مشورہ کرنے کا حکم اللہ پاک نے اپنے پیارے حبیب ﷺ کو قرآن کریم میں دیا۔ مشورہ کرنا سنت مصطفی ہے۔ مشورہ کرنے والا دانائی اور حکمت کو پا لیتا ہے۔ مشورہ انسان کو درستی کے قریب کر دیتا ہے۔ لیکن یہ سب برکات اچھے اور درست مشورے کے ساتھ خاص ہیں جبکہ اس کے برعکس غلط مشورہ انسان کو تباہی کے دہانے پر لا کھڑا کرتا ہے۔ غلط مشورے نے ہی فرعون کو دلائل واضح ہوجانے کے باوجود حق کا انکار کرنے پر ابھارا۔غلط مشورے نے ہی عقبہ بن ابی معیط کو مسلمان ہونے کے بعد مرتد ہونے پر مجبور کیا۔غلط مشورہ ہی ابن سعد کی امام حسین رضی اللہ عنہ پر لشکر کشی کا سبب بنا۔ غرض یہ کہ ایک غلط مشورہ کی وجہ سے انسان انسانیت کے درجے سے گرے کام کر گزرتا ہے اور پھر دنیا و آخرت میں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اگر دیکھا جائے تو غلط مشورہ تین پہلوؤں پر مشتمل ہے:

غلط فرد سے مشورہ کرنا،غلط کام کا مشورہ کرنا،کسی کو غلط مشورہ دینا۔آئیے مختصرا ان کا جائزہ لیتے ہیں:

غلط فرد سے مشورہ لینا: نااہل سے مشورہ کرنا مشورہ کرنے والے کی نااہلیت پر دلالت کرتا ہے۔احمق اور بیمار سے مشورہ کرنے سے منع کیا گیا کہ احمق فائدہ پہنچانے کے چکر میں نقصان پہنچا دے گا اور بیمار کی رائے بھی بیمار ہوتی ہے۔ کسی بھی معاملے میں مشورہ طلب کرتے وقت مشیر کی قابلیت اور صلاحیت کو مد نظر رکھا جائے ورنہ اگر ہیرے کی قیمت میں سبزی فروش سے مشورے کرنے پر اس کی قیمت چند لیموں ہی طے پا سکتی ہے۔

کفار غلط افراد سے مشورہ طلب کرنے اور دوستی کے سبب نصیحت آنے کے باوجود کفر پر قائم رہے اور قیامت کے دن ان کی حسرت کے الفاظ کو یوں بیان فرمایا گیا: یٰوَیْلَتٰى لَیْتَنِیْ لَمْ اَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِیْلًا(۲۸) لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّكْرِ بَعْدَ اِذْ جَآءَنِیْؕ- (پ 19، الفرقان: 28، 29)ترجمہ کنز العرفان: ہائے میری بربادی! اے کاش کہ میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا۔ بیشک اس نے میرے پاس نصیحت آجانے کے بعد مجھے اس سے بہکا دیا۔

حضرت سفیان ثوری علیہ رحمۃ اللہ القوی فرماتے ہیں:تمہارے مشیر متقی، امانت دار اور اللہ سے ڈرنے والے ہوں۔

غلط کام کا مشورہ کرنا: اگر جس کام کیلئے مشورہ کیا جا رہا ہے وہ ہی برا اور مذموم ہے تو اس کیلئے مشاورت بھی یقینا غلط ہی ہے۔قرآن پاک میں برائی کے کام پر ایک دوسرے کی مدد کرنے سے منع فرمایا گیا: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ: اور نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔ یوہیں غلط کام کیلئے مشورہ کرنے والوں کیلئے فرمایا: لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ (پ 5، النساء: 114) ترجمہ کنز العرفان: ان کے اکثرخفیہ مشوروں میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی۔

صراط الجنان میں ہے: اس آیت مبارکہ میں اس گروہ کے لئے نصیحت ہے جن کے مشورے فضولیات پر مشتمل ہوتے ہیں یا جو معاذاللہ گناہ کو پروان چڑھانے کیلئے مشورے کرتے ہیں جیسے سینما بنانے، بے حیائی کے سینٹر بنانے، فلمی صنعت کی ترقی کیلئے مشورے کرتے ہیں یہ مشورے صرف خیر سے خالی نہیں بلکہ شر سے بھر پور ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو ہدایت عطا فرمائے۔

غلط مشورہ دینا: بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے مشیر اہل ہونے کے باوجود کسی فاسد غرض کی بنا پر درست مشورہ نہیں دیتا۔کبھی معاملہ سلجھتا نظر آ رہا ہوتا ہے مگر کہیں یہ مجھ سے آگے نہ نکل جائے اس دوڑ میں غلط مشورے سے اس کو مزید الجھا دیا جاتا ہے تو کبھی بغض و کینہ یا حسد غلط رائے دینے پر ابھارتا ہے۔ جیسے شیطان نے جنت میں حضرت آدم علیہ السلام کو نقصان پہنچانے کی غرض سے وسوسہ ڈالا کہ تمہیں تمہارے رب نے ممنوعہ درخت سے اس لیے منع فرمایا ہے کہ کہیں تم فرشتے نہ بن جاؤ یا تم ہمیشہ زندہ رہنے والے نہ بن جاؤ اس مشورے کی وجہ سے حضرت حوا رضی اللہ عنہا نے اس درخت سے کھایا اور حضرت آدم علیہ السلام کو بھی دیا اس پر دونوں کو جنت سے زمین پر اترنے کا حکم الہی ہوا۔ یاد رہے کہ مشورہ دینے والا امین ہے۔اللہ پاک کے آخری نبی ﷺ نے فرمایا: جو اپنے بھائی کو کسی چیز کا مشورہ یہ جانتے ہوئے دے کہ درستی اس کے علاوہ میں ہے اس نے اس کی خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث:3657)

اللہ پاک ہمیں اچھے افراد کی صحبت عطا فرمائے اور برے افراد کے شر سے محفوظ رکھے۔

زندگی کے مختلف معاملات میں درست مشورے کے حصول کیلئے مدنی مذاکرے میں شرکت کو معمول بنا لیجئے۔