محمد عاصم اقبال عطّاری
(درجہ خامسہ جامعۃُ المدینہ فیضانِ فاروقِ اعظم سادھوکی لاہور )

احادیثِ طیبات
ہمارے دین کا ایک عظیم حصہ ہیں۔ قراٰنِ مجید کے بعد احادیث دوسری سب سے بڑی
راہنمائی کا ذریعہ ہیں جس سے مسلمان اپنی زندگی کے تمام اہم معاملات کو حل کرتے
اور خوش گوار زندگی گزارتے ہیں۔ ان میں رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
کی تعلیمات کا ایک وسیع ذخیرہ موجود ہے جو فرد، خاندان اور معاشرتی زندگی کے
تمام پہلوؤں کو شامل کرتا ہے۔
” اَتَانِی “
ایک ایسا لفظ ہے جو احادیث میں کئی بار استعمال ہوا ہے اور یہ لفظ ہمیں اس بات کی یاد
دہانی کراتا ہے کہ اللہ پاک کی طرف سے پیغامات اور ہدایات حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم تک پہنچانے کا عمل مسلسل جاری رہا۔ یہ لفظ ہمیں اللہ کی جانب سے ہدایت
کی اہمیت اور جبرائیل علیہ السّلام کے ذریعے پیغام رسانی کی حقیقت سے آگاہ کرتا
ہے۔
آئیے! ہم ایسی
احادیث ملاحظہ کرتے ہیں جن میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے لفظ ”
اَتَانِی “ کا استعمال فرمایا ہے۔
(1)دو فرشتے حضور صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے پاس آئے: حضرت
ابو ذر غفاری رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے عرض کی: یَارسولَ الله صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ نے کیسے جانا کہ آپ الله کے نبی ہیں؟ حتّٰی کہ آپ
نے یقین کرلیا، تو فرمایا: اے ابو ذر! اَتَانِي مَلَكَانِ وَاَنَا بِبَعْضِ بَطْحَاءِ مَكَّةَ یعنی میرے پاس دو فرشتے آئے جب کہ میں مکہ کے
ایک پتھریلے علاقہ میں تھا، تو ان میں سے ایک تو زمین کی طرف آگیا اور دوسرا
آسمان و زمین کے درمیان رہا، تو ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا: کیا یہ و ہی
ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، اس نے کہا کہ انہیں ایک شخص سے تولو، میں اس سے تولا گیا
تو میں وزنی ہوا، پھر اس نے کہا کہ انہیں دس سے تولو، تو میں ان سے تولا گیا، میں
ان پر وزنی ہوا،پھر اس نے کہا کہ انہیں سو سے تولو، میں ان سے تولا گیا، میں ان
پر بھی بھاری ہوا، وہ بولا: انہیں ہزار سے تولو، میں ان سے تولا گیا، تو میں ان
پر بھی بھاری ہوگیا، گویا میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ پلہ ہلکا ہونے کی وجہ سے
مجھ پرگرے پڑتے ہیں تو ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کہ اگر تم انہیں ان کی
پوری امت سے تولو گے تو بھی یہ سب پر بھاری ہوں گے۔(مشکاۃ المصابیح، 2/358، حدیث:
5774)یہ وزنی ہونا نبوت کے وزن سے ہوا، نبوت بڑی وزنی نعمت ہے۔(مراٰةُ المناجيح،
8/40)
(2)امتی کے لئے جنت کی خوشخبری:حضرت ابو ذر غفاری رضی اللہُ عنہ نے نبیِّ پاک
صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے روایت کیا کہ نبیِّ پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمايا:
ذَاكَ جِبْرِيلُ اَتَانِي فَاَخْبَرَنِي اَنَّهٗ مَنْ مَاتَ مِنْ اُمَّتِي لاَ
يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا دَخَلَ الجَنَّةَ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّه، وَاِنْ
زَنَى وَاِنْ سَرَقَ، قَالَ وَاِنْ زَنَى وَاِنْ سَرَقَ ترجمہ: یہ جبریل ہیں جو میرے پاس آئے اور مجھے خوشخبری دی
کہ میری اُمّت میں سے جو شخص فوت ہو گیا اور اللہ پاک کا کسی کو شریک نہیں کرتا
تھا وہ جنت میں داخل ہوگا، تو میں نے عرض کی کہ یارسول اللہ! اگرچہ وہ چوری اور
زنا کرے؟حضور علیہ السّلام نے فرمایا: اگرچہ وہ چوری اور زنا کرے۔(دیکھئے: بخاری،
4/179، حدیث: 6268)
(3)حضور علیہ السّلام نے شفاعت کو
اختیار فرمایا: نبیِّ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اَتَانِي آتٍ مِنْ عِنْدِ رَبِّي فَخَيَّرَنِي بَيْنَ
اَنْ يُدْخِلَ نِصْفَ اُمَّتِي الجَنَّةَ وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ فَاخْتَرْتُ
الشَّفَاعَةَ وَهِيَ لِمَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا یعنی میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا (جبرائیل
علیہ السّلام) میرے پاس آئے اور مجھے اختیار دیا کہ میری آدھی اُمت جنت میں داخل
ہو یا یہ کہ مجھے شفاعت کا حق حاصل ہو، چنانچہ میں نے شفاعت کو اختیار کیا، یہ
شفاعت ہر اس شخص کے لئے ہے جو اس حال میں فوت ہوا کہ اللہ پاک کے ساتھ کسی چیز کو
شریک نہیں ٹھہراتا تھا۔ (ترمذی، 4/199، حدیث: 2449)
پیارے اسلامی
بھائیو! اگر ہم ان احادیث سے سیکھ کر اپنی زندگیوں میں ان تعلیمات کو اپنائیں، تو
ہم نہ صرف اپنی دنیا کو بہتر بنا سکتے ہیں بلکہ آخرت کی کامیابی بھی حاصل کر
سکتے ہیں۔ اللہ پاک ہمیں ان پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ
النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
محمد فیضان علی عطاری ( درجہ
خامسہ ماڈل جامعۃ المدینہ نيو سول لائن فیصل آباد ، پاکستان)

پیارے پیارے
اسلامی بھائیو! اللہ تعالیٰ ہی ہے جو اپنے بندوں کو مال عطا کرتا ہے ، کسی کو کم
اور کسی کو زیادہ ، پھر انھیں مال خرچ کرنے کا حکم دیتاہے ، انفاق فی سبیل اللہ کی
ترغیب دلاتا ہے اور بخل اور کنجوسی سے منع کرتاہے۔آئیے چند ایک قرآنی مثالیں انفاق
فی سبیل اللہ سے متعلق ملاحظہ کرتے ہیں۔
(1)
الله کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی مثال : مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ
اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ
حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ
حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱)ترجمۂ کنزالایمان: ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ
کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس
سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ (البقرۃ:261)
تفسیر
: راہِ خدا میں خرچ کرنے والوں کی
فضیلت ایک مثال کے ذریعے بیان کی جارہی ہے کہ یہ ایسا ہے جیسے کوئی آدمی زمین میں
ایک دانہ بیج ڈالتا ہے جس سے سات بالیاں اُگتی ہیں اور ہر بالی میں سو دانے پیدا
ہوتے ہیں۔ گویا ایک دانہ بیج کے طور پر ڈالنے والا سات سو گنا زیادہ حاصل کرتا ہے
، اسی طرح جو شخص راہِ خدامیں خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے اخلاص کے اعتبار
سے سات سو گنا زیادہ ثواب
عطا فرماتا ہے اور یہ بھی کوئی حد نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں
اور وہ کریم و جواد ہے جس کیلئے چاہے اسے اس سے بھی زیادہ ثواب عطا فرما دے۔( تفسیرصراط
الجنان ،پارہ : 3 ، سورۃ البقرة ، آیت نمبر : 261 )
(2)
اپنے صدقے برباد نہ کرو
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا
لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِكُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰىۙ-كَالَّذِیْ یُنْفِقُ
مَالَهٗ رِئَآءَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ
الْاٰخِرِؕ-فَمَثَلُهٗ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْهِ تُرَابٌ فَاَصَابَهٗ وَابِلٌ
فَتَرَكَهٗ صَلْدًاؕ-لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰى شَیْءٍ مِّمَّا كَسَبُوْاؕ-وَ اللّٰهُ
لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ(۲۶۴)
ترجمہ
کنز العرفان: اے ایمان والو! احسان جتا کر اور تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے برباد نہ
کر دو اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھلاوے کے لئے خرچ کرتا ہے اور اللہ
اور قیامت پر ایمان نہیں لاتا تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک چکنا پتھر ہو جس پر
مٹی ہے تواس پر زوردار بارش پڑی جس نے اسے صاف پتھر کر چھوڑا، ایسے لوگ اپنے کمائے
ہوئے اعمال سے کسی چیز پر قدرت نہ پائیں گے اور اللہ کافروں کو ہدایت نہیں دیتا۔
تفسیر:
ارشاد فرمایا گیا کہ اے ایمان
والو! جس پرخرچ کرو اس پر احسان جتلا کر اور اسے تکلیف پہنچا کر اپنے صدقے کا ثواب
برباد نہ کردو کیونکہ جس طرح منافق آدمی لوگوں کو دکھانے کیلئے اور اپنی واہ واہ
کروانے کیلئے مال خرچ کرتا ہے لیکن اس کا ثواب برباد ہوجاتا ہے اسی طرح فقیر پر
احسان جتلانے والے اور اسے تکلیف دینے والے کا ثواب بھی ضائع ہوجاتا ہے۔
اس کی مثال یوں سمجھو کہ جیسے ایک چکنا پتھر ہو
جس پر مٹی پڑی ہوئی ہو، اگراس پر زوردار بارش ہوجائے تو پتھر بالکل صاف ہوجاتا ہے
اور اس پر مٹی کا نام و نشان بھی باقی نہیں رہتا۔ یہی حال منافق کے عمل کا ہے کہ دیکھنے
والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ عمل ہے اور روزِ قیامت وہ تمام عمل باطل ہوں گے کیونکہ
وہ رضائے الٰہی کے لیے نہ تھے یا یوں کہہ لیں کہ منافق کا دل گویا پتھر کی چٹان
ہے، اس کی عبادات خصوصاً صدقات اور ریا کی خیراتیں گویا وہ گردو غبار ہیں جو چٹان
پر پڑ گئیں ، جن میں بیج کی کاشت نہیں ہو سکتی، رب تعالیٰ کا ان سب کو رد فرما دینا
گویا وہ پانی ہے جو سب مٹی بہا کر لے گیا اور پتھر کو ویسا ہی کر گیا۔ اس سے معلوم
ہوتا ہے کہ اگر صدقہ ظاہر کرنے سے فقیر کی بدنامی ہوتی ہو تو صدقہ چھپا کردینا چاہیے
کہ کسی کو خبر نہ ہو۔لہٰذا اگر کسی سفید پوش یا معزز آدمی یا عالم یا شیخ کو کچھ
دیا جائے تو چھپا کر دینا چاہیے۔ بعض بزرگ فرماتے ہیں کہ اگر کسی کو علم دین سکھایا
ہوتو اس کی جزا کی بھی بندے سے امید نہ رکھے اور نہ اسے طعنے دے کیونکہ یہ بھی علمی
صدقہ ہے ۔ (تفسیرصراط الجنان ،پارہ : 3 , سورۃ البقرة، آیت نمبر:264)
(3)
جو لوگ الله کی رضا کے لیے مال خرچ کرتے ہیں : وَ مَثَلُ
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ
تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍۭ بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ
فَاٰتَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَیْنِۚ-فَاِنْ لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّؕ-وَ
اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۲۶۵) ترجمۂ کنز العرفان: اور جولوگ اپنے
مال اللہ کی خوشنودی چاہنے کیلئے اور اپنے دلوں کو ثابت قدم رکھنے کیلئے خرچ کرتے
ہیں ان کی مثال اس باغ کی سی ہے جو کسی اونچی زمین پر ہو اس پر زوردار بارش پڑی تو
وہ باغ دگنا پھل لایا پھر اگر زور دار بارش نہ پڑے تو ہلکی سی پھوار ہی کافی ہے
اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔(پارہ3، سورۃ البقرۃ، آیت: 265)
تفسیر
: اس آیت میں ان لوگوں کی مثال بیان
کی گئی ہےجو خالصتاً رضائے الٰہی کے حصول اور اپنے دلوں کو استقامت دینے کیلئے
اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہیں کہ جس طرح بلند خطہ کی بہتر زمین کا باغ ہر حال میں
خوب پھلتا ہے خواہ بارش
کم ہو یا زیادہ، ایسے ہی بااخلاص مومن کا صدقہ کم ہو یا زیادہ اللہ تعالیٰ اس کو
بڑھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دل کی کیفیت دیکھی جاتی ہے۔( تفسیرصراط
الجنان ،پارہ : 3 , سورۃ البقرة، آیت نمبر : 265)
الله کی راہ میں
خرچ کرنے کے فضائل پر مشتمل ایک حدیث مبارکہ پیش کرتا ہوں تاکہ خوش دلی سے صدقہ دینے
کی مزید ترغیب ملے اور صدقہ دینے میں آسانی ہو۔
(1)حضرت رافع
بن خدیج رَضِیَ
اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ،رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے
ارشاد فرمایا: صدقہ برائی کے ستر دروازوں کو بند کردیتاہے۔( مجمع الزوائد، کتاب
الزکاۃ، باب فضل الصدقۃ، 3 / 283، الحدیث: 4604)

انفاق فی سبیل
اللہ کا مطلب ہے اللہ کی راہ میں خرچ کرنا اس میں زکوٰۃ صدقہ خیرات وغیرہ سب شامل
ہیں قرآن وسنت میں انفاق کی بہت فضیلت بیان کی گئی ہے اللہ تعالیٰ نے انفاق کرنے والوں کو
اجر عظیم کی بشارت دی ہے ۔ انفاق ایک بہت بڑا عمل ہے جس سے انسان دنیا اور آخرت میں
کامیابی حاصل کر سکتا ہے اللہ تعالیٰ نے انفاق کرنے والوں کی مثالیں قرآن مجید میں
بیان فرمائی ہیں آئیے پڑھئے:
مثال
نمبر 1: راہِ خدا میں خرچ کرنے کی فضیلت :مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ
اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ
حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ
حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱)ترجمۂ کنزالایمان: ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ
کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس
سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ (البقرۃ:261)
تفسیر:
راہِ خدا میں
خرچ کرنے والوں کی فضیلت ایک مثال کے ذریعے بیان کی جارہی ہے کہ یہ ایسا ہے جیسے
کوئی آدمی زمین میں ایک دانہ بیج ڈالتا ہے جس سے سات بالیاں اُگتی ہیں اور ہر بالی
میں سو دانے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا ایک دانہ بیج کے طور پر ڈالنے والا سات سو گنا زیادہ
حاصل کرتا ہے ، اسی طرح جو شخص راہِ خدامیں خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے
اخلاص کے اعتبار سے سات سو گنا زیادہ ثواب عطا فرماتا ہے اور یہ بھی کوئی حد نہیں
بلکہ اللہ تعالیٰ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں اور وہ کریم و جواد ہے جس کیلئے چاہے اسے
اس سے بھی زیادہ ثواب عطا فرما دے چنانچہ کئی جگہ پر اس سے بھی زیادہ نیکیوں کی
بشارت ہے جیسے پیدل حج کرنے پر بعض روایتوں کی رو سے ہر قدم پر سات کروڑ نیکیاں
ملتی ہیں۔(مسند البزار، مسند ابن عباس رضی اللہ عنہما،
طاوس عن ابن عباس، ۱۱ / ۵۲، الحدیث: ۴۷۴۵)
مثال
نمبر 2: اس باغ کی طرح ہے جو ہرحال میں پھلتاہے: وَ مَثَلُ
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ
تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍۭ
بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَیْنِۚ-فَاِنْ لَّمْ
یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۲۶۵) ترجمۂ کنز العرفان: اور جولوگ اپنے مال اللہ کی خوشنودی چاہنے کیلئے
اور اپنے دلوں کو ثابت قدم رکھنے کیلئے خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس باغ کی سی ہے
جو کسی اونچی زمین پر ہو اس پر زوردار بارش پڑی تو وہ باغ دگنا پھل لایا پھر اگر
زور دار بارش نہ پڑے تو ہلکی سی پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا
ہے۔(پارہ3، سورۃ البقرۃ، آیت: 265)
تفسیر:
اس آیت میں ان لوگوں کی مثال بیان
کی گئی ہےجو خالصتاً رضائے الٰہی کے حصول اور اپنے دلوں کو استقامت دینے کیلئے
اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہیں کہ جس طرح بلند خطہ کی بہتر زمین کا باغ ہر حا ل میں
خوب پھلتا ہے خواہ بارش کم ہو یا زیادہ، ایسے ہی بااخلاص مومن کا صدقہ کم ہو یا زیادہ
اللہ تعالیٰ اس کو بڑھاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دل کی کیفیت دیکھی جاتی
ہے نہ کہ فقط مال کی مقدار ،جیساکہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ
سے روایت ہے، رسول کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے
ارشاد فرمایا’’
اللہ تعالیٰ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کو نہیں دیکھتا بلکہ تمارے دلوں اور
تمہارے عملوں کو دیکھتا ہے۔(مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، باب تحریم ظلم
المسلم وخذلہ۔۔۔ الخ، ص۱۳۸۷، الحدیث: ۳۴(۲۵۶۴))
آج ہفتہ وار اجتماع میں نگران شوریٰ کا ہونے والا
بیان مدنی چینل پر براہ راست نشر کیا جائے گا

دعوتِ
اسلامی کے تحت ہر ہفتے منعقد ہونے والا سنتوں بھرا اجتماع آج بروز جمعرات 05 جون 2025 کو عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ
کراچی میں ہوگا۔ اجتماع میں معروف اسلامی اسکالر نگرانِ شوریٰ مولانا حاجی محمدعمران
عطاری مُدَّ ظِلُّہُ العالی سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے جسےمدنی چینل
پربراہِ راست نشر کیا جائیگا۔
اجتماع
کا آغاز رات 8 بجے ہوگا جس میں شرکت کے لیے عاشقانِ رسول کی بڑی تعداد کی آمد
متوقع ہے۔ اجتماع میں قرآن و سنت کی روشنی میں اصلاحِ اعمال، روحانی تربیت، اور دینی
رہنمائی پر مشتمل بیان کیا جائے گا۔
تفصیلات
کے مطابق فیضان اسلام مسجد DHAفیز 7 کراچی
میں رکن شوریٰ حاجی محمد علی عطاری، جامع مسجد اقصیٰ شیرانوالہ گیٹ لاہور
میں رکن شوریٰ حاجی منصور عطاری، مدنی مرکز فیضان مدینہ شاہ رکن عالم
کالونی ملتا ن میں رکن شوریٰ قاری سلیم عطاری، جامع مسجد نورانی نشتر
اسکوائر ملیر میں رکن شوریٰ حاجی ابو ماجد محمد شاہد عطاری
مدنی ،مدنی مرکز فیضان مدینہ Huxley Street Oldham OL4 5JX
میں رکن شوریٰ حاجی خالد عطاری سنتوں بھرا بیان فرمائیں گے۔
دعوتِ
اسلامی کی جانب سے تمام عاشقان رسول کو اس روحانی اجتماع میں شرکت کی دعوت دی گئی
ہے۔

قرآن کریم میں
سمجھانے کے مختلف اسلوب بیان کیے گئے ہیں تاکہ ہر ایک کو آسانی سے سمجھ آ جائے اور
وہ کامیابی کی راہ کی جانب بڑھ سکے ۔ انہی بے شمار طریقوں میں سے ایک طریقہ کار بات کو مثالوں کے
ساتھ سمجھانے کا ہے ۔ قرآن مجید میں بارہا مختلف قسم کی مثالیں بیان کی گئ ہیں
تاکہ لوگوں کو آسانی ہو وہ ان مثالوں سے اپنے قلوب کو وسعت والا بنائیں اور فوائد حاصل کریں۔ دیگر مثالوں میں سے کچھ مثالیں
راہ خدا میں خرچ کرنے والوں کی بھی بیان کی گئی ہے آئیے قرآن کریم میں انفاق فی سبیل
اللہ کی جو مثالیں بیان کی گئی ہیں ان کے متعلق جانتے ہیں :
(1) اللہ تعالیٰ
کی راہ میں مال خرچ کرنا اس دانے کی طرح ہے جس نے سات بالیاں اگائیں،چنانچہ ارشاد
باری تعالیٰ ہے :
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ
سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ
سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ
لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱)ترجمۂ کنزالایمان: ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں
خرچ کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے
لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ (البقرۃ:261)
راہِ خدا میں
خرچ کرنے والوں کی فضیلت ایک مثال کے ذریعے بیان کی جارہی ہے کہ یہ ایسا ہے جیسے
کوئی آدمی زمین میں ایک دانہ بیج ڈالتا ہے جس سے سات بالیاں اُگتی ہیں اور ہر بالی
میں سو دانے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا ایک دانہ بیج کے طور پر ڈالنے والا سات سو گنا زیادہ
حاصل کرتا ہے ، اسی طرح جو شخص راہِ خدامیں خرچ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اس کے
اخلاص کے اعتبار سے سات سو گنا زیادہ ثواب عطا فرماتا ہے اور یہ بھی کوئی حد نہیں
بلکہ اللہ تعالیٰ کے خزانے بھرے ہوئے ہیں۔
(2) اللہ تعالیٰ
کی راہ میں مال خرچ کرنا اونچے باغ کی طرح ، اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد
فرماتا ہے:
وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ
ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ
جَنَّةٍۭ بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ
اُكُلَهَا ضِعْفَیْنِۚ-فَاِنْ لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا
تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۲۶۵) ترجمۂ کنز العرفان: اور جولوگ اپنے مال اللہ کی خوشنودی چاہنے کیلئے
اور اپنے دلوں کو ثابت قدم رکھنے کیلئے خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس باغ کی سی ہے
جو کسی اونچی زمین پر ہو اس پر زوردار بارش پڑی تو وہ باغ دگنا پھل لایا پھر اگر
زور دار بارش نہ پڑے تو ہلکی سی پھوار ہی کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا
ہے۔(پارہ3، سورۃ البقرۃ، آیت: 265)
اس آیت میں
ان لوگوں کی مثال بیان کی گئی ہےجو خالصتاً رضائے الٰہی کے حصول اور اپنے دلوں کو
استقامت دینے کیلئے اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہیں کہ جس طرح بلند خطہ کی بہتر زمین
کا باغ ہر حا ل میں خوب پھلتا ہے خواہ بارش کم ہو یا زیادہ، ایسے ہی بااخلاص مومن
کا صدقہ کم ہو یا زیادہ اللہ تعالیٰ اس کو بڑھاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ
کا شکر ہے کہ ہم مسلمان ہیں ہمیں بھی اللہ تعالی کی راہ میں مال خرچ کرنا چاہیے، اللہ تعالی قرآن کریم
میں ارشاد فرماتا ہے: اس کا مفہوم یہ ہے کہ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے، اس کا
مطلب یہ ہے کہ کون ہے جو اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرے ہمیں بھی چاہیے کہ اللہ تعالیٰ
کی راہ میں خرچ کریں اس سے بےشمار
فوائد حاصل ہوں گے ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ
کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
احمدحسن صدیق (درجہ سابعہ جامعۃُ
المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور ، پاکستان)

راہ ِ خدا میں
اِخلاص کے ساتھ خرچ کرنا بہت محبوب عمل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اِسے خدا کو قرض دینے
سے تعبیر فرمایا جیساکہ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: مَنْ
ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰهَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَهٗ لَهٗ وَ لَهٗۤ اَجْرٌ
كَرِیْمٌۚترجمۂ کنزالایمان: کون ہے جو اللہ کو
قرض دے اچھا قرض تو وہ اس کے لیے دونے کرے اور اس کو عزت کا ثواب ہے۔(الحدید: 11)
یہ
اللہ تعالیٰ کا کمال درجے کا لطف و کرم ہے، کیونکہ مخلوق کی جان و مال سب کا خالق
و مالک خدا ہے اور بندہ اُس کی عطا سے صرف مجازی مالک ہے، مگر اس کے باوجود فرمایا کہ صدقہ دینے والا،گویا خدا
کو قرض دینے والا ہے۔یعنی جیسے قرض دینے والے کو اطمینان ہوتا ہے کہ اُسے اُس کا
مال واپس مل جائے گا ایسا ہی راہِ خدا میں خرچ کرنے والا مطمئن رہے کہ اسے خرچ
کرنے کا بدلہ یقینا ًملے گا اوروہ بھی معمولی نہیں، بلکہ کئی گنا بڑھا کر، جو سات
سو گنا بھی ہوسکتا ہے اور اس سے لاکھوں گنا زائد بھی، راہ خدا میں خرچ کرنے کے اور
بھی بہت سے فوائد و فضائل ہیں جن کو اللہ تبارک وتعالی نے قرآن پاک میں امثلہ کے
ذریعے بیان فرمایا ہے، ان میں چند یہ ہیں:
(1)
دانہ کی مثال: مَثَلُ
الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ
اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ
اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ
عَلِیْمٌ(۲۶۱)ترجمۂ کنزالایمان: ان کی کہاوت جو
اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں ہر
بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت
والا علم والا ہے ۔ (البقرۃ:261)
وضاحت:اس آیت میں خرچ کرنے کا مُطْلَقاً فرمایا گیا
ہے خواہ خرچ کرنا واجب ہو یا نفل، نیکی کی تمام صورتوں میں خرچ کرنا شامل ہے خواہ
وہ کسی غریب کو کھانا کھلانا ہو یا کسی کو کپڑے پہنانا، کسی غریب کو دوائی وغیرہ
لے کر دینا ہو یا راشن دلانا، کسی طالب علم کو کتاب خرید کر دینا ہو یا کوئی شِفا
خانہ بنانا یا فوت شدگان کے ایصالِ ثواب کیلئے فُقراء و مساکین کو تیجے، چالیسویں
وغیرہ پر کھلادیا جائے۔ (تفسیر صراط الجنان)
(2)
باغ کی مثال: وَ
مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَ
تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ كَمَثَلِ جَنَّةٍۭ بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ
فَاٰتَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَیْنِۚ-فَاِنْ لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ
فَطَلٌّؕ-وَ اللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۲۶۵)ترجمۂ کنزالایمان: اور ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی رضا
چاہنے میں خرچ کرتے ہیں اور اپنے دل جمانے کو اس باغ کی سی ہے جو بھوڑ (ریتلی زمین)پر
ہو اس پر زور کا پانی پڑا تو دونے میوے لایا پھر اگر زور کا مینہ اُسے نہ پہنچے تو
اوس کافی ہے اور اللہ تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔ (البقرۃ: 265)
وضاحت :اس آیت
میں ان لوگوں کی مثال بیان کی گئی ہےجو خالصتاً رضائے الٰہی کے حصول اور اپنے دلوں
کو استقامت دینے کیلئے اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہیں کہ جس طرح بلند خطہ کی بہتر زمین
کا باغ ہر حال میں خوب پھلتا ہے خواہ بارش کم ہو یا زیادہ، ایسے ہی بااخلاص مومن کا
صدقہ کم ہو یا زیادہ اللہ تعالیٰ اس کو بڑھاتا ہے (تفسیر صراط الجنان)
(3)
ہوا کی مثال: مَثَلُ
مَا یُنْفِقُوْنَ فِیْ هٰذِهِ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَثَلِ رِیْحٍ فِیْهَا
صِرٌّ اَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَاَهْلَكَتْهُؕ-وَ مَا ظَلَمَهُمُ
اللّٰهُ وَ لٰكِنْ اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۱۱۷) ترجمۂ کنزالایمان: کہاوت اُس کی جو اس
دنیا کی زندگی میں خرچ کرتے ہیں اس ہوا کی سی ہے جس میں پالا(سخت ٹھنڈک) ہو وہ ایک
ایسی قوم کی کھیتی پر پڑی جو اپنا ہی بُرا کرتے تھے تو اُسے بالکل مارگئی اور اللہ
نے ان پر ظلم نہ کیا ہاں وہ خود اپنی جان پرظلم کرتے ہیں۔ (اٰل عمرٰن: 117)

قراٰنِ مجید
فرقانِ حمید میں لوگوں کو سمجھانے اور غور و فکر کرنے کے لئے اللہ ربُّ العزت نے
مثالیں بھی بیان فرمائی ہیں۔ قراٰنی اسلوب میں ایک واضح اسلوب مثال دے کر سمجھانا
ہے۔ جس سے ہر طبقہ کے لوگوں کو بات سمجھ آجاتی ہے۔ اللہ ربُّ العزت نے قراٰنِ
پاک میں توحید و کفر، حق و باطل، نورِ الٰہی، عظمتِ قراٰن، موحد و مشرک، گمراہی،
حکمِ الٰہی کی نافرمانی کرنے والوں، مخلص اور ریا کار کے عمل اور انفاق فی سبیل
اللہ (یعنی راہِ خدا میں خرچ کرنے)کی اہمیت و فضیلت کو مثالوں سے بیان کیا ہے اور
مثال کی اہمیت کے متعلق فرمایا ہے:﴿وَلَقَدْ ضَرَبْنَا لِلنَّاسِ فِیْ
هٰذَا الْقُرْاٰنِ مِنْ كُلِّ مَثَلٍ لَّعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَۚ(۲۷)﴾ ترجَمۂ کنزالایمان: اور بےشک ہم نے لوگوں کے
لیے اس قرآن میں ہر قسم کی کہاوت بیان فرمائی کہ کسی طرح انہیں دھیان ہو۔(پ22،
الزمر: 27)
واضح ہوا کہ
مثالوں کی حکمت کیا ہے اسی طرح راہِ خدا میں جو خرچ کرتے ہیں ان کی مثال بھی بیان
فرمائی کہ ان کو کیا فوائد و ثمرات حاصل ہوں گے۔آئیے قراٰنِ مجید میں انفاق فی سبیل
اللہ کی جو مثالیں بیان کی گئی ہیں ان کے متعلق جانتے ہیں:
(1)راہِ خدا میں خرچ کرنے والے کی
مثال اس دانے کی طرح ہے جس نے سات بالیاں اگائیں:﴿مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ
اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ
فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَاللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَاللّٰهُ
وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱)﴾ ترجَمۂ
کنزالعرفان: ان لوگوں کی مثال جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانے کی
طرح ہے جس نے سات بالیاں اگائیں،ہر بالی میں سو دانے ہیں اور اللہ اس سے بھی زیادہ
بڑھائے جس کے لئے چاہے اور اللہ وسعت والا، علم والا ہے۔(پ3، البقرۃ: 261)
اس آیت میں
راہِ خدا میں خرچ کرنے کی فضیلت مثال کے ذریعے بیان کی جارہی ہے کہ یہ ایسا ہے جیسے
کوئی آدمی زمین میں ایک دانہ بیج ڈالتا ہے جس سے سات بالیاں اُگتی ہیں اور ہر
بالی میں سو دانے پیدا ہوتے ہیں۔ گویا ایک دانہ بیج کے طور پر ڈالنے والا سات سو
گنا زیادہ حاصل کرتا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا نیکی کی تمام صورتوں میں خرچ کرنا
راہِ خدا میں خرچ کرنا ہی ہے۔(دیکھئے:صراط الجنان،1/395)
(2)راہِ خدا میں مال خرچ کرنے والے کی
مثال بلند خطۂ زمین کی طرح ہے:﴿وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ
اَمْوَالَهُمُ ابْتِغَآءَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ وَتَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ
كَمَثَلِ جَنَّةٍۭ بِرَبْوَةٍ اَصَابَهَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُكُلَهَا ضِعْفَیْنِۚ-فَاِنْ
لَّمْ یُصِبْهَا وَابِلٌ فَطَلٌّؕ-وَاللّٰهُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ(۲۶۵)﴾ترجَمۂ کنزالعرفان: اور جولوگ اپنے مال اللہ کی
خوشنودی چاہنے کیلئے اور اپنے دلوں کو ثابت قدم رکھنے کیلئے خرچ کرتے ہیں ان کی
مثال اس باغ کی سی ہے جو کسی اونچی زمین پر ہواس پر زوردار بارش پڑی تو وہ باغ
دگنا پھل لایا پھر اگر زور دار بارش نہ پڑے تو ہلکی سی پھوار ہی کافی ہے اور اللہ
تمہارے کام دیکھ رہا ہے۔ (پ3، البقرۃ:265)
اس آیت میں
ان لوگوں کی مثال بیان کی گئی ہےجو خالصتاً رضائے الٰہی کے حصول اور اپنے دلوں کو
استقامت دینے کے لئے اخلاص کے ساتھ عمل کرتے ہیں کہ جس طرح بلند خطہ کی بہتر زمین
کا باغ ہر حا ل میں خوب پھلتا ہے خواہ بارش کم ہو یا زیادہ، ایسے ہی بااخلاص
مومن کا صدقہ کم ہو یا زیادہ اللہ تعالیٰ اس کو بڑھاتا ہے۔
ان دو مثالوں
سے راہِ خدا میں خرچ کرنے کی فضیلت بیان ہوئی ہے ایسے ہی اللہ ربُّ العزت نے بے
شمار فضائل بیان کئے ہیں کہ خرچ کرنے والا پسندیدہ ترین چیز خرچ کررہا ہے تو اس
کو مزید اجر ملے گا، اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔
معلوم ہوا کہ
نیکی کے کاموں میں خرچ کرنا مال کو کم نہیں کرتا بلکہ بڑھاتا ہے اس سے انسان کو
