بعض لوگ سخت لہجہ میں گفتگو کرنے کو باعث فخر تصور کرتے ہیں حالانکہ اللہ کے محبوب دانائے غیوب ﷺ نے اسے عیب قرار دیا ہے اور نرمی کی ترغیب دلائی ہے۔ چنانچہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: نرمی جس چیز میں ہوتی ہے اسے زینت بخشتی ہے اور جس چیز سے نرمی چھین لی جاتی ہے اسے عیب دار کر دیتی ہے۔ (مسلم، ص 1398، حدیث: 12594)

حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول ﷺ نے فرمایا: جسے نرمی میں سے حصہ دیا گیا اسے بھلائی میں سے حصہ دیا گیا اور جو نرمی کے حصے سے محروم رہا وہ بھلائی میں اپنےحصے سے محروم رہا۔ (ترمذی، 3/258، حدیث:2525)

روایت ہے حضرت خالد بن ولید سے فرماتے ہیں کہ میرے اور عمار ابن یاسر کے درمیان کچھ تلخ کلامی ہو گئی تو میں نے گفتگو میں ان پر بہت سختی کی عمار میری شکایت کرنے رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گئے۔ پھر خالد پہنچے فرمایا عمار نبی ﷺ سے شکایت کر رہے تھے تو خالد ان پر بہت سختی کرنے لگے ان کی سختی بڑھتی گئی نبی ﷺ خاموش تھے کچھ کلام نہیں فرماتے تھے جناب عمار رونے لگے بولے یا رسول الله کیا حضور خالد کو دیکھتے نہیں، تو نبی ﷺ نے اپنا سر اٹھایا اور فرمایا جو عمار سے دشمنی کرے خدا اس سے دشمنی کرے اور جو عمار سے بغض رکھے خدا اس سے ناراض ہو، خالد فرماتے ہیں کہ پھر میں نکلا تو مجھے حضرت عمار کی خوشنودی سے زیادہ پیاری کوئی چیز نہ تھی پھر میں نے ان سے ان کی رضا کا برتاؤ کیا تو وہ راضی ہو گئے۔ (مراة المناجيح، 8/509)

رسول الله ﷺ نے فرمایا: مال والے کا ٹال مٹول اس کی آبرو کو اس کی سزا کو درست کر دیتا ہے۔ ابن مبارک نے فرمایا: آبرو حلال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اس سخت کلامی کرے اور سزا یہ ہے کہ اسے قید کر دیا جائے۔ (مراۃ المناجیح، 4/347)

ابن مبارک نے حضور کے دونوں کلمات کی تفسیر یوں فرمائی کہ معنی یہ ہیں کہ اس سے سخت کلامی کرے مثلاً کہے تو ظالم ہے لوگوں کا مال مارنے والا ہے یہ مطلب نہیں کہ اس پرنا جائز الزام لگائے۔

سخت کلامی پر صبر: ایک دفعہ ایک شخص نے حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃ اللہ علیہ سے بہت سخت کلامی کی تو آپ نے کافی دیر تک اپنا سر مبارک جھکائے رکھا پھر اس سے فرمایا: کیا تم یہ چاہتے ہو کہ میں شیطان کے ہاتھوں کمزور ہو کر سلطانی غلبہ کے سبب تمہارے ساتھ ایسا سلوک کروں جس کا کل تم مجھ سے بدلہ لو؟ (احیاء العلوم، 3/205)

ہمیں حضور پاک ﷺ کے اخلاق کے مطابق کلام کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر ہم کسی سے تلخ کلامی سے پیش آئیں تو وہ شخص ہم سے بدظن ہوگا۔ آج کل ہمارے معاشرے میں اس طرح کی گفتگو بہت عام ہوئی ہے ایسی گفتگو کسی کی دل آزاری کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ حضور ﷺ نے تو اسی گفتگو کو عیب قرار دیا ہے اللہ ہمیں اچھے انداز سے گفتگو کرنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین