فَإِنَّكَ مُفَارِقُهُ، وَاعْمَلْ مَا شِئْتَ فَإِنَّكَ مَجْزِيٌّ بِهِ، وَاعْلَمْ أَنَّ شَرَفَ الْمُؤْمِنِ قِيَامُهُ بِاللَّيْلِ، وَعِزُّهُ اسْتِغْنَاؤُهُ عَنِ النَّاسِ

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:میرے پاس حضرت جبرائیل آئے اور کہا: اے محمد! جتنا چاہو جیو، مگر (یاد رکھو) تمہیں مرنا ہے۔ جس سے چاہو محبت کرو، مگر تمہیں اس سے جدائی ہونی ہے۔ اور جو چاہو عمل کرو، مگر تمہیں اس کا بدلہ دیا جائے گا۔ اور جان لو کہ مؤمن کی عزت اس کے رات کے قیام (عبادت) میں ہے، اور اس کی سربلندی اس کا لوگوں سے بے نیاز ہونے میں ہے۔(شعب الايمان للبیہقی، حدیث نمبر: 10484، جلد: 7، صفحہ: 379)

(2). حضور علیہ السلام نے شیطان کو پکڑ لینا: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ:أَتَانِي الشَّيْطَانُ فِي صَلَاتِي، فَأَخَذْتُهُ فَخَنَقْتُهُ، حَتَّى وَجَدْتُ بَرْدَ لِسَانِهِ عَلَى يَدِي، فَلَوْلَا دُعَاءُ أَخِي سُلَيْمَانَ، لَرَبَطْتُهُ حَتَّى يَرَاهُ النَّاسُ

ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نماز کے دوران شیطان میرے پاس آیا، تو میں نے اسے پکڑ لیا اور گلا گھونٹ دیا، یہاں تک کہ میں نے اس کی زبان کی ٹھنڈک اپنے ہاتھ پر محسوس کی۔ اگر میرے بھائی سلیمان (علیہ السلام) کی دعا نہ ہوتی، تو میں اسے مسجد کے ستون سے باندھ دیتا تاکہ لوگ اسے دیکھ سکتے۔( سنن النسائی، كتاب السهو، حدیث نمبر: 1210، جلد: 3، صفحہ: 51)

(4). میرے پاس رات ایک فرشتہ آیا: عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ:أَتَانِي اللَّيْلَةَ آتٍ مِنْ رَبِّي، فَقَالَ: صَلِّ فِي هَذَا الْوَادِي الْمُبَارَكِ، وَقُلْ: عُمْرَةٌ فِي حَجَّةٍ.

حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:آج رات میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور اس نے کہا: اس مبارک وادی میں نماز پڑھو اور کہو: عمرہ حج کے ساتھ۔ (سنن النسائی، كتاب المناسك، حدیث نمبر: 2754، جلد: 5، صفحہ: 118)

یہ احادیث نبی کریم ﷺ کے تربیتی انداز اور وحی کے نزول کے طریقوں کو ظاہر کرتی ہیں۔ ان میں ایمان، اعمال صالحہ، شیطان کے وسوسوں سے بچاؤ، اور آخرت کی حقیقتوں کی طرف رہنمائی دی گئی ہے۔

تمام تعریفیں اس ذات کے لیے ہیں جس نے آپ صلی علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی فرمائی اور لوگوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو بہترین نمونہ بنایا ، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف انداز سے لوگوں کی تربیت فرمائی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کسی بات کو واضح کرنے کے لیے "اتانی" جیسے عربی الفاظ کے ساتھ سمجھانے کا اسلوب بہت حکمت آمیز اور جامع تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو ہمیشہ حکمت، اختصار اور تاثیر کا نمونہ ہوا کرتی تھی۔

رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو فصاحت و بلاغت کا شاہکار ہوتی تھی، آپ کا ہر جملہ حکمت سے بھرپور اور ہر لفظ سامع کے دل میں اتر جانے والا ہوتا تھا۔ آپ جب کسی بات کو سمجھاتے، تو الفاظ کا ایسا انتخاب فرماتے جو نہ صرف مخاطب کی ذہنی سطح کے مطابق ہوتا بلکہ اس میں تاثیر بھی نمایاں ہوتی۔ ایسے ہی ایک انداز میں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بعض مواقع پر لفظ ”اتانی“ استعمال فرما کر تربیت فرمائی۔ایسی چند احادیث ملاحظہ کیجیے :

