مشورہ اور
مشاورت کے معنی ہیں رائے معلوم کرنا، باہمی سوچ بچار کرنا۔
مشورہ
کا حکم: اہم
معاملات میں باہمی مشورہ لینا آپ ﷺ اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سنت اور
دنیا و آخرت میں باعثِ برکت ہے۔ (معارف القرآن، 2/219)
مشورہ ایک
امانت ہے اور مشورہ دینے والا امانت دار ہوتا ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: اگر کسی سے اس کے مسلمان بھائی نے مشورہ
مانگا، اور اس نے بغیر سوچے سمجھے مشورہ دے دیا تو اس نے اس مسلمان بھائی کے ساتھ
خیانت کی۔ (الادب المفرد، ص 254)
رسول پاک ﷺ نے
فرمایا: وہ جب تجھ سے کوئی مشورہ طلب کرے تو اس کی خیر خواہی کرتے ہوئے اسے اچھا
مشورہ دے۔ (مسلم، ص 919، حدیث: 5651)
دین اسلام کی
روشن تعلیمات میں مشورہ کی اہمیت کو بھی اجاگر کیا گیا ہے۔ اسلام میں مشورہ کی
اہمیت کس قدر ہے اس کا اندازہ یہاں سے لگائیں کہ اللہ پاک نے خود اپنے حبیب ﷺ کو
مشورہ کرنے کا حکم دیا، حالانکہ نبیّ کریم ﷺ سے بڑا دانا اور عقل مند کون ہوسکتا
ہے؟ جہاں بھر کی عقل و دانش آپ ﷺ کی عقل و دانش کے لاکھویں حصے تک بھی نہیں، مشہور
تابعی حضرت وہب بن منبہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں نے متقدمین کی 71کتابیں
پڑھی ہیں، ان تما م کتابوں میں یہی پایا کہ اللہ پاک نے دنیا کے آغاز سے لے کر
دنیا کے انجام تک تمام لوگوں کو جس قدر عقلیں عطا فرمائی ہیں ان سب کی عقلیں نبیّ
کریم ﷺ کی عقل مبارک کے مقابلے میں یوں ہیں جیسے دنیا بھر کے ریگستانوں کے مقابلے
میں ایک ذرہ ہو۔ آپ کی رائے ان سب سے افضل و اعلیٰ ہے۔ ایسی کمال عقل کے باوجود
اللہ پاک نے اپنے حبیب ﷺ کو مشورہ کرنے کا حکم دیا، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ
شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ- ( پ 4، آل عمران:159 ) ترجمہ: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔
تفسیر قرطبی
میں ہے: اللہ پاک نے نبیّ کریم ﷺ کو اپنے اصحاب سے مشورہ کرنے کا حکم اس وجہ سے
نہیں دیا کہ اللہ اور اس کے حبیب ﷺ کو ان کے مشورہ کی حاجت ہے، حکم دینے کی وجہ یہ
ہے کہ انہیں مشورے کی فضیلت کا علم دے اور آپ کے بعد آپ کی امّت مشورہ کرنے میں آپ
کی اتّباع کرے۔ ایک روایت میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو نبیّ کریم ﷺ نے فرمایا:
اللہ اور اس کے رسول کو مشورہ کی ضرورت نہیں ہے لیکن اللہ پاک نے مشورہ کو میری
امّت کے لئے رحمت بنایا ہے۔ نبیّ کریم ﷺ خود بھی مشورہ فرماتے اور دوسروں کو بھی
اس کا حکم دیتے، آئیے! اسی بارے میں دوفرامین مصطفٰے پڑھتے ہیں:
(1)عقل مندوں
سے مشورہ کرو کامیابی پالو گے اور ان کی مخالفت نہ کرو ورنہ شرمندگی پاؤ گے۔
(2)جو شخص کسی
کام کا ارادہ کرے اور اس میں کسی مسلمان شخص سے مشورہ کرے اللہ پاک اسے درست کام
کی ہدایت دے دیتا ہے۔
مشورہ
سے متعلق کچھ آداب: مشورہ کس سے کرنا ہے اس بارے خوب غور و فکر سے کام
لینا چاہئے اور مشورہ سے پہلے خوب سوچ لینا چاہئے کیونکہ ہرکس و ناکس، ناتجربہ کار،
بددین و بدخواہ وغیرہ سے مشورہ بہت ہی نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ جس سے مشورہ کیا
جائے اس کے لئے بھی لازم ہے کہ وہ اپنے بھائی کے حق کو سمجھتے ہوئے بہترین مشورہ
دے، نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے اپنے بھائی کو کوئی ایسا مشورہ دیا جبکہ
اسے علم تھا کہ بھلائی اس کے خلاف میں ہے تو اس نے اس کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود،
3/449، حدیث: 3657)
بن
مانگا مشورہ نہ دیا کریں: جو چیز طلب کر کے لی جائے اس کی قدر
زیادہ ہوتی ہے اور جو مفت میں مل جائے اس کی نا قدری زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے جب تک
آپ سے مشورہ مانگا نہ جائے اس وقت تک خاموش رہنے میں عزت اور عافیت ہے ورنہ سامنے
والا اگر منہ پھٹ ہوا تو یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ آپ سے کسی نے پوچھا ہے؟ لیکن کیا
کیجئے ! ہمارے معاشرے میں بن مانگے مشورہ دینے والوں کی کمی نہیں۔
رسول پاک ﷺ نے
ارشاد فرمایا: جس شخص سے مشورہ کیا جاتا ہے وہ امانت دار ہوتا ہے اسے امانت داری
کا پورا حق ادا کرنا چاہیے۔ (ترمذی، 4/375، حدیث: 2831)اسلام یہ تعلیم دیتا ہے کہ
باہمی امور میں مشاورت سے کا لیا جائے۔ یہ اللہ پاک کا حکم بھی ہے اور سنت رسول ﷺ
بھی۔ لہذا موقع پر مشورہ اور مشاورت کا اہتمام ایک ضروری امر ہے۔
قرآن پاک میں
ہے: وَ
الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ۪-وَ اَمْرُهُمْ
شُوْرٰى بَیْنَهُمْ۪-وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۚ(۳۸) (پ 25، الشوریٰ: 38) ترجمہ: اور جو
اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے سارے کام باہمی مشورہ
سے طے پاتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا اس سے خرچ کرتے ہیں۔
یاد رہے کہ ہر
بن مانگا مشورہ برا نہیں ہوتا لیکن اس پر اصرار کرنے والوں میں شامل تو نہیں؟ اگر
ایسا ہے تو دوسروں کی نجی زندگی ( personal life) کا احترام کرنا سیکھئے۔ اپنے الفاظ اور
لہجے میں لچک پیدا کریں تا کہ سامنے والا آزمائش میں نہ پڑے۔ عین ممکن ہو کہ آپ کا
مشورہ تو بلکل درست ہو لیکن اس غریب کے پاس اس مشورے پر عمل کرنے کے لیے رقم ہی نہ
ہو ایسے میں آپ کااصرار اسے شرمندہ کر دے گا۔ ہر ایک کی ذہنی، قلبی اور جسمانی
کیفیت الگ ہوتی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کی پسند نا پسند اور نفع نقصان بھی ایک جیسے
نہیں ہوتے ایک ہی چیز کسی کو ترقی دے دیتی ہے اور کسی کو زمین پر دے مارتی ہے!
شاید آپ کہیں کہ ہم نے محبت میں ہمدردی میں مشورہ دیا تو دیکھئے کہ نادان دوست سے
دانا دشمن بہتر ہوتا ہے، ہر سمجھدار شخص اپنے برے بھلے کو خوب پہنچانتا ہے اس کی
ہمدردی کسی اور کے ساتھ ہو یا نہ ہو اپنے ساتھ ضرور ہوتی ہے۔ ہر ایک کو اس کی
زندگی میں دخل اندازی کا حق نہیں دیا جا سکتا ہاں ! ماں باپ، بہن بھائیوں، استاد، مرشد
اور عالم دین کی بات دوسری ہے، یہ بھی احتیاط کادامن تھام کر مشورہ دیں۔ یہی ہماری
سماجی زندگی کا حسن ہے اسے برقرار رکھئے آسانیاں پیدا کیجیے اور دوسروں کی زندگی
مشکل نہ بنائیے۔
کیا ہی اچھا
ہو کہ آج مسلمان اس عظیم سنت کی پیروی کریں جس میں اس کی سعادت، خوش بختی اور
معاشرے کی ترقی کا راز بھی پوشیدہ ہے اور ہزاروں دینی اور دنیاوی فائدے بھی ہیں۔