غلط مشورہ دینا خیانت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس نے اپنے بھائی کو مشورہ دیا جبکہ اسے علم تھا کہ بھلائی اس کے خلاف میں ہے تو اس نے اس کی خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث: 3657)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس سے مشورہ طلب کیا جائے وہ امانت دار ہے۔ (ترمذی، 4/375، حدیث: 2831)

جہاں تک مسلمان کو مشورہ دینے کا تعلق ہے تو اس بارے میں رسول اکرم ﷺ کا فرمان موجود ہے: جب وہ تجھ سے کوئی مشورہ طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کرتے ہوئے اسے اچھا مشورہ دے۔ (مسلم، ص 919، حدیث: 5651)

غلط مشورہ لے ڈوبا: حضرت موسیٰ کلیم اللہ اور حضرت ہارون علیہما السلام نے جب خدائی کا جھوٹا دعوی کرنے والے فرعون کو ایمان کی دعوت دی تو اس نے اپنی بیوی حضرت سید تنا آسیہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ کیا۔ انہوں نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کیلئے مناسب نہیں ہے کہ ان دونوں کی دعوت کو رد کردے۔ فرعون اپنے وزیر ہامان سے مشورہ کئے بغیر کوئی کام نہیں کرتا تھا، جب اس نے ہامان سے مشورہ کیا تو اس نے کہا: میں تو تمہیں عقل مند سمجھتا تھا ! تم حاکم ہو، یہ دعوت قبول کر کے محکوم بن جاؤ گے اور تم رب ہو، اسے قبول کرنے کی صورت میں بندے بن جاؤ گے ! چنانچہ ہامان کے مشورے پر عمل کی وجہ سے فرعون دعوت ایمان کو قبول کرنے سے محروم رہا۔ (تفسیر روح المعانی، جزء 16، ص 682)

مشورہ کس سے کیا جائے؟ ہر کسی سے مشورہ لینا دانشمندی نہیں اور نہ ہر کوئی ہر معاملے میں درست مشورہ دینے کا اہل ہوتا ہے، چنانچہ کوئی بھی شخص گاڑی کے ٹائروں کے بارے میں کسی ڈاکٹر سے مشورہ نہیں کرے گا اور نہ کپڑے کے تاجر سے سونے کے زیورات کے بارے میں مشورہ کرے گا، چنانچہ مشورہ ایسے لوگوں سے کیجئے جو تجربہ کار، عقل مند، تقویٰ والے، خیر خواہ اور بے غرض ہوں، اس کے فوائد آپ خود ہی دیکھ لیں گے۔

بن مانگے مشورہ نہ دیا کریں جو چیز طلب کر کے لی جائے اس کی قدر زیادہ ہوتی ہے اور جو مفت میں مل جائے اس کی ناقدری زیادہ ہوتی ہے۔ اس لئے جب تک آپ سے مشورہ مانگا نہ جائے اس وقت تک خاموش رہنے میں عزت و عافیت ہے ورنہ سامنے والا منہ پھٹ ہوا تو یہ بھی کہہ سکتا ہے: آپ سے کسی نے پوچھا ہے ؟ لیکن کیا کیجئے ! ہمارے معاشرے میں بن مانگے مشورے دینے والوں کی کمی نہیں۔