بہو کو
نوکرانی مت سمجھیے از بنت ظفر اقبال، جامعۃ المدینہ معراج کے سیالکوٹ
گھر کا سکون
جن چیزوں سے وابستہ ہے ان میں سے ایک جھگڑے سے بچنا بھی ہے چنانچہ جس گھر میں ساس
بہو سے لڑتی ہے اس گھر میں امن و سکون کی فضا قائم ہونے کی وجہ ٹینشن کی کیفیت
دکھائی دیتی ہے نہ جانے کون سا پردہ پڑ جاتا ہے کہ انہیں اپنے عزت و وقار کا احساس
رہتا ہے نہ سامنے والے کی عزت کا لہذا انہیں چاہیے کہ اتفاق اور محبت کے ساتھ گھر
کو چلائیں تاکہ گھر میں امن سکون برپا ہو، ہر شخص کا مزاج الگ ہوتا ہے مثلا کسی کو
سالن میں تیز مرچ اچھی لگتی ہے تو کسی کو ہلکی دوسروں کو اپنے مزاج کا پابند نہ
بنائیں درمیانہ راستہ نکالنا ہی دانشمندی ہے۔
غلطیاں کس سے
نہیں ہوتیں بہو اگر سالن بنائے تو اس میں بھی نقص نکالے جاتے ہیں کہ آج مرچ زیادہ
ہے یا کم ہے یا نمک زیادہ ہے یا کم ہے تو لہذا یہ نقص نہیں نکالنے چاہیے ظاہر ہے
غلطی کس سے نہیں ہوتی خود ہی پر غورکر لیجئے اپنی بڑی غلطی پر ہلکی سی معذرت کر
لینا اور دوسروں کی چھوٹی غلطی پر پاؤں پکڑ کر زمین پر ناک رگڑ کر معافی مانگنے کا
تقاضا کرنا جھگڑے کا راستہ کھولتا ہے ہر معاملے میں اپنی من مانی کرنا دوسروں کو
تنگی میں مبتلا کرنے والی بات ہے دوسروں کی بھی سنیں پھر اس کے فائدے دیکھیں ہر
بات میں حکم چلانا آج یہ پکا لو یہاں نہیں جانا آج وہاں نہیں جانا ہر چیز میں نقص
نکالنا اچھی عادت نہیں ہوتی۔
محترم اسلامی
بہنو! آپس میں صلح اور پیار محبت کے ساتھ رہنے میں فائدہ ہے جب کہ جھگڑے میں نقصان
تو ہمیں ایسا کچھ کرنا چاہیے کہ جھگڑے کی نوبت ہی نہ آئے۔ جھگڑا چھوڑنے کی فضیلت
بیان کرتے ہوئے سرکار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص حق پر ہونے کے باوجود جھگڑا
چھوڑ دے اس کے لیے جنت کے بیچ میں گھر بنایا جائے گا۔ (ترمذی، 3/400، حدیث: 2000)
ساری زندگی
ساس سسر اپنی بیٹی کے وکیل رہتے ہیں اور اپنی بہو کے جج بنے رہتے ہیں اس کے لیے
فیصلے سناتے ہیں اور اپنی بیٹی کے وکیل بن کے رہتے ہیں اس کی وکالت کرتے ہیں کہ
ابھی بچی ہے سیکھتے سیکھتے سیکھ جائے گی مسلمانوں کا یہ اخلاقی رویہ نہیں ہونا
چاہیے نبی پاک ﷺ نے ہمیں سبق دیا ہے کہ جو قریب رہنے والے ہیں انہیں ہی تو معاف
کرنا ہے دوسروں کو تو معاف کرنا ہی نہیں پڑتا معافی تو اپنوں کو دی جاتی ہے بعضوں
کی تو عادت ہوتی ہے یہ بات بات پر بہو کو
جاہل قرار دیتے ہیں کہ تمہیں تو کچھ پتہ ہی نہیں اگر کوئی سادہ بن کر رہے تو اس کا
یہ مطلب تو نہیں ہے کہ وہ جاہل ہے ہر بات پر ساس اپنی بہو کی دل آزاری طنز طعنے
تہمت لگانا ہر چیز میں عیب نکالنا گالی گلوچ کرنا ہاتھا پائی خدا کی پناہ کیا کچھ
نہیں ہوتا لہذا انہیں چاہیے کہ امن سکون سے گھر چلائیں۔
اور اگر مرد
اپنی بیوی کا ساتھ دے تو گھر والے کہتے ہیں کہ اس نے ہمارے بیٹے پر جادو ٹونا کر
دیا ہے یاد رہے کہ بلا ثبوت شرعی کسی کے بارے میں بدگمانی کرنا جائز نہیں۔ ارشادِ
باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ
الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ (پ26،الحجرات: 12) ترجمہ: اے
ایمان والو! بہت گمانوں سے بچو بے شک کوئی گمان گناہ ہو جاتا ہے۔ جھگڑالو شخص کی
مذمت کرتے ہوئے مدنی تاجدار ﷺ نے فرمایا: بے شک اللہ کو لوگوں میں سب سے ناپسندیدہ
وہ لوگ ہیں جو شدید جھگڑالو ہیں۔ (بخاری، 2/130، حدیث: 2457)
لہذا ایسا
ہرگز نہیں کرنا چاہیے بلکہ بہو کے ساتھ نرمی سے پیش آنا چاہیے کیونکہ وہ اپنا گھر
بار ماں باپ بہن بھائی سب کو چھوڑ کر ان کی خدمت کے لیے آتی ہے انہیں چاہیے کہ بہو
کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں اور اس کے احسانات کو تسلیم کریں اور اس کے دل جوئی کے
لیے اس سے دعاؤں سے نوازے کہ تم گھر کو سنبھالتی ہو میرے کھانے پینے پہننے کا خیال
رکھتی ہو گھر کی صفائی بھی کرتی ہو اللہ تمہیں اس کا عظیم ثواب عطا فرمائے ایک
دوسرے کے بارے میں حسن ظن رکھیے ان شاء اللہ گھر خوشیوں کا گلشن بن جائے گا۔
اللہ تعالیٰ
ہمارے گھروں کو امن کا گہوارہ بنائے۔ آمین