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں لفظ "أتانی" (میرے پاس آیا) کا استعمال اُن مواقع کی نشاندہی کرتا ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی یا ہدایت موصول ہوئی۔

(1) گندگی والے جوتوں میں نماز: إن الملك أتاني فأخبرني أن بنعلي أذى، فإذا جاء أحدكم إلى باب المسجد فليقلب نعليه، فإن رأى فيهما شيئا فليمسحهما، ثم ليصل فيهما أو ليخلعهما إن بدا له طس عن أبي هريرة

ترجمہ: فرشتہ میرے پاس آیا تھا اور اس نے مجھے خبر دی تھی کہ میرے جوتے میں گندگی لگی ہوئی ہے، پس جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں آیا کرے تو پہلے اپنے جوتوں کو الٹ پلٹ کر دیکھ لیا کرے اگر ان میں کچھ لگا ہوا ہو تو اس کو صاف کردیا کرے پھر ان میں نماز پڑھ لے یا اگر چاہے تو نکال دے۔ (الاوسط للطبرانی عن ابو ہریرہ ۔ کنزالعمال ،کتاب: نماز کا بیان، باب الإکمال ، حدیث نمبر: 20130، جلد 7، صفحہ 534)

(2) شفاعت کے بارے میں فرمان: عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، قَالَ:‏‏‏‏ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:‏‏‏‏ أَتَانِي آتٍ مِنْ عِنْدِ رَبِّي فَخَيَّرَنِي بَيْنَ أَنْ يُدْخِلَ نِصْفَ أُمَّتِي الْجَنَّةَ وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ، ‏‏‏‏‏‏فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ، ‏‏‏‏‏‏وَهِيَ لِمَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا

ترجمہ: عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا (جبرائیل علیہ السلام) میرے پاس آیا اور مجھے اختیار دیا کہ میری آدھی امت جنت میں داخل ہو یا یہ کہ مجھے شفاعت کا حق حاصل ہو، چنانچہ میں نے شفاعت کو اختیار کیا، یہ شفاعت ہر اس شخص کے لیے ہے جس کا خاتمہ شرک کی حالت پر نہیں ہوگا ۔ (جامع ترمذی، کتاب: قیامت کا بیان، باب: اسی کے متعلق، حدیث نمبر: 2609، جلد 4، صفحہ 199، حدیث نمبر: 2449 )

(3) درودشریف کی فضیلت: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا وَهُوَ يُرَى الْبِشْرُ فِي وَجْهِهِ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَرَى فِي وَجْهِكَ بِشْرًا لَمْ نَكُنْ نَرَاهُ قَالَ أَجَلْ إِنَّ مَلَكًا أَتَانِي فَقَالَ لِي يَا مُحَمَّدُ إِنَّ رَبَّكَ يَقُولُ لَكَ أَمَا يُرْضِيكَ أَنْ لَا يُصَلِّيَ عَلَيْكَ أَحَدٌ مِنْ أُمَّتِكَ إِلَّا صَلَّيْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا وَلَا يُسَلِّمَ عَلَيْكَ إِلَّا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا قَالَ قُلْتُ بَلَى

ترجمہ: حضرت عبداللہ بن ابوطلحہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ تشریف لائے آپ کے چہرے پر خوشی کے آثار تھے تو عرض کی گئی یا رسول اللہ آج ہم آپ کے چہرہ مبارک پر ایسی خوشی دیکھ رہے ہیں جو ہم نے پہلے نہیں دیکھی نبی اکرم ﷺ نے جواب دیا :ہاں !ابھی فرشتہ میرے پاس آیا تھا اور اس نے مجھ سے کہا اے محمد آپ کا پروردگار آپ سے یہ فرما رہا ہے کہ کیا آپ اس بات سے راضی نہیں ہیں کہ جو شخص آپ پر درود بھیجے گا میں اس پردس رحمتیں نازل کروں گا جو شخص آپ پر سلام بھیجے گا میں اس پردس مرتبہ سلام بھیجوں گا تو نبی اکرم ﷺ فرماتے ہیں میں نے کہا ہاں۔ میں اس بات سے راضی ہوں۔(سنن دارمی، کتاب: دل کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان، باب: نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجنے کی فضیلت، حدیث نمبر: 2815، جلد: 3، صفحہ: 1825)

(4) حضرت فاطمۃ الزہرا ، امام حسن و حسین کی فضیلت:أتاني ملك فسلم علي، نزل من السماء لم ينزل قبلها، فبشرني أن الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة وأن فاطمة سيدة نساء أهل الجنة. ابن عساكر - عن حذيفة

ترجمہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک فرشتہ میرے پاس آیا پس اس نے مجھے سلام کیا جو آسمان سے اترا اور اس سے پہلے کبھی نہیں اترا اس نے مجھے خوشخبری دی کہ حسن اور حسین رضى الله عنهما جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں اور بیشک فاطمہ رضى الله عنها جنتیوں کے عورتوں کی سردار ہیں۔ (ابن عساکر بروایت حذیفہ۔کنزالعمال، کتاب: فضائل کا بیان، باب: حضرت حسنین کا تذکرہ، حدیث نمبر: 34217 ، جلد:12، صفحہ:107)

یہی وہ اندازِ بیان تھا جس نے عرب کے فصیح و بلیغ افراد کو بھی حیران کر دیا، اور یہی وہ حکمت تھی جس کی بدولت اسلام کا پیغام عام فہم اور دل نشین ہو کر پھیلا۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس اسلوبِ بیان سے راہنمائی لیتے ہوئے بات کو واضح اور مؤثر انداز میں پیش کرنے کی کوشش کریں، تاکہ سننے والے کے دل میں اثر پیدا ہو اور وہ حق کی طرف مائل ہو جائے۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ اللہ اس پر عمل کر کے آگے پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

احادیثِ طیبات ہمارے دین کا ایک عظیم حصہ ہیں۔ قراٰنِ مجید کے بعد احادیث دوسری سب سے بڑی ‏راہنمائی کا ذریعہ ہیں جس ‏سے مسلمان اپنی زندگی کے تمام اہم معاملات کو حل کرتے اور خوش گوار زندگی گزارتے ہیں۔ ان میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ‏کی تعلیمات کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے جو فرد، خاندان اور معاشرتی زندگی ‏کے تمام پہلوؤں کو شامل کرتا ہے۔ ‏

‏” اَتَانِی “ ایک ایسا لفظ ہے جو احادیث میں کئی بار استعمال ہوا ہے اور یہ لفظ ہمیں اس بات کی یاد دہانی کراتا ہے کہ اللہ پاک کی ‏طرف سے ‏پیغامات اور ہدایات حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تک پہنچانے کا عمل مسلسل جاری رہا۔ یہ لفظ ہمیں اللہ کی جانب سے ہدایت ‏‏کی اہمیت اور جبرائیل علیہ السّلام کے ذریعے پیغام رسانی کی حقیقت سے آگاہ کرتا ہے۔

آئیے! ہم ایسی احادیث ملاحظہ کرتے ہیں جن میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے لفظ ” اَتَانِی “ کا استعمال ‏فرمایا ہے۔

(1)دو فرشتے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آئے: حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے عرض کی: ‏یَارسولَ الله صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ نے کیسے جانا کہ ‏آپ الله کے نبی ہیں؟ حتّٰی کہ آپ نے یقین کرلیا، تو فرمایا: اے ابو ذر! اَتَانِي ‏مَلَكَانِ وَاَنَا بِبَعْضِ بَطْحَاءِ مَكَّةَ یعنی میرے پاس دو فرشتے ‏آئے جب کہ میں مکہ کے ایک پتھریلے علاقہ میں تھا، تو ان میں سے ‏ایک تو زمین کی طرف آگیا اور دوسرا آسمان و زمین ‏کے درمیان رہا، تو ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا: کیا یہ و ہی ہیں؟ اس ‏نے کہا: ہاں، اس نے کہا کہ انہیں ایک شخص ‏سے تولو، میں اس سے تولا گیا تو میں وزنی ہوا، پھر اس نے کہا کہ انہیں دس سے تولو، تو میں ‏ان سے تولا گیا، میں ان پر وزنی ‏ہوا،پھر اس نے کہا کہ انہیں سو سے تولو، میں ان سے تولا گیا، میں ان پر بھی بھاری ہوا، وہ بولا: انہیں ‏ہزار سے تولو، میں ان سے ‏تولا گیا، تو میں ان پر بھی بھاری ہوگیا، گویا میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ پلہ ہلکا ہونے کی وجہ سے مجھ ‏پرگرے پڑتے ہیں تو ان ‏میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کہ اگر تم انہیں ان کی پوری امت سے تولو گے تو بھی یہ سب پر بھاری ‏ہوں گے۔(مشکاۃ المصابیح، 2/358، حدیث: 5774)یہ وزنی ہونا نبوت کے وزن سے ہوا، نبوت بڑی وزنی نعمت ہے۔(مراٰةُ المناجيح، 8/40)‏

(2)امتی کے لئے جنت کی خوشخبری:حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہُ عنہ نے نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے روایت کیا کہ نبیِّ پاک ‏صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمايا: ذَاكَ جِبْرِيلُ اَتَانِي فَاَخْبَرَنِي اَنَّهٗ مَنْ مَاتَ مِنْ اُمَّتِي لاَ يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الجَنَّةَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّه، ‏وَاِنْ زَنَى وَاِنْ سَرَقَ، قَالَ وَاِنْ زَنَى وَاِنْ سَرَقَ ترجمہ: یہ جبریل ہیں جو میرے پاس آئے اور مجھے خوشخبری دی کہ میری اُمّت میں سے ‏جو شخص فوت ہو گیا ‏اور اللہ پاک کا کسی کو شریک نہیں کرتا تھا وہ جنت میں داخل ہوگا، تو میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ! اگرچہ وہ ‏چوری اور زنا کرے؟حضور علیہ السّلام نے فرمایا: اگرچہ وہ ‏چوری اور زنا کرے‏۔(دیکھئے: بخاری، 4/179، حدیث: 6268)‏

(3)حضور علیہ السّلام نے شفاعت کو اختیار فرمایا: نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اَتَانِي آتٍ مِنْ عِنْدِ رَبِّي فَخَيَّرَنِي بَيْنَ اَنْ ‏يُدْخِلَ نِصْفَ اُمَّتِي الجَنَّةَ وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ وَهِيَ لِمَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا یعنی ‏ میرے رب کی طرف سے ‏ایک آنے والا (جبرائیل علیہ السّلام) میرے پاس آئے اور مجھے اختیار دیا کہ میری آدھی اُمت ‏جنت میں داخل ہو یا یہ کہ مجھے شفاعت کا ‏حق حاصل ہو، چنانچہ میں نے شفاعت کو اختیار کیا، یہ شفاعت ہر اس شخص ‏کے لئے ہے ‏جو اس حال میں فوت ہوا کہ اللہ پاک کے ‏ساتھ کسی چیز کو شریک نہیں ٹھہراتا تھا۔ (ترمذی، 4/199، حدیث: 2449)‏

پیارے اسلامی بھائیو! اگر ہم ان احادیث سے سیکھ کر اپنی زندگیوں میں ان تعلیمات کو اپنائیں، تو ہم نہ صرف اپنی دنیا کو ‏بہتر بنا ‏سکتے ہیں بلکہ آخرت کی کامیابی بھی حاصل کر سکتے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن ‏صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اپنے بندوں کو مال عطا کرتا ہے ، کسی کو کم اور کسی کو زیادہ ، پھر انھیں مال خرچ کرنے کا حکم دیتاہے ، انفاق فی سبیل اللہ کی ترغیب دلاتا ہے اور بخل اور کنجوسی سے منع کرتاہے۔آئیے چند ایک قرآنی مثالیں انفاق فی سبیل اللہ سے متعلق ملاحظہ کرتے ہیں۔

(1) الله کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی مثال : مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱)ترجمۂ کنزالایمان: ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ (البقرۃ:261)

تفسیر : راہِ خدا میں خرچ کرنے والوں کی فضیلت ایک مثال کے ذریعے بیان کی جارہی ہے کہ یہ ایسا ہے جیسے کوئی آدمی زمین میں ایک دانہ بیج ڈالتا ہے جس سے سات بالیاں اُگتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا ایک دانہ بیج کے طور پر ڈالنے والا سات سو گنا زیادہ حاصل کرتا ہے ، اسی طرح جو شخص راہِ خدامیں خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے اخلاص کے اعتبار سے سات سو گنا زیادہ ثواب عطا فرماتا ہے اور یہ بھی کوئی حد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اور وہ کریم و جواد ہے جس کیلئے چاہے اسے اس سے بھی زیادہ ثواب عطا فرما دے۔( تفسیرصراط الجنان ،پارہ : 3 ، سورۃ البقرة ، آیت نمبر : 261 )

(2) اپنے صدقے برباد نہ کرو

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-كَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِؕ-فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ فَتَرَكَهٗ صَلْدًاؕ-لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَیْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْاؕ-وَ اللّٰهُ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ(۲۶۴)

ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے برباد نہ کر دو اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھلاوے کے لئے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور قیامت پر ایمان نہیں لاتا تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چکنا پتھر ہو جس پر مٹی ہے تواس پر زوردار بارش پڑی جس نے اسے صاف پتھر کر چھوڑا، ایسے لوگ اپنے کمائے ہوئے اعمال سے کسی چیز پر قدرت نہ پائیں گے اور اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔

تفسیر: ارشاد فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! جس پرخرچ کرو اس پر احسان جتلا کر اور اسے تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے کا ثواب برباد نہ کردو کیونکہ جس طرح منافق آدمی لوگوں کو دکھانے کیلئے اور اپنی واہ واہ کروانے کیلئے مال خرچ کرتا ہے لیکن اس کا ثواب برباد ہوجاتا ہے اسی طرح فقیر پر احسان جتلانے والے اور اسے تکلیف دینے والے کا ثواب بھی ضائع ہوجاتا ہے۔

اس کی مثال یوں سمجھو کہ جیسے ایک چکنا پتھر ہو جس پر مٹی پڑی ہوئی ہو، اگراس پر زوردار بارش ہوجائے تو پتھر بالکل صاف ہوجاتا ہے اور اس پر مٹی کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ یہی حال منافق کے عمل کا ہے کہ دیکھنے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ عمل ہے اور روزِ قیامت وہ تمام عمل باطل ہوں گے کیونکہ وہ رضائے الٰہی کے لیے نہ تھے یا یوں کہہ لیں کہ منافق کا دل گویا پتھر کی چٹان ہے، اس کی عبادات خصوصاً صدقات اور ریا کی خیراتیں گویا وہ گردو غبار ہیں جو چٹان پر پڑ گئیں ، جن میں بیج کی کاشت نہیں ہو سکتی، رب تعالیٰ کا ان سب کو رد فرما دینا گویا وہ پانی ہے جو سب مٹی بہا کر لے گیا اور پتھر کو ویسا ہی کر گیا۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر صدقہ ظاہر کرنے سے فقیر کی بدنامی ہوتی ہو تو صدقہ چھپا کردینا چاہیے کہ کسی کو خبر نہ ہو۔لہٰذا اگر کسی سفید پوش یا معزز آدمی یا عالم یا شیخ کو کچھ دیا جائے تو چھپا کر دینا چاہیے۔ بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کو علم دین سکھایا ہوتو اس کی جزا کی بھی بندے سے امید نہ رکھے اور نہ اسے طعنے دے کیونکہ یہ بھی علمی صدقہ ہے ۔ (تفسیرصراط الجنان ،پارہ : 3 , سورۃ البقرة، آیت نمبر:264)

(3) جو لوگ الله کی رضا کے لیے مال خرچ کرتے ہیں : وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍۭ بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَیْنِۚ-فَاِنْ لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۲۶۵) ترجمۂ کنز العرفان: اور جولوگ اپنے مال اللہ کی خوشنودی چاہنے کیلئے اور اپنے دلوں کو ثابت قدم رکھنے کیلئے خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس باغ کی سی ہے جو کسی اونچی زمین پر ہو اس پر زوردار بارش پڑی تو وہ باغ دگنا پھل لایا پھر اگر زور دار بارش نہ پڑے تو ہلکی سی پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔(پارہ3، سورۃ البقرۃ، آیت: 265)

تفسیر : اس آیت میں ان لوگوں کی مثال بیان کی گئی ہےجو خالصتاً رضائے الٰہی کے حصول اور اپنے دلوں کو استقامت دینے کیلئے اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہیں کہ جس طرح بلند خطہ کی بہتر زمین کا باغ ہر حال میں خوب پھلتا ہے خواہ بارش کم ہو یا زیادہ، ایسے ہی بااخلاص مومن کا صدقہ کم ہو یا زیادہ اللہ تعالیٰ اس کو بڑھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دل کی کیفیت دیکھی جاتی ہے۔( تفسیرصراط الجنان ،پارہ : 3 , سورۃ البقرة، آیت نمبر : 265)

الله کی راہ میں خرچ کرنے کے فضائل پر مشتمل ایک حدیث مبارکہ پیش کرتا ہوں تاکہ خوش دلی سے صدقہ دینے کی مزید ترغیب ملے اور صدقہ دینے میں آسانی ہو۔

(1)حضرت رافع بن خدیج رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: صدقہ برائی کے ستر دروازوں کو بند کردیتاہے۔( مجمع الزوائد، کتاب الزکاۃ، باب فضل الصدقۃ، 3 / 283، الحدیث: 4604)

الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ الله پاک ہمیں اپنی راہ میں خوش دلی اور اخلاص کے ساتھ مال خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

انفاق فی سبیل اللہ کا مطلب ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اس میں زکوٰۃ صدقہ خیرات وغیرہ سب شامل ہیں قرآن وسنت میں انفاق کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے اللہ تعالیٰ نے انفاق کرنے والوں کو اجر عظیم کی بشارت دی ہے ۔ انفاق ایک بہت بڑا عمل ہے جس سے انسان دنیا اور آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتا ہے اللہ تعالیٰ نے انفاق کرنے والوں کی مثالیں قرآن مجید میں بیان فرمائی ہیں آئیے پڑھئے:

مثال نمبر 1: راہِ خدا میں خرچ کرنے کی فضیلت :مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱)ترجمۂ کنزالایمان: ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ (البقرۃ:261)

تفسیر:

راہِ خدا میں خرچ کرنے والوں کی فضیلت ایک مثال کے ذریعے بیان کی جارہی ہے کہ یہ ایسا ہے جیسے کوئی آدمی زمین میں ایک دانہ بیج ڈالتا ہے جس سے سات بالیاں اُگتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا ایک دانہ بیج کے طور پر ڈالنے والا سات سو گنا زیادہ حاصل کرتا ہے ، اسی طرح جو شخص راہِ خدامیں خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے اخلاص کے اعتبار سے سات سو گنا زیادہ ثواب عطا فرماتا ہے اور یہ بھی کوئی حد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اور وہ کریم و جواد ہے جس کیلئے چاہے اسے اس سے بھی زیادہ ثواب عطا فرما دے چنانچہ کئی جگہ پر اس سے بھی زیادہ نیکیوں کی بشارت ہے جیسے پیدل حج کرنے پر بعض روایتوں کی رو سے ہر قدم پر سات کروڑ نیکیاں ملتی ہیں۔(مسند البزار، مسند ابن عباس رضی اللہ عنہما، طاوس عن ابن عباس، ۱۱ / ۵۲، الحدیث: ۴۷۴۵)

مثال نمبر 2: اس باغ کی طرح ہے جو ہرحال میں پھلتاہے: وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍۭ بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَیْنِۚ-فَاِنْ لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۲۶۵) ترجمۂ کنز العرفان: اور جولوگ اپنے مال اللہ کی خوشنودی چاہنے کیلئے اور اپنے دلوں کو ثابت قدم رکھنے کیلئے خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس باغ کی سی ہے جو کسی اونچی زمین پر ہو اس پر زوردار بارش پڑی تو وہ باغ دگنا پھل لایا پھر اگر زور دار بارش نہ پڑے تو ہلکی سی پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔(پارہ3، سورۃ البقرۃ، آیت: 265)

تفسیر: اس آیت میں ان لوگوں کی مثال بیان کی گئی ہےجو خالصتاً رضائے الٰہی کے حصول اور اپنے دلوں کو استقامت دینے کیلئے اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہیں کہ جس طرح بلند خطہ کی بہتر زمین کا باغ ہر حا ل میں خوب پھلتا ہے خواہ بارش کم ہو یا زیادہ، ایسے ہی بااخلاص مومن کا صدقہ کم ہو یا زیادہ اللہ تعالیٰ اس کو بڑھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دل کی کیفیت دیکھی جاتی ہے نہ کہ فقط مال کی مقدار ،جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمارے دلوں اور تمہارے عملوں کو دیکھتا ہے۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم ظلم المسلم وخذلہ۔۔۔ الخ، ص۱۳۸۷، الحدیث: ۳۴(۲۵۶۴))