تلخ کلامی کا مطلب ہے تلخ گوئی، بدزبانی، سخت کلامی، وہ شخص جس کی باتیں طنز کی ہوں۔ ہمارا پیارا دین امن و سلامتی کادین ہے جو دیگر تعلیمات کے ساتھ ساتھ ہمیں اچھے آداب و اخلاق بھی سکھاتا ہے، زبان ہمارے بدن کا وہ حصہ ہے جس کے متعلق حدیث مبارکہ کا مضمون ملتا ہے کہ جب انسان صبح کرتا ہے تو اس کے اعضاء جھک کر زبان سے کہتے ہیں: ہمارے بارے میں اللہ تعالیٰ سے ڈر! کیونکہ ہم تجھ سے متعلق ہیں اگر تو سیدھی رہے گی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اگر تو ٹیڑھی ہو گی ہم بھی ٹیرھے ہو جائیں گے۔ (ترمذی، 4/183، حدیث: 2415)

بہت سے گناہ ایسے ہیں جو زیادہ تر زبان سے ہی ہوتے ہیں جیسے جھوٹ، غیبت چغلی، بد کلامی کرنا، وغیرہ وغیرہ ایذائے مسلم کی بہت سی باتیں زبان سے تعلق رکھتی ہیں انہی میں سے ایک گناہ تلخ کلامی بھی ہے، اگر انسان اپنی زبان کو قابو میں رکھے اور اے کاش! زبان کا قفل مدینہ عطا ہو جائے تو بہت سے گناہوں سے بچا جا سکتا ہے

حکم: تلخ کلامی ایک ایسا گناہ ہے جس سے دوسروں کو ایذا ہوتی ہے اور ایذا دینی حرام ہے۔ (ظاہری گناہوں کی معلومات، ص44)

اللہ پاک سورہ شوریٰ کی آیت نمبر 42 میں ارشاد فرماتا ہے: اِنَّمَا السَّبِیْلُ عَلَى الَّذِیْنَ یَظْلِمُوْنَ النَّاسَ وَ یَبْغُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّؕ-اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۴۲)ترجمہ کنز العرفان: گرفت صرف ان لوگوں پر ہے جولوگوں پر ظلم کرتے ہیں اور زمین میں ناحق سرکشی پھیلاتے ہیں، ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔

یاد رہے کہ ظلم کی دو قسمیں ہیں (1) شخصی ظلم۔ (2) قومی ظلم۔آیت کے ا س حصے یظلمون النّاس میں شخصی ظلم مراد ہے جیسے کسی کو مارنا، گالی دینا، مال مار لینا۔

حدیث مبارکہ میں صحابی رسول حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ مکی مدنی آقا ﷺ نے فرمایا: بےشک مجھے تم میں سے سب سے پیارا اور قیامت کے دن میرے نزدیک تر وہ شخص ہوں گے جو تم سے زیادہ اچھے اخلاق والے ہیں اور تم میں سے مجھے سب سے زیادہ ناپسند اور قیامت کے دن مجھ سے زیادہ دور وہ لوگ ہوں گے جو برے اخلاق والے ہیں، جو زیادہ باتیں کرنے والے منھ پھٹ، باچھیں کھول کر اور منہ بھر کر باتیں کرنے والے ہیں۔ (شعب الایمان، 6/ 234، حدیث: 7989)

تلخ کلامی کے اسباب و علاج:

1۔ بری صحبت برے اخلاق کا سبب بنتی ہے جن لوگوں کے ساتھ ہمارا اٹھنا بیٹھنا ہوتا ہے ان کی عادات و اطوار ہماری ذات پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں اس لیے ضروری ہے کہ نیک اور بااخلاق و باعمل لوگوں کی صحبت اختیار کی جائے تاکہ بدکلامی جیسی عادت بد سے جان چھڑائی جا سکے۔

2۔ تلخ کلامی کا ایک سبب بےجا غصہ کرنا بھی ہو سکتا ہے کہ انسان ذاتی انتقام کے لیے غصہ کرے کیونکہ غصے میں انسان بہت سی ایسی باتیں بھی کہہ جاتا ہے جن کے متعلق بعد میں شرمندگی اٹھانی پڑتی ہے اس کا علاج یہ ہے کہ انسان خود کو یوں ڈرائے کہ اگر غصے کے سبب مجھ سے تلخ کلامی ہوگئی کسی کی دل آزاری ہو گئی تو کہیں یہ فرمان مجھ پر ہی لاگو نہ ہو جائے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: جہنم میں ایک دروازہ ہے اس سے وہی داخل ہوں گے جن کا غصہ کسی گناہ کے بعد ہی ٹھنڈا ہوتا ہے۔ (مسند الفردوس، 1/205، حدیث: 784)

3۔ تلخ کلامی کا ایک سبب جہالت بھی ہے کہ بعض لوگ اسے معمولی سمجھ کر نظر انداز کر دیتے ہیں اور جب کسی مرض کے متعلق علم ہی نا ہو تو اس کا علاج بھی ممکن نہیں اس کا علاج یہ ہے کہ اس کے بارے میں علم دین حاصل کیا جائے اور تلخ کلامی کے عذابات کو پڑھا جائے اور اپنے نازک بدن پر غور کیا جائے کہ اگر ان میں سے کوئی عذاب ہم پر مسلط کر دیا گیا تو ہمارا کیا بنے گا۔

4۔ کسی کے لیے دل میں بغض و کینہ بھی تلخ کلامی کا سبب بن سکتا ہے اس کا علاج یہ ہے کہ سلام و مصافحہ کی عادت بنائی جائے تاکہ دل میں پیارو محبت کے جذبات پیدا ہوں مزید دل میں احترام مسلم کا جذبہ جنم لے۔

5۔ تلخ کلامی کا ایک سبب خشیت الہی کی کمی بھی ہو سکتا ہے کہ انسان کے دل میں اللہ کا خوف نہ رہے اور اس سبب اس کے دل میں جو آئے کرتا چلا جائے اس کے لیے ضروری ہے کہ ان لوگوں کی صحبت میں رہا جائے خوف الٰہی رکھنے والے ہوں اس کا بہترین ذریعہ ہماری پیاری تحریک دعوت اسلامی کا پیارا پیارا مہکا مہکا مدنی ماحول ہے جس سے ہر دم وابستہ رہنا چاہیے تاکہ گناہوں سے بچنے اور نیکیاں کرنے کا ذہن بنے تاکہ ہمارا بھی اللہ کے فضل و کرم اور پیارے آقا ﷺ کے صدقے بیڑا پار ہو جائے۔ آمین بجاہ طہ و یسین ﷺ

اللہ ہمیں ظاہری و باطنی گناہوں کی معلومات کے بارے میں علم حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین