قارئین! وعظ و
نصیحت کا لفظ عام طور پر خلوص و عزت کے لیے بھلائی کی بات بتانے اور نیک صلاح
مشورے کے مفہوم میں استعمال ہوتا ہے جیسا کہ شفاء شریف میں ہے کہ جس شخص کو نصیحت
کی جا رہی ہو اس کی مکمل بھلائی اور خیر خواہی کے ارادے کو لفظ نصیحت تعبیر کیا
جاتا ہے۔ (صحابیات و صالحات کے اعلیٰ اوصاف، ص 351)
مشورہ دو طرح
کا ہوتا ہے: 1)اچھا مشورہ 2)غلط مشورہ۔
غلط مشورہ ایک
ایسا مشورہ ہوتا ہے جو کسی کے فائدے کے بجائے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔ یہ مشورہ
نادانستہ طور پر دیا جا سکتا ہے جیسا کہ کسی کی نا واقفیت کی وجہ سے، یا جان بوجھ
کر جیسا کہ کسی کے خلاف سازش کے طور پر۔
مشورہ
کی تعریف: کسی
معاملے میں دوسرے کی رائے دریافت کرنا۔
اللہ پاک
ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَ
اَقَامُوا الصَّلٰوةَ۪-وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَیْنَهُمْ۪-وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ
یُنْفِقُوْنَۚ(۳۸) (پ 25، الشوریٰ: 38) ترجمہ: اور جو
اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے سارے کام باہمی مشورہ
سے طے پاتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا اس سے خرچ کرتے ہیں۔
مفسرین نے
لکھا ہے کہ یہ آیت انصار کے حق میں نازل ہوئی جنہوں نے سید المرسلین ﷺ کی زبان
اقدس سے اپنے رب پاک کی دعوت قبول کر کے ایمان اور اطاعت کو اختیار کیا۔ ان انصار
کے اوصاف میں سے یہ بھی ہے کہ جب انہیں کوئی اہم معاملہ درپیش ہو تو پہلے آپس میں
مشورہ کرتے ہیں پھر وہ کام سرانجام دیتے ہیں، اس میں وہ جلد بازی اور من مرضی نہیں
کرتے۔ (صراط الجنان، 9/80 )
مشورہ
کرنے کی اہمیت: مشورے
کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا کہ اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کو بھی
اجتہادی امور میں صحابہ کرام رضی اللہ عنم سے مشورہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ
ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ شَاوِرْهُمْ
فِی الْاَمْرِۚ- ( پ 4، آل
عمران:159 ) ترجمہ: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔
اور تاجدار
رسالت ﷺ کے وصال ظاہری کے بعد صحابہ کرام بھی دینی و دنیاوی اہم امور باہم مشورے
سے طے کرتے تھے۔
مسلمانوں کو
اچھے مشورے کرنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ برے مشورے کرنے سے منع کیا گیا ہے۔ چنانچہ
ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا تَنَاجَیْتُمْ
فَلَا تَتَنَاجَوْا بِالْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ مَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ وَ
تَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَ التَّقْوٰىؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَ الَّذِیْۤ اِلَیْهِ
تُحْشَرُوْنَ(۹)
(پ 28، المجادلۃ:9) ترجمہ: اے ایمان والو! جب تم آپس میں مشورہ کرو تو گناہ اور حد
سے بڑھنے اور رسول کی نافرمانی کا مشورہ نہ کرو اور نیکی اورپرہیزگاری کا مشورہ
کرو اوراس اللہ سے ڈرو جس کی طرف تمہیں اکٹھا کیا جائے گا۔
اس آیت مبارکہ
سے مشورے کے متعلق معلوم ہونی والی 2 باتیں:
1) مسلمان
صلاح مشورے مسلمانوں ہی سے کریں، کفار سے نہ کریں اور انہیں اپنا مشیر وغیرہ نہ
بنائیں۔
2)آپس میں
مشورے بھی اچھے ہی کریں، برے نہ کریں۔
مشورہ کرنا
سنت ہے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس شخص سے کوئی مشورہ لیا جائے وہ امین ہو جاتا
ہے اگر اس نے جان بوجھ کر غلط مشورہ دیا تو وہ خیانت کرنے والا کہلائے گا۔ (ترمذی،
4/375، حدیث: 2831)
مفتی احمد یار
خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (جب) تم سے کوئی مشورہ کرے تو اچھا مشورہ دو، اگر
شرعی مسئلہ پوچھے تو ضرور بتاؤ یعنی خالص اچھی رائے دو جس میں برائی کا شائبہ نہ
ہو۔ (صحابیات و صالحات کے اعلیٰ اوصاف، ص 359)
حضرت حسن رضی اللہ
عنہ نے فرمایا: جو قوم مشورہ کرتی ہے وہ صحیح راہ پر پہنچتی ہے۔ (صراط الجنان، 9/81)
بار بار غلط
مشورہ ملنے سے بسا اوقات انسان خود اعتمادی کی کمی کا شکار ہو جاتا ہے، جس کے سبب
وہ درست فیصلہ بھی نہیں کر پاتا۔ جس سے مشورہ لیا جائے اس پر لازم ہے کہ مخلص ہو
کر اچھا مشورہ دے۔
جس سے مشورہ
لیا جائے اس میں درج ذیل خصوصیات ہونی لازمی ہیں: