مشورہ ایک
بہترین عمل اور سنت طریقہ ہے۔ جس کے ذریعہ ایک فرد یا جماعت اپنے فیصلوں کو بہتر
بنانے کے لیے دوسروں سے رائے لیتے ہیں، مشورہ کو بنیادی اہمیت دی گئی ہے کیونکہ یہ
اجتماعی شعور کو فروغ دیتا ہےاور غلطیوں سے بچنے کا ذریعہ بنتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے
فرمایا: جس نے مشورہ کیا، وہ ناکام نہیں ہوا۔ مشورے کی اس اہمیت کے باوجود جب یہ
غلط بنیادوں پر ہو تو نقصان ده ہوتا ہے۔
غلط
مشورہ کیا ہوتا ہے؟ غلط مشورہ ایسی رائے یا رہنمائی ہے جو غلط معلومات،
محدود علم، ذاتی مفاد، بدنیتی کی وجہ سے دی جاتی ہے، معلومات کی کمی کے باعث بھی
لوگ غلط مشورہ دیتے ہے اس لئے معلومات ہونا ضروری ہے تاکہ درست مشورہ فراہم کریں اور
جس نے مشورہ مانگا ہے اس کی خیرخواہی ہو، ورنہ خاموش رہیں۔
بعض لوگ اپنے
ذاتی مفاد کے لیے غلط مشورہ دیتے ہیں۔ جیسے: کسی ملازم کو کمپنی چھوڑنے کا مشورہ
دینا تاکہ اپنی ترقی کرنے کا موقع حاصل ہو جائے۔
مشورے کرنے کے
جہاں کئی فوائد ہیں اسی طرح غلط مشورے کرنے سے بہت زیادہ نقصانات اٹھانے بھی پڑ
جاتے ہیں۔ جیسے: کسی کے حسدو بغض کی وجہ سے کسی کو غلط مشورہ دینا تاکہ وہ ترقی کے
راستے پر نہ چل سکیں۔ جبکہ مسلمان مسلمان کا خیرخواہ ہوتا ہے۔ وہ اس کی بد خواہی
نہیں چاہ سکتا غلط مشورے کے سبب تنظیم یا کوئی سا بھی صوبہ ترقی نہیں کر سکتا۔ اس
میں خامیاں آ ہی جائیں گی۔جب کہ صحیح مشورے کے سبب تنظیم اور صوبہ کو بہت سے فوائد
حاصل ہوں گے اور وہ ترقی پر گامزن ہوگا۔
ہمارے دعوت
اسلامی کا دینی ماحول ہی کو دیکھ لیں یہاں باقاعدہ شوریٰ بنی ہوئی ہے جس کے تحت مشورے
ہوتے رہتے ہیں اور تنظیم ترقی کی راہ پر پرواز کرتی ہی جارہی ہے۔
الحمدللہ اس
میں غلط مشورے دینے کے بہت کم ہی امکانات ہوتے ہیں۔ اگر ہو بھی تو باہم مشورے سے
اسے درست کر لیا جاتا ہے۔
عام طور پر
مشورے کی ضرورت در پیش ہوتی ہے اس لئے چاہیے کہ کسی ایسے شخص سے مشورہ کریں جو
مسئلے کی مکمل سمجھ رکھتا ہو تووہ غلط مشورہ نہیں دے گا امانتدار ہو تقویٰ و
پرہیزگار ہو اللہ پاک سے ڈرنے والا ہو تاکہ وہ صحیح مشورہ دیں اگر کسی ایسے سے
مشورہ کیا جو شریعت کے حدود کو توڑنے والا ہو تو ہو سکتا ہے اس کے مشورے کے سبب
کسی پریشانی میں مبتلا ہونے کا قوی اندیشہ ہے۔
اگر مشورے آپ کو
مطمئن نہ کریں تو اس پر غور و خوض کرکے نتیجے کو اخذ کریں جو بہتر لگے اس پر عمل
کریں تاکہ آزمائشوں سے بچیں غلط مشورے سے سے بچنے کے لیے دعائیں کریں روز مرہ کی
زندگی میں استخارہ اور اللہ سے رہنمائی مانگنے کی عادت اپنائیں تاکہ غلط فیصلوں سے
بچ سکیں۔
بعض لوگ رشتے
کے حوالے سے بھی مشورہ طلب کرتے ہیں اور انہیں غلط مشورہ دے دیا جاتا ہے جس کے سبب
آگے کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے بعد میں مشورہ دینے والوں کو ملامت کیا جاتا ہے اس
لئے چاہیے کہ مکمل چھان بین کرکے تب مشورے کی تصدیق کریں تاکہ بعد میں کوئی رسوائی
نہ اٹھانا پڑے۔
قرآن کریم میں
غلط مشورہ دینے یا کسی کو دھوکہ دینے کی سخت مذمت کی گئی ہے یہ عمل نہ صرف گناہ بلکہ اس کے دنیاوی اور اخروی
نقصان بھی ہے۔
قرآن پاک میں
ہے: وَ لَا تَبْغِ
الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ(۷۷) (پ
20، القصص:77) ترجمہ: اور زمین میں فساد مت پھیلاؤ، ہے شک اللہ فساد کرنے والوں کو
پسند نہی کرتا۔
غلط مشورہ
دینا بھی فساد کا ایک ذریعہ ہے جو انسانوں کے درمیان تعلقات کو بگاڑتا ہے غلط مشورہ دینا قرآن کے اصولوں کے خلاف ہے اور
اس سے اجتناب کرنا ہر مسلمان پر واجب ہے ہمیں ہمیشہ امانتداری، دینداری اور حق گوئی کا مظاہرہ کرنا چاہیے، غلط
مشورہ دینے اور دھوکہ دہی کے بارے میں نبی اکرم ﷺ نے سخت وعیدیں بیان فرمائی ہیں،
چنانچہ رسول ارشاد فرمایا: مسلمان مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر ظلم کرتا ہے اور
نہ اسے بے سہارا چھوڑتا ہے۔ (مسلم، ص 1069، حدیث: 6578)
غلط مشورہ
دینا بھی ایک قسم کا ظلم ہے، جو مسلمان کے حقوق کے خلاف ہے نبی کریم ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ، مشورہ دینا
ایک ذمہ داری اور امانت ہے غلط مشورہ دینا نہ صرف گناہ ہے بلکہ خیرخواہی، امانتداری
اور اسلامی بھائی چارے کے اصولوں کے خلاف ہے مسلمان کو ہمیشہ سچائی اور دیانت داری کے ساتھ مشورہ دینا چائیے۔
حضرت موسیٰ
کلیم اللہ اور حضرت ہارون علیہما السلام نے جب خدائی کا جھوٹا دعوی کرنے والے
فرعون کو ایمان کی دعوت دی تو اس نے اپنی بیوی حضرت سید تنا آسیہ رضی اللہ عنہا سے
مشورہ کیا۔ انہوں نے ارشاد فرمایا: کسی شخص کیلئے مناسب نہیں ہے کہ ان دونوں کی
دعوت کو رد کردے۔ فرعون اپنے وزیر ہامان سے مشورہ کئے بغیر کوئی کام نہیں کرتا
تھا، جب اس نے ہامان سے مشورہ کیا تو اس نے کہا: میں تو تمہیں عقل مند سمجھتا تھا
! تم حاکم ہو، یہ دعوت قبول کر کے محکوم بن جاؤ گے اور تم رب ہو، اسے قبول کرنے کی
صورت میں بندے بن جاؤ گے ! چنانچہ ہامان کے مشورے پر عمل کی وجہ سے فرعون دعوت
ایمان کو قبول کرنے سے محروم رہا۔ (تفسیر روح المعانی، جزء 16، ص 682)
پیاری اسلامی
بہنو! دیکھا آپ نے غلط مشورے نے فرعون کو دعوتِ ایمان سے محروم کرکے ہمیشہ کے لیے
عذاب نار کا مستحق کر دیا فرعون نے ہامان کو اپنا خیرخواہ سمجھ کر مشورہ مانگا
لیکن اس نے فرعون کو انسان نہیں بلکہ رب ہونے کا دعویدار ٹھہرایا جس کے سبب وہ بھی
اس کے مشورے کو قبول کرکے دنیا و آخرت میں ذلیل و رسوا ہو گیا اور اللہ پاک نے اسے
دنیا میں عبرت کا نشان بنا دیا۔
لہٰذا جس سے
مشورہ کیا جائے اسے چاہیے کہ درست مشورہ دیں ورنہ خیانت کرنے والا ٹھہرے گا، فرمان
مصطفیٰ ﷺ ہے: جو اپنے بھائی کو جان بوجھ کر غلط مشورہ دے تو اس نے اپنے بھائی کے
ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث:
3657)
یعنی اگر کوئی
مسلمان کسی سے مشورہ حاصل کرے اور وہ دانستہ غلط مشورہ دے تاکہ وہ مصیبت میں
گرفتار ہو جائے تو وہ مشیر (یعنی مشورہ دینے والا) پکا خائن ہے خیانت صرف مال میں
نہیں ہوتی، راز، عزت، مشورے تمام میں ہوتی ہے۔ (مراۃ المناجیح، 1/212)