مشورہ کی تعریف: مشورہ کے معنیٰ ہیں کسی معاملے میں کسی کی رائے دریافت کرنا۔

کام کسی بھی نوعیت کا ہو اسے کرنے کے لئے کسی سے مشورہ کر لینا بہت مفید ہے۔ اللہ پاک نے اپنے نبیّ پاک ﷺ کو صائب الرّائے (یعنی درست رائے والا) ہونے کے باوجود صحابۂ کرام علیہم الرضوان سے مشورہ لینے کا فرمایا کہ اس میں ان کی دلجوئی بھی تھی اور عزّت افزائی بھی! مشورہ کرنا سنّت سرکار ہے، چنانچہ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:

وَ  شَاوِرْهُمْ  فِی  الْاَمْرِۚ- ( پ 4، آل عمران:159 ) ترجمہ: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔ یعنی اہم کاموں میں ان سے مشورہ بھی لیتے رہیں کیونکہ اس میں ان کی دلداری بھی ہے اور عزت افزائی بھی اور یہ فائدہ بھی کہ مشورہ سنت ہوجائے گا اور آئندہ امت اس سے نفع اٹھاتی رہے گی۔

مشورہ کی اہمیت: مشورہ کرنا برکت کی چابی (Key) ہے جس کی وجہ سے غلطی کا امکان کم ہوجاتا ہے۔ ہر کسی سے مشورہ لینا دانشمندی نہیں اور نہ ہر کوئی ہر معاملے میں درست مشورہ دینے کا اہل ہوتا ہے،چنانچہ کوئی بھی شخص گاڑی کے ٹائروں کے بارے میں کسی ڈاکٹر سے مشورہ نہیں کرے گا اور نہ کپڑے کے تاجر سے سونے کے زیورات کے بارے میں مشورہ کرے گا۔

چنانچہ مشورہ ایسے لوگوں سے کیجئے جو تجربہ کار، عقل مند، تقویٰ والے، خیرخواہ اور بےغرض ہوں، اس کے فوائد آپ خود ہی دیکھ لیں گے۔ ان شاء اللہ

جس سے مشورہ کیا جائے اسے چاہئے کہ درست مشورہ دے ورنہ خائن (یعنی خیانت کرنے والا) ٹھہرے گا۔

فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے: جو اپنے بھائی کوجان بوجھ کر غلط مشورہ دے تواس نےاپنے بھائی کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث:3657)

یعنی اگر کوئی مسلمان کسی سے مشورہ حاصل کرے اور وہ دانستہ غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں گرفتار ہو جائے تو وہ مشیر (یعنی مشورہ دینے والا) پکّا خائن ہے خیانت صرف مال ہی میں نہیں ہوتی، راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 1/212)

حضرت موسیٰ کلیم اللہ اور حضرت ہارون علیہما السلام نے جب خدائی کا جھوٹا دعویٰ کرنے والے فرعون کو ایمان کی دعوت دی تو اس نے اپنی بیوی حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ کیا۔ انہوں نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کیلئے مناسب نہیں ہے کہ ان دونوں کی دعوت کو رد کردے۔ فرعون اپنے وزیر ہامان سے مشورہ کئے بغیر کوئی کام نہیں کرتا تھا، جب اس نے ہامان سے مشورہ کیا تو اس نے کہا: میں تو تمہیں عقل مند سمجھتا تھا! تم حاکم ہو، یہ دعوت قبول کرکے محکوم بن جاؤ گے اور تم رب ہو،اسے قبول کرنے کی صورت میں بندے بن جاؤ گے! چنانچہ ہامان کے مشورے پر عمل کی وجہ سے فرعون دعوت ایمان کو قبول کرنے سے محروم رہا۔ (تفسیر روح المعانی، جزء: 16، ص 682)

اس واقعہ میں ہم سب کے لیے درس عبرت ہے کہ بعض اوقات کسی کو دیا جانیوالا غلط مشورہ اسکو لے ڈوبتا ہے لہذا ہم سب کو چاہیے کہ جب کوئی کسی بھی معاملے میں ہم سے مشورہ طلب کرے تو مخلص ہو کر مشورہ دیں اس سے اللہ کی بارگاہ میں مقبولیت بھی حاصل ہو گی لوگوں کے دلوں میں عزت بھی پیدا ہو گی۔