وسعت، راحت،سکون، اطمینان جیسی دولت ہی نہیں نصیب ہوتی بلکہ مال محفوظ ہو جاتا
ہے، رب تعالیٰ اس کی سوچ سے زیادہ اسے عطا فرماتا ہے۔ معاشرے میں نظر دوڑائی
جائے تو معلوم ہوگا کہ وہ طبقہ جو زکوٰۃ ادا کرتا ہے اور نیکی و دین کے کاموں میں
خرچ کرتا ہے، ان کے مال کو وسعت حاصل ہوتی ہے۔
اس لئے ہمیں
بھی چاہئے کہ کنجوسی اور بخل سے کام لئے بغیر بڑھ چڑھ کر راہِ خدا میں خرچ کریں
اور خرچ کرنے میں جو رکاوٹیں پیش آئیں ان کا تدارک کریں۔ قراٰن و حدیث میں جو
فضائل بیان کئے گئے ہیں اُن کا مطالعہ کریں۔ مزید اسلاف کی سیرت کو اپنے لئے
مشعلِ راہ جانتے ہوئے ان کی سیرت کا مطالعہ اور عمل کریں اِن شآءَ اللہ اس سے بھی
خرچ کرنے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق ملے گی۔
دعا ہے کہ
اللہ پاک ہمیں اپنی عطا سے خوب خرچ کرنے اور نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

محبتِ رسول اور اسلامی تعلیمات کو عام کرنے کے لئے مئی 2025ء کی 31 تاریخ کو دعوتِ اسلامی کے عالمی مدنی مرکز فیضانِ مدینہ
کراچی میں مدنی مذاکرے کا انعقاد کیا گیا جس میں عاشقانِ رسول نے بھرپور شرکت کی۔ یہ مدنی
مذاکرہ مدنی چینل کے ذریعے دنیا بھر کے عاشقانِ رسول میں نشر کیا گیا۔
اس موقع پر شیخِ طریقت، امیرِ اَہلِ سنّت، بانیِ
دعوتِ اسلامی حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی دامت بَرَکَاتُہمُ
العالیہ نے عاشقانِ رسول کی جانب
سے کئے گئے سوالات کے تفصیلی جوابات دیئے جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:
سوال:بعض اوقات بقر عید کے موقع پر ڈکیتی کی وارداتیں بڑھ جاتی ہیں، اس صورت میں کیا احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں؟۔
جواب:٭جب گھرسے نکلیں تو11بار یَاحَفِیْظُ ،11بار یَاسَلَامُ
پڑھ لیا کریں ، اس کی ہمیشہ عادت بنا لیں٭رقم(Cash) ساتھ لے جانے کے بجائے دیگرذرائع(Online Paymentوغیرہ) سے ادائیگی کر دیں ٭ مویشی منڈی اکیلےجانے کے بجائے کچھ افرادساتھ لے جائیں٭رات
کے بجائے دن میں خریداری کریں٭ ویران راستہ اختیارکرنے کے بجائے پُررونق راستے سے جائیں جہاں لوگوں کی چہل پہل زیادہ
ہو، اگرچہ راستہ لمبا اور وقت بھی زیادہ
لگتاہو۔
سوال:چوروں،ڈاکوؤں کوبھی سمجھائیں کہ وہ ان کاموں سےبازآئیں ۔
جواب:یہ نادان بہت بڑی بھُول کرتے ہیں ،یہ سمجھتے ہیں کہ اس طرح مال حاصل کرکے ہم مزے کریں
گے ۔یہ مزے صرف چاردن کے ہیں ،”چاردن کی چاندنی ہےپھر اندھیری رات ہے“۔کئی ڈاکوجوانی میں
مارےجاتے ہیں ۔ہرایک کو مرنا ہے ،حدیث پاک میں ہے کہ ”جس نے اپنے بھائی کی طرف
لوہے کے کسی ہتھیارسے اشارہ کیا یعنی ڈرایا تو اس پر فرشتے لعنت کرتے رہتے ہیں یہاں
تک کہ وہ اس کام سے بازآجائے یعنی یہ کام
چھوڑدے“ ۔(جامع ترمذی ،حدیث
نمبر2162)
سوال:بعض اوقات ذُوالحج شریف میں پیداہونے والے
بچے کا نام ”حاجی“ رکھ دیا جاتاہے،اس بارے
میں آپ کیا فرماتے ہیں؟
جواب:حاجی نام نہ رکھنا بہترہے ،اس میں دھوکہ
ہوسکتاہے کہ اس نے حج کیا ہواہے ۔
سوال: بکری
کو کان پکڑکر چلانا کیسا؟
جواب:نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایک شخص کے قریب سےگزرے ،وہ بکری کو کان سےپکڑے کھینچتے ہوئے جارہا تھا، رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایا ،اس کا کان چھوڑدو،گردن کے قریب سے پکڑو۔(سنن ابن ماجہ ،حدیث نمبر3171)
سوال:بعض لوگ اپنے گھرکو جنت کہتے ہیں ،ایساکہناکیسا؟
جواب:کوئی حَرَج نہیں ،کشمیرکو بھی تو جنت کہا
جاتاہے۔ہمارے گھرمیں ہال کانام جنت ہال ہے، ایک شخصیت آئی، جنت ہال میں AC نہیں
تھا اور گرمی تھی، وہ کہنے لگے کہ جنت میں اتنی گرمی تو نہیں ہوگی؟ میں نے
فوراً جواب دیا کہ جنت اورجنت ہال میں فرق تو ہوناچاہیے۔اچھے
نام رکھنے چاہئیں، ایسے نام نہ رکھے جائیں جسے شریعت منع کرے ، ہمارے گھرکا نام بیتِ
رمضان اورحاجی عمران کے گھرکا نام بیت
الامان ہے ۔دشمن بھی آجائے تو اسے امان مل جائے ،انتقام اپنی ڈکشنری میں نہیں ۔
سوال:قربانی کے موقع پر گلی محلوں میں جانوروں کی آلائشیں پھینکنے اورقربانی سے پہلے جانوروں کو باندھنے کے لئے
راستہ بند کرنےکے بارے میں آپ کیا فرماتے
ہیں؟۔
جواب:ہمیں صفائی ستھرائی رکھنی چاہیئے کہ صفائی کو
نصف ایمان کہاگیا ہے۔صفائی سنت ہے ،کپڑے ،بدن اورگھربلکہ ہرجگہ صاف ہو۔پیارےآقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے مزاجِ پاک میں نفاست یعنی بہت زیادہ صفائی تھی اورخوشبوبھی پسندتھی ۔فطرتِ سلیمہ صفائی اورخوشبوکو پسندکرتی ہے ۔گندگی اوربدبوکو
ناپسندکرتی ہے ۔قربانی کے فوراً بعد جانورکی آلائشوں والی جگہ کو صاف کردیا جائے۔ورنہ بدبو،جراثیم اوربیماریاں
پھیلیں گی ،اسی طرح راستوں کو بند نہیں کرنا چاہیئے۔حقوق ِعامہ کا خیال رکھنا چاہیئے،
جگہ گھیرکر حقو قِ عامہ پامال نہ کریں ۔نبی ِکریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
نے فرمایاکہ ”راستے میں بیٹھنے سے بچو،صحابہ کرام علیہم الرضوان نے عرض کی: ہمیں بعض اوقات بات چیت کے لئے راستوں میں بیٹھنا پڑجاتاہے تو فرمایا ،بیٹھنا ہی ہوتو
راستے کا حق اداکرو،انہوں عرض کیا کہ راستے کا حق کیا ہے؟ فرمایا:”نگاہ نیچی رکھنا ،تکلیف دہ چیزاٹھانا،سلام
کا جواب دینا،نیکی کا حکم دینااوربرائی سےمنع کرنا“ ۔(بخاری
شریف ،حدیث نمبر6229)
سوال : حجِ مبرور سے کیا مرادہے ؟
جواب : اس کی کئی تعریفیں ہیں ،آسان تعریف یہ ہے جو حج قبول ہوجائے وہ حجِ مبرورہے ۔
سوال: قبرستان جانے کے آداب کیا ہیں ؟
جواب: قبرستان جانا سنت ہے، نبیِ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہرسال
غزوۂ اُحدکے شہیدوں کے مزارات پر تشریف لے جاتے۔قبرستان جائیں تو اہلِ قبرستان کو
سلام کریں ۔قبرستان سے عبرت حاصل کریں،باتیں نہ کریں ،خاموش رہیں ،ایسی جگہ جائیں
جہاں کسی قبرپر پاؤں نہ پڑے۔بہت بچ بچاکر حاضری دی جائے ۔قبروں اورمزارات پر جانا
چاہیئے۔ایصالِ ثواب کریں، بہتر ہے 1 مرتبہ سُورہ فاتحہ اور 11 بار سورہ اخلاص پڑھ
کر ایصال ثواب کریں ۔
سوال: اِس ہفتے کارِسالہ ” 30 روحانی علاج “
پڑھنے یاسُننے والوں کوامیراہل سنت دامت
بَرَکَاتُہمُ العالیہ نے کیا دُعا
دی ؟
جواب: یا ربَّ المصطفٰے! جو کوئی 32 صفحات کا رسالہ ”30
روحانی علاج“ پڑھ یا سُن لے، اس کی
روحانی و جسمانی بیماریاں دور فرما اور اُسے ماں باپ سمیت بے حساب بخش دے ۔اٰمِیْن بِجَاہِ خاتم النَّبیّن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ۔
بکرے
کی کلیجی
غذائیت سے بھر پور خوراک ہے، خون کی کمی دور کرتی
نظر اور قوتِ حافظہ بڑھاتی، پٹھے مضبوط کرتی اور جسمانی طاقت میں اضافہ کرتی اور
جلد (Skin) کو چمکدار بناتی ہے، مدافعتی نظام (IMMUNE SYSTEM) کو بہتر بناتی ہے۔
نقصانات:٭بکرے کی کلیجی ہفتے میں ایک آدھ بار کھائی جائے،
زیادہ کھانے سے سر میں چکر اور متلی آنے وغیرہ کا خطرہ ہے٭کولیسٹرول بڑھاتی ہے، یورک ایسڈ میں بھی اضافہ ہوتا
ہے لہٰذا دل اور جوڑوں کے مریض خوب احتیاط کریں٭ کلیجی بدن کے زہریلے مادّوں کو چونکہ خارج کرتی ہے
اس لئے بیمار جانور کی کلیجی نقصان پہنچا سکتی ہے٭حاملہ خواتین کلیجی سے پر ہیز کریں۔
نوٹ : گائے کی کلیجی کے بھی کم و بیش اسی طرح کے فوائد و
نقصانات ہیں۔
اونٹ کے گوشت کے فوائد
ان بیماریوں میں مفید ہے
٭خون کی کمی٭جوڑوں میں درد٭کمر
درد٭ریڑھ کی ہڈی کا درد٭جسمانی کمزوری٭قوت مدافعت کی کمی (WEAK IMMUNITY) ٭موٹاپا (وزن کم کرنے میں
مددگار ) ٭دائمی تھکن٭ پٹھوں کی کمزوری ٭بدہضمی،
ذیا بیطیس اور دل کی بیماریاں میں اعتدال (Moderation) سے لینا ہے٭ سردمزاجی سے ہونے والی بیماریاں۔

مدنی
چینل ایک بار پھر اپنے ناظرین کے لئے روح پرور اور ایمان افروز حج اسپیشل ٹرانسمیشن
پیش کرنے جا رہا ہے، جو 05 جون 2025 بروز جمعرات دوپہر 3:00 بجے براہ راست نشر کی
جائے گی۔
اس ٹرانسمیشن کی میزبانی معروف اسلامی اسکالر رکن
شوریٰ مولانا حاجی عبدالحبیب عطاری اور شیخ الحدیث مفتی محمد قاسم عطاری مُدَّ ظِلُّہُ العالی فرمائیں گے۔ اس پروگرام میں حجاج کرام کے سفرِ
حج کی جھلکیاں، روحانی باتیں، دعائیں، اور حج کے فضائل و احکام پر روشنی ڈالی جائے
گی۔
پروگرام
مدنی چینل پر براہ راست نشر کیا جائے گا اور ناظرین اس سے مدنی چینل کے فیس بک اور
یوٹیوب پیجز پر بھی مستفید ہو سکیں گے۔
یہ
ٹرانسمیشن ناظرین کو نہ صرف حج کی اہمیت و فضیلت سے روشناس کرائے گی بلکہ ان کے ایمان
کو تازگی بھی بخشے گی۔

کلفٹن باتھ آئی لینڈ، کراچی 1 جون (اتوار) 2025ء
:
عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کے شعبہ مدنی کورسز کے تحت کلفٹن
باتھ آئی لینڈ میں واقع جامع مسجد فیضانِ بغداد میں مقامی عاشقانِ رسول کے لئے قربانی
کورس کا انعقاد کیا گیا۔

ماڈل کالونی ملیر میں قائم انسٹیٹیوٹ میں پروفیشنل افراد کے لئے 30
مئی 2025ء کو احکامِ قربانی کا انعقاد کیا
گیا جس کا مقصد شرکا میں قربانی کے شرعی احکام بیان کرنا اور اُن کی دینی معلومات
میں اضافہ کرنا تھا۔
اس کورس میں دار الافتاء اہلسنت کے مفتی کفیل عطاری
مدنی نے شرکا کو قربانی کے شرعی اصول، مناسکِ قربانی اور اس کی اہمیت بتاتے ہوئے
حاضرین کی جانب سے کئے گئے سوالات کے تفصیلی جوابات دیئے تاکہ قربانی کرتے وقت
غلطیوں سے بچا جاسکے۔

کورنگی نمبر 1 کی
جامع مسجد مدنی میں مقامی
عاشقانِ رسول کے لئے 30 مئی 2025ء کو قربانی
کورس کا انعقاد کیا گیاجس کا مقصد وہاں موجود اسلامی بھائیوں کو قربانی کے
شرعی احکام سے آگاہی دینا اور اُن کی دینی معلومات میں اضافہ کرنا تھا۔
اس کورس میں دار الافتاء اہلسنت کے مفتی محمدسجاد
عطاری مدنی نے اسلامی بھائیوں کو قربانی کے شرعی اصول، مناسکِ قربانی اور اس کی
اہمیت سے روشناس کروایا۔ اس کے علاوہ مفتی
محمدسجاد عطاری مدنی نے حاضرین کے سوالات کے تفصیلی جوابات بھی دیئے تاکہ عمل میں
غلطیوں سے بچا جا سکے۔