حضرت محمد ﷺ کی زندگی کا ہر پہلو انسانیت کے لیے ایک بہترین مثال ہے۔آپ نے ہر رشتے کو بہترین طریقے سے نبھایا اور اپنی محبت و شفقت سے ہر تعلق کو مضبوط بنایا۔آپ کی اپنے نواسوں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما سے محبت بے مثال تھی جو قیامت تک کے لیے ہر مسلمان کے لیے رہنمائی ہے۔

امام حسن و امام حسین رضی اللہ عنہما کو سینے سے لگایا:حضرت یعلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہما دوڑتے ہوئے رسول اللہ ﷺ کے پاس آئے تو حضور اکرم ﷺ نے ان دونوں کو اپنے سینے سے لگا لیا اور فرمایا:اولاد بخیل اور بزدل بنادینے والی ہے۔

(مسند احمد،29/104،حدیث:17562)

حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اولاد کو( بخیل اور بزدل)فرمانا ان کی برائی کے لیے نہیں بلکہ انتہائی محبت کے اظہار کے لیے ہے یعنی اولاد کی انتہائی محبت انسان کو بخیل و بزدل بن جانے پر مجبور کر دیتی ہے۔(مراۃ المناجیح،6/ 367)

حضرت بَراء بن عازِب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ حضور ﷺامام حسن بن علی(رضی اللہ عنہما) کو کندھے پر اُٹھائے ہوئے ہیں اوربارگاہِ الٰہی میں عرض کررہے ہیں:الٰہی! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت فرما۔(ترمذی،5/432،حدیث:3808)

یعنی جس درجہ کی محبت ان سے میں کرتا ہوں تو بھی اسی درجہ کی محبت کر یعنی بہت زیادہ ورنہ حضرت حسن پہلے ہی اللہ کے محبوب تھے۔(مراۃ المناجیح، 8 /383)

حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ حسن اور حسین یہ دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں ۔(بخاری،2/547،حدیث:3753)

جیسے باغ والے کو سارے باغ میں پھول پیارا ہوتا ہے ایسے ہی دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں میں مجھے حضرات حسنین کریمین پیارے ہیں۔(مراۃ المناجیح، 8/475)

اُن دو کا صدقہ جن کو کہا میرے پُھول ہیں

کیجے رضاؔ کو حشر میں خنداں مِثالِ گل

(حدائقِ بخشش، ص77)

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے حضرت امام حسن اور حسین کی پیدائش کے ساتویں دن ان کی طرف سے دو دو بکریاں عقیقہ میں ذبح فرمائیں۔(مصنف عبد الرزاق، 4/254،حدیث:7993)

عام طور پر عقیقہ والدین کرتے ہیں لیکن امام حسن اور حسین رضی اللہ عنہما کی ولادتِ باسعادت پروالدین نے نہیں بلکہ رحمتِ عالم ﷺ نے ہی اپنے پیارے نواسوں کا عقیقہ فرمایا،اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ آقا ﷺ کو اپنے نواسوں سے کیسی محبت تھی!

حضور ﷺ ان دونوں نونہالوں کو سونگھتے اور سینہ مبارک سے لپٹاتے۔

(ترمذی،5/428،حدیث: 3797)

حدیثِ پاک میں ارشاد فرمایا:جس نے ان دونوں سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے عداوت (یعنی دشمنی) کی اس نے مجھ سے عداوت (یعنی دشمنی) کی۔(ابنِ ماجہ،1/ 96، حدیث:143)

حضرت ابو بریدہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ اسی دوران حضرت امام حسن اور امام حسین رضی اللہ عنہما تشریف لائے،انہوں نے سرخ رنگ کی قمیص پہنی ہوئی تھی،کم عمری کی وجہ سے گرتے پڑتے چلے آ رہے تھے۔نبی کریم ﷺ نے جب انہیں دیکھا تو منبر سے نیچے تشریف لے آئے،دونوں شہزادوں کو اٹھایا اور اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر فرمایا: اللہ کا یہ ارشاد سچ ہے :

اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌؕوَ اللّٰهُ عِنْدَهٗۤ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(15)(پ28،التغابن:15) ترجمہ:تمہارے مال اور تمہارے بچے جانچ آ زمائش ہی ہیں۔

میں نے ان بچوں کو دیکھا کہ گرتے پڑتے آر ہے ہیں تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا حتی کہ میں نے اپنی بات کاٹ کر انہیں اٹھا لیا۔(ترمذی،5/ 429،حدیث: 3799)

کس زباں سے ہو بیان عزو شانِ اہلِ بیت

مدح گوئے مصطفیٰ ہے مدح خوان ِاہلِ بیت

(ذوقِ نعت ،ص71)