فی زمانہ اسلامی تعلیمات پر بحیثیت مجموعی عمل
کمزور ہونے کی وجہ سے اخلاقی و معاشرتی برائیاں بہت عام ہوگئی ہیں جو حسن معاشرت
کے بگار کا سبب بن رہی ہیں اور اگر گہری نظر ڈالی جائے تو ایک اہم پہلو تلخ کلامی
بھی ہے گویا کہ لگتا ہے ہر کوئی معاشرے کی تلخ کلامی جیسی نحوست کا شکار ہوتا چلا
جا رہا ہے۔
تلخ کلامی سے چھٹکارا پانے کے لیے اس کے مفہوم پر
غور کریں تو اس سے مراد ایسا کلام جو لوگوں کی ایذا رسانی اور دل آزاری کا سبب
بنتا ہے۔ اس ضمن میں تین روایات پڑھیئے اور اسے اپنی فکر آخرت کے مدنی گلدستے میں
سجائیے۔
1۔ صدر الشریعہ، بدر الطریقہ، حضرت علامہ مولانا
مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت جلد 2 صفحہ 407 پر لکھتے ہیں:
جو شخص مسلمان کو کسی فعل یا قول سے ایذا پہنچائے اگرچہ آنکھ یا ہاتھ کے اشارے سے
وہ مستحق تعزیر ہے۔ (در مختار، 6/106)
2۔ حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ
جب انسان صبح کرتا ہے تو تمام اعضاء زبان سے کہتے ہیں: ہم تجھے خدا کا واسطہ دیتے
ہیں کہ تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہوگئی تو ہم بھی
ٹیڑھے ہوجائیں گے۔ (ترمذی، 4/184، حدیث:2415)
3۔ آپ ﷺ کا فرمان ہے: کوئی شخص اچھی بات بول دیتا
ہے اس کی انتہا نہیں جانتا اس کی وجہ سے اس کے لیے اللہ کی رضا اس دن تک کیلئے
لکھی جاتی ہے جب وہ اسے ملے گا اور ایک
آدمی بری بات بول دیتا ہے جس کی انتہا نہیں جانتا اللہ اس کی وجہ سے اپنی ناراضی
اس دن تک لکھ دیتا ہے جب وہ اس سے ملے گا۔ (مشكاة المصابیح،2/193، حدیث: 2326)
لمحہ فکریہ: تلخ کلامی
اکثر مسلمانوں کی ایذا رسانی کا ذریعہ بنتی ہے اور مسلمانوں کی ایذا رسانی اللہ اور
نبی کریم ﷺ کی نافرمانی کا