اسلام میں غلط مشورہ دینا ایک ناپسندیدہ اور گناہ کا عمل سمجھا جاتا ہے، کیونکہ یہ دوسروں کو نقصان پہنچانے یا انہیں گمراہ کرنے کے مترادف ہے۔ قرآن و سنت میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ مسلمان ایک دوسرے کے لیے خیر خواہی اور بھلائی کے جذبات رکھیں اور نیکی و تقویٰ کی ترغیب دیں۔

اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتاہے: وَ تَعَاوَنُوْا عَلَى الْبِرِّ وَ التَّقْوٰى ۪-وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَى الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ۪- (پ 6، المائدۃ: 2) ترجمہ: اور نیکی اور پرہیزگاری میں ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔

مشورہ دینا ایک امانت ہے اور قرآن کریم میں امانت داری کی سخت تاکید کی گئی ہے: اِنَّ اللّٰهَ یَاْمُرُكُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰۤى اَهْلِهَاۙ-(پ 5، النساء: 58) ترجمہ: بےشک اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں ان کے حق داروں کو پہنچاؤ۔

چونکہ مشورہ ایک امانت ہے لہٰذا اگر کسی کو غلط مشورہ دیا جائے تو یہ خیانت میں شمار ہو گا۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس سے مشورہ لیا جائے وہ امانت دار ہے۔ (یعنی اسے چاہیے کہ سچا اورخیرخواہی پر مبنی مشوره دے)۔ (ترمذی، 4/375، حدیث: 2831)

غلط مشورے کے اثرات: کسی کی زندگی یا فیصلے پر برا اثر ڈال سکتا ہے۔ باہمی اعتماد اور تعلقات کو خراب کرتا ہے۔ گناه اور نقصان کی صورت میں مشورہ دینے والا بھی شریکِ جرم شمار ہوتا ہے۔

اسلام ہمیں سچائی، خیرخواہی اور انصاف کے ساتھ مشوره دینے کی تلقین کرتا ہے۔ غلط مشورہ دینا امانت میں خیانت کے زمرے میں آتا ہے اور قیامت کے دن اس کا حساب ہوگا۔ مسلمان کا فرض ہے کہ وہ ہمیشہ بھلائی اور تقویٰ پر مبنی مشورہ دے تاکہ دوسروں کی دنیا اور آخرت سنور سکے۔

پیاری اسلامی بہنو!دینی و دنیادی امور میں مشورے کی بڑی اہمیت و ضرورت ہے۔ ایک شخص کی رائے اس کچے دھاگے کی مثل ہے جس سے کوئی وزنی چیز نہیں اٹھائی جا سکتی۔ چنانچہ واحد شخص کی رائے کے مقابلے میں مشورے کے ذریعے انتخاب کردہ رائے درستی تک پہنچتی اور نتیجے میں زیادہ کار گر رہتی ہے اور اگر بالفرض وہ (منتخب رائے) مقصود و مطلوب تک نہ بھی پہنچے اور نتیجے میں درستی نہ بھی حاصل ہو تو بھی مشورہ کرنے والا شرمندگی و ندامت اور طعنہ زنی و ملامت سے محفوظ رہتا ہے کیونکہ معاملہ سب کی رائے سے طے پایا تھا۔

اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ۪-وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَیْنَهُمْ۪-وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۚ(۳۸) (پ 25، الشوریٰ: 38) ترجمہ: اور جو اپنے رب کا حکم مانتے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں اور ان کے سارے کام باہمی مشورہ سے طے پاتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا اس سے خرچ کرتے ہیں۔

مشورے کی تعریف: آپس میں تبادلہ خیال اور بحث و تکرار کے بعد کوئی رائے قائم کرنے کو مشاورت اور مشورہ کہتے ہیں۔

مسلمانوں کا یہ دستور تھا کہ جب بھی کوئی مشکل یا پیچیدہ مسئلہ پیش آتا تو سب اکھٹے ہو کر اس کے ہر پہلو پر غور کرتے اور آخر کار ایک نتیجے پر پہنچتے۔

حضور ﷺ کا یہ معمول تھا جب بھی ایسی کوئی مشکل پیش آتی تو صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بلا کر مجلس مشاورت منعقد فرماتے اور بحث کے بعد فیصلہ فرماتے۔

حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے ایک مجلس شوری مقرر کی ہوئی تھی جو جلیل القدر صحابہ کرام علیہم الرضوان پر مشتمل تھی اور تمام ملکی، سیاسی، جنگی اور مجلس کے فیصلے کے مطابق عمل کیا جاتا۔ جب آپ نے قیصر و کسری کے مقابلے کے لیے بنفس نفیس تشریف لے جانے کا ارادہ ظاہر کیا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کو خلاف مصلحت سمجھا اور خود جانے سے روکا اور آپ کی رائے کے مطابق عمل کیا گیا۔

دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کا رسالہ مدنی کاموں کی تقسیم صفحہ 31 میں ہے: اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہمیں اپنے کام باہم مشورے سے انجام دینے کی ترغیب ارشاد فرماتے ہوئے مسلمانوں کے مشورے سے کام کرنے کو پسندیدگی کے طور پر ذکر فرمایا اپنے پیارے کلام کی جس صورت میں ان کے مشورے کا فعل مذکور ہوا اس کا نام ہی سورۃ الشوریٰ رکھا گیا ہے۔

مشورہ کرنے کی مزید اہمیت اس بات سے بھی واضح ہوتی ہے کہ اللہ پاک نے اپنے محبوب کریم ﷺ سے ارشاد فرمایا: وَ  شَاوِرْهُمْ  فِی  الْاَمْرِۚ- ( پ 4، آل عمران:159 ) ترجمہ: اور کاموں میں ان سے مشورہ لو۔

ہمارے پیارے آقا ﷺ صحابہ کرام کے مشوروں اور آراء کی خوب قدر افزائی فرماتے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان بھی سرکار مدینہ ﷺ کی اس قدر دانی و شفقت، نرمی و رحمت اور مناسب مشورے قبول فرمانے والی مبارک خصلت کی ڈھارس سے دل کھول کر اپنے پیارے آقا ﷺ کے اس حسن اخلاق کی برکتیں لوٹتے ہوئے اپنی رائے بار گاہ رسالت میں پیش کر دیتے۔

اے کاش !ہم بھی اسلاف کے طریقے پر عمل پیرا ہوں اور اپنے ماتحت سے مشورہ لینے کی ترکیب بنایا کریں۔ مگر افسوس ایک ہم ہیں کہ ہمیں کوئی منصب یا ذمہ داری مل جاتی ہے تو کسی ماتحت سے مشورہ کرنا تو کجا اگر کوئی ماتحت از خود ہمیں مشورہ دینے کی جسارت کر بیٹھے تو اس کو بد تہذیب، بے ادب گستاخ اور زبان دراز جانتے اور اپنے عہدے کے غرور اور بدخلق وحوصلہ شکن رویے کے فتور سے اس کے دل کا شیشہ چکنا چور کر ڈالتے ہیں۔ کاش ہم عاجزی اپنا کر اپنے آقائے خوش خصال ﷺ کی مشورہ کرنے والی سنت پر بھی عمل پیرا ہوں اور وسعت قلبی سے اپنی ماتحت اسلامی بہنوں کی رائے لینے کا خلق اپنائیں اور ان کی مناسب رائے قبول بھی کریں۔

مشورہ کس سے لیا جائے؟ مشورہ کرتے وقت اس بات کا خیال رکھا جائے کہ جس سے مشورہ لیں وہ مشورے کا اہل بھی ہو بیماری میں پولیس اور عمارت کی تعمیر میں طبیب سے مشورہ نہیں لیا جائےگا اور صائبِ رائے ہی کی رائے کو فوقیت دی جائے۔ اسی طرح کہا گیا ہے کہ مندرجہ ذیل سے مشورہ نہ کیا جائے: جاہل، دشمن، ریاکار، بزدل، بخیل اور خواہشات کا پیرو۔ کیونکہ رائے دینے میں جاہل گمراہ کرے گا، دشمن ہلاکت چاہے گا، ریاکار لوگوں کی خوشنودی کو پیش نظر رکھے گا، بزدل کم ہمتی کا مظاہرہ کریگا، بخیل کی رائے حرص مال سے خالی نہ ہوگی اور خواہشات کی پیروی کرنے والا اپنی خواہشات کا غلام ہوتا ہے سو اس کی رائے اس کی خواہش کے تابع ہوگی۔

لالچی اور خوشامدی سے بھی مشورہ نہیں کرنا چاہئے کہ یہ ہمیشہ اپنا فائدہ سوچے گا اور اجتماعی مفادات سے کچھ غرض نہ رکھے گا۔

مشورہ دینے والا کیسا ہو؟ لہذا مشورہ دینے والے کو چاہئے کہ مذکورہ بالا صفات مذمومہ سے خود کو بچائے اور اپنے اندر ایسی اعلیٰ صفات اور ایسی کڑھن اور اخلاص پیدا کرے کہ اس کے مشورے مدنی کاموں میں زیادہ سے زیادہ بہتری لانے کے لئے مفید و سود مند ثابت ہو سکیں۔ لہذا ضروری ہے کہ مشورہ دینے والا اپنے آپ کو ان اوصاف سے متصف کرے جس سے اس کی رائے خام سے تام ہو جائے اور وہ مشورہ دینے میں مفید کردار ادا کر سکے۔ چنانچہ مشورہ دینے والی معاملے کی نوعیت سے صحیح طور پر آگاہ، آداب مشورہ سے واقف، تہذیب و شائستگی کی پیکر، خلوص وللہیت کی حامل، غور و خوض کی عادی سلجھی ہوئی، سنجیدہ فکر اسلامی بہن ہونی چاہیے۔

مشورہ دینے کے آداب میں منقول ہے مشورہ دینے والی معاملے کی باریکیوں کا صحیح علم رکھنے والی، مہذب و شائستہ رائے والی ہو کیونکہ بہت سے علم والے درست رائے کی معرفت نہیں رکھتے اور کئی ایسے ہیں جو معمولی بات میں بحث کرنے میں بھی درستی پر نہیں ہوتے۔

مشیر کے لئے امانت دار اور صاحب راز ہونا بھی بہت ضروری ہے کہ جس نے ہم سے مشورہ لیا ہم اس کے راز کی حفاظت کریں کبھی بھی کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں اور اچھا مشورہ دے ہرگز ایسا مشورہ نہ دیں جس سے سامنے والے کو نقصان نہ ہو۔

امیر اہلسنت دامت بر کاتہم العالیہ کے مدنی مشورے کا انداز: شیخ طریقت امیر اہلسنت کے مدنی مشورے میں مدنی آقا ﷺ کے اس فرمان بشارت نشان کی عملی تصویر نظر آتی ہے کہ: آسانی پیدا کرو اور تنگی نہ دو اور خوشخبری دو اور متنفر نہ کرو۔ (بخاری، 1/ 42، حدیث : 69)

چنانچہ دیکھا گیاہے کہ آپ دامت برکاتہم العالیہ کی مشاورت کی تھپک اور آپ کا مزاج مدنی مشورے کو اتنا حوصلہ دے دیتا ہے کہ باوجود یہ کہ رعب ولایت کے کوئی بھی اسلامی بھائی اپنے مشورے کی پیش گزاری میں جھجک محسوس نہیں کرتا کوئی کیساہی خفیف و نامناسب بلکہ احمقانہ ہی مشورہ دے بیٹھے آپ اس کو انتہائی تحمل و شفقت ظرفی سے سنتے ہیں اور بڑے پُرشفقت اور حکیمانہ انداز میں اس مدنی مشورے کی کمزوریوں پر روشنی ڈال کر اس کا مناسب نہ ہونا واضح کر دیتے ہیں کہ مشورے دینے والے کی حوصلہ شکنی بھی نہیں ہوتی اوروہ اپنے ناقص مشورے سے رجوع بھی کر لیتا ہے۔

پیاری پیاری اسلامی بہنو! ہمارے مدنی مشورے کا انداز کیسا ہونا چاہیے؟ مدنی مشوروں میں مذاق، طنز و تضحیک نہ ہو بلکہ مشورے کے آداب کا خیال رکھتے ہوئے مشورے کرتے جائیں کسی کا کیساہی احمقانہ مشورہ ہو تب بھی بہت تحمل کے ساتھ مکمل سنیے غلطی ہونے پر اس کی تفہیم فرمائیں ہر گز کسی کی دل آزاری نہ ہو۔

جب ہم مدنی مشوروں کے ذریعے اسلامی بہنوں کی رائے و مشورے کے قیمتی موتی چننا شروع کر دیں گے تو ان شاءاللہ ہمیں اسکے فوائد حاصل ہونگے۔

اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