مشورہ کے
معنیٰ: کسی معاملے میں کسی کی رائے دریافت کرنا۔ کام کسی بھی نوعیت کا ہو! اسے
کرنے کے لئے کسی سے مشورہ کر لینا بہت مفید ہے۔
مشورہ کرنا
سنّت سرکار ہے۔ آپ ﷺ نے میدان بدر میں جگہ کے انتخاب کے لئے حضرت حباب بن منذر رضی
اللہ عنہ کا مشورہ قبول فرمایا جس کا مسلمان لشکر کو فائدہ ہوا۔ (تاریخ اسلام، 3/286)
ہمارے خلفائے
راشدین بھی مشورہ کرتے تھے، چنانچہ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ
عنہ نوجوان اورعمر رسیدہ دونوں طرح کے علمائے کرام سے مشورہ کیا کرتے تھے۔
حضرت عمر بن عبد
العزیز رضی اللہ عنہ خلیفہ بننے سے پہلے جب مدینے شریف کے گورنر بنے تو پہلا کام
یہ کیا کہ وہاں کے فقہائے کرام کو جمع کرکے ان سے مشورہ کیا اور ان کی باقاعدہ
مجلس شوریٰ بنادی جو آپ کو ضرورتاً مشورے دیا کرتی تھی۔ (البدایۃ و النھایہ، 6/ 332)
آج
کے دور میں مشورہ کس سے مانگیں؟ ہر کسی سے بھی مشورہ لینا عقلمندی نہیں
ہے ہر معاملے میں ہر کسی سے بھی مشورہ نہیں لیا جا سکتا۔ کیونکہ ہر چیز کی قیمت اس
چیز کا قدر دان ہی بہتر جان سکتا ہے۔
جیسے کہ ایک
نایاب موتی کی قیمت ایک سونار ہی جان سکتا ہے۔ مگر عام آدمی کی نظر میں اس کی کچھ
قیمت نہیں۔ اس لیے مشورہ بھی کسی عقلمند اور تجربی کار انسان سے کیا جائے جو آپ کو
کسی مصیبت میں بھی نہ ڈالے۔
جیسا کہ تفسیر
روح المعانی میں بیان ہے کہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ اور حضرت ہارون علیہما السلام نے
جب خدائی کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے فرعون کو ایمان کی دعوت دی تو اس نے اپنی بیوی
حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ کیا۔ انہوں نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کیلئے مناسب
نہیں ہے کہ ان دونوں کی دعوت کو رد کردے۔ فرعون اپنے وزیر ہامان سے مشورہ کئے بغیر
کوئی کام نہیں کرتا تھا، جب اس نے ہامان سے مشورہ کیا تو اس نے کہا: میں تو تمہیں
عقل مند سمجھتا تھا! تم حاکم ہو، یہ دعوت قبول کرکے محکوم بن جاؤ گے اور تم رب
ہو،اسے قبول کرنے کی صورت میں بندے بن جاؤ گے! چنانچہ ہامان کے مشورے پر عمل کی
وجہ سے فرعون دعوت ایمان کو قبول کرنے سے محروم رہا۔ (تفسیر روح المعانی، جزء: 16،
ص 682)
ہامان کے
فرعون کو غلط مشورے نے اس کو ایمان قبول کرنے سے محروم کر دیا ایسے ہی بہت سے
بیوقوف لوگ ہیں جو دوسروں کو غلط مشورے دے کر ان کو مصیبتوں میں ڈال دیتے ہیں۔
حالانکہ ان کو خود معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کیا مشورہ دے رہے ہیں۔
جس سے مشورہ
کیا جائے اسے چاہئے کہ درست مشورہ دے ورنہ خائن (یعنی خیانت کرنے والا) ٹھہرے گا،
فرمان مصطفٰے ﷺ ہے: جو اپنے بھائی کوجان بوجھ کر غلط مشورہ دے تواس نے اپنے بھائی
کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث:3657) یعنی اگر کوئی مسلمان کسی سے
مشورہ حاصل کرے اور وہ دانستہ غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو
وہ مشیر (یعنی مشورہ دینے والا) پکّا خائن ہے خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی،
راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 1/212)
اس لیے چاہیے
کہ کسی کو غلط مشورہ نہ دیا جائے۔ کیونکہ ہر کسی کی جسمانی و ذہنی کیفیات مختلف
ہوتی ہیں۔ ایک ہی چیز کسی کو ترقّی دے دیتی ہے اور کسی کو زمین پر دے مارتی ہے!
شاید آپ کہیں کہ ہم نے محبت اور ہمدردی میں مشورہ دیا تو یاد رکھئے کہ نادان دوست
سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے، ہر سمجھ دار شخص اپنے برے بھلے کو خوب پہچانتا ہے اس
کی ہمدردی کسی اور کے ساتھ ہو نہ ہو اپنے ساتھ ضرور ہوتی ہے۔
اس لیے ہمیں
چاہیے کہ کو مشورہ دیں تو غلط مشورہ نہ دیں بلکہ اس کو صحیح مشورہ دیں اور صحیح
انسان سے ہی مشورہ کرے۔