مشورہ کے
معنیٰ ہیں کسی معاملے میں کسی کی رائے دریافت کرنا۔ کام کسی بھی نوعیت کا ہو! اسے
کرنے کے لئے کسی سے مشورہ کر لینا بہت مفید ہے۔ اللہ پاک نے اپنے نبی محمد عربی ﷺ
کو صائب الرّائے (یعنی درست رائے والا) ہونے کے باوجود صحابۂ کرام علیہم الرضوان
سے مشورہ لینے کا فرمایا کہ اس میں ان کی دلجوئی بھی تھی اور عزّت افزائی بھی!
چنانچہ مشورہ کرنا سنّت سرکار ہے۔
حدیث شریف میں
ہے: جب امانت ضائع کر دی جائے تو قیامت کا انتظار کرو۔ (بخاری، 1/36، حدیث: 59
ملخصاً) غلط مشورہ دینا امانت میں خیانت ہے اور اسکا انجام برا ہوگا غلط مشورہ
دینا ایک سنگین گناہ ہے۔ مشورہ دیتے وقت نیت صاف اور دیانتداری کا مظاہرہ کرنا
چاہیے۔ قرآن و حدیث ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم کسی کو دھوکہ نہ دیں اور خیر خواہی
کریں۔ اگر ہم کسی کو جان بوجھ کر غلط مشورہ دیتے ہیں، تو یہ دنیا میں نقصان اور
آخرت میں عذاب کا سبب بن سکتا ہے۔
قرآن و حدیث
میں غلط مشورہ دینے کے مزید پہلو اور اس کے خطرات پر مختلف انداز سے روشنی ڈالی
گئی ہے۔ ذیل میں مزید تفصیل درج ہے:
حدیث مبارکہ
میں ہے کہ جو اپنے بھائی کو کسی معاملے میں مشورہ دے حالانکہ وہ جانتا ہے کہ درستی
اس کے علاوہ میں ہے اس نے اس کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث: 3657) یعنی اگر کوئی مسلمان کسی سے مشورہ حاصل
کرے اور وہ دانستہ غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں گرفتار ہوجائے تو وہ مشیر پکا
خائن(یعنی خیانت کرنے والا)ہے۔ (مراۃ المناجیح،1/212)
غلط مشورہ نہ
دیجئے جس سے مشورہ کیا جائے اسے چاہئے کہ درست مشورہ دے ورنہ خائن (یعنی خیانت
کرنے والا) ٹھہرے گا، فرمان مصطفٰے ﷺ ہے: جو اپنے بھائی کوجان بوجھ کر غلط مشورہ
دے تواس نےاپنے بھائی کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث: 3657) یعنی اگر
کوئی مسلمان کسی سے مشورہ حاصل کرے اور وہ دانستہ غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں
گرفتار ہو جائے تو وہ مشیر (یعنی مشورہ دینے والا) پکّا خائن ہے خیانت صرف مال ہی
میں نہیں ہوتی، راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 1/ 212)
غلط مشورہ کا
ایک عبرت انگیز واقعہ بھی ملاحظہ کیجئے چنانچہ حضرت موسیٰ کلیم اللہ اور حضرت ہارون
علیہما السلام نے جب خدائی کا جھوٹا دعوی کرنے والے فرعون کو ایمان کی دعوت دی تو
اس نے اپنی بیوی حضرت سید تنا آسیہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ کیا۔ انہوں نے ارشاد
فرمایا: کسی شخص کیلئے مناسب نہیں ہے کہ ان دونوں کی دعوت کو رد کردے۔ فرعون اپنے
وزیر ہامان سے مشورہ کئے بغیر کوئی کام نہیں کرتا تھا، جب اس نے ہامان سے مشورہ
کیا تو اس نے کہا: میں تو تمہیں عقل مند سمجھتا تھا ! تم حاکم ہو، یہ دعوت قبول کر
کے محکوم بن جاؤ گے اور تم رب ہو، اسے قبول کرنے کی صورت میں بندے بن جاؤ گے !
چنانچہ ہامان کے مشورے پر عمل کی وجہ سے فرعون دعوت ایمان کو قبول کرنے سے محروم
رہا۔ (تفسیر روح المعانی، جزء 16، ص 682)
آخر میں اللہ
پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اچھا مشورہ دے کر سنت نبوی ﷺ پر عمل کرنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین