غلط مشورہ کسی
بھی انسان کو کسی طرح کے نقصان سے دو چار کر سکتا ہے اس لیے مشورہ دینے اور لینے
دونوں میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے مشورہ دینےوالے کو بھی مشورہ دینے سے پہلے
تمام حالات،واقعات اور تمام صورتحال کا جائزہ لے کر صحیح مشورہ دینا چاہیے۔ فرعون نے
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دعوتِ اسلام کے بعد حضرت آسیہ رضی اللہ عنہا سے مشورہ
کیا تو انہوں نے اسے اسلام کی یہ دعوت قبول کرنے کے لیے کہا لیکن وہ اپنے وزیر
ہامان کے مشورے کے بغیر کوئی کام نہیں کرتا تھا اس نے ہامان سے مشورہ کیا تو ہامان
نے فرعون کو جواب دیا کہ آپ اگر اس دعوت کو قبول کر لیں گے تو آپ تو خدا ہیں پھر
آپ محکوم بن جائیں گے اور آپ کی یہ بادشاہت اور طاقت ختم ہو جائے گی لہذا آپ ایسا
ہرگز نہیں کیجئے گا، اس طرح آپ حضرت موسی کے زیر اثر آجائیں گے اور وہ جو چاہیں گے
آپ سے کروائیں گے اور ہم سب محکوم ہوتے چلے جائیں گے اس طرح آپ کو حضرت موسی علیہ
السلام کی ہر بات ماننی پڑے گی یہ بات فرعون کی سمجھ میں آگئی اور اس نے حضرت آسیہ
رضی اللہ عنہا کا کہنا ماننے کے بجائے ہامان کے مشورے کو پسند کیا اور اس پر عمل
کیا اور حضرت موسی علیہ السلام کی اس دعوت اسلام کو قبول کرنے سے انکار کر دیا جس
کا خمیازہ اس کو دنیا اور آخرت کی بربادی کی شکل میں بھگتنا پڑا اور وہ اپنے وزیر
کا یہ مشورہ قبول کرنے کی وجہ سے دنیا میں بھی ناکام رہا اور سمندر میں غرق ہو گیا
اور آخرت میں بھی کچھ حاصل نہیں کر سکے گا اور جہنم میں داخل ہو جائے گا۔
غلط مشورے کی
یہ سب سے بڑی مثال ہے لہذا مشورہ دینا اور لینا یہ دونوں ہی اہم کام ہیں جس سے
انجام دینے سے پہلے نہایت سمجھداری اور عقلمندی کی ضرورت ہوتی ہے۔
مشورہ ایک
امانت ہے جسے پورے اخلاص کے ساتھ ادا کرنا چاہیے اور اس میں لاپرواہی نہیں کرنی
چاہیے کہ بغیر سوچے سمجھے اور کسی کے نقصان کی پرواہ کیے بغیر کسی کو مشورہ دے دیا
جائے جو اس کے لیے مشکلات کا سبب بنے یہ بہت ہی غلط بات ہے اور اللہ کی ناراضگی کا
سبب بھی ہےصحیح مشورہ دینا حقوق العباد میں شامل ہے یعنی اگر آپ کو کسی نے اس قابل
سمجھا ہے کہ وہ آپ سے مشورہ طلب کر رہا ہے تو آپ پر لازم ہے کہ آپ اس کی مدد کریں
اور اس کو صحیح مشورہ دیں اگر آپ سے کوئی مشورہ طلب کرتا ہے اور آپ اس کے اہل نہیں
ہیں تو آپ اس کو منع کر دیجیے اور اس کو بتائیے کہ کہاں سے وہ صحیح مشورہ حاصل کر
سکتا ہے اور اگر آپ اس کے اہل ہیں تو جان بوجھ کر کسی کو غلط مشورہ نہ دیجیے
کیونکہ یہ امانت میں خیانت ہے۔ اس بارے میں حدیث مبارکہ ہے کہ جس سے کسی مسلمان
بھائی نے کوئی مشورہ طلب کیا اور اس نے جان بوجھ کر اسے غلط مشورہ دیا تو اس نے اس
کے ساتھ خیانت کی۔ (ابو داود، 3/449، حدیث: 3657)
جو چیز آپ کو
معلوم ہے اگر آپ اس کے بارے میں جانتے ہیں تو پوچھنے والے کو صحیح معلومات فراہم
کیجئے اور اگر نہیں جانتے تو اپنے آپ کو لاعلم ظاہر کر دیجئے تاکہ آپ سے مشورہ طلب
کرنے والا کسی نقصان سے محفوظ رہ سکے۔
مشورہ دینے
والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے پورے اخلاص کے ساتھ اپنے مسلمان بھائی کو صحیح
مشورہ دے اور اس کے نفع اور نقصان کو واضح کرے اور تمام پہلوؤں پر پورے اخلاص کے
ساتھ تفصیل سے آگاہ کرے اور اپنے مفادات کی خاطر کسی دوسرے کو غلط مشورہ نہ دے
کیونکہ یہ اپنے مسلمان بھائی کو دھوکہ دینے کے برابر ہے جس کی اسلام میں سختی سے
مذمت کی گئی ہے۔ حدیث مبارکہ ہے: جب کوئی مسلمان تجھ سے کوئی مشورہ طلب کرے تو اس
کی خیر خواہی کرتے ہوئے اسے اچھا مشورہ دے۔ (مسلم، ص 919، حدیث: 5651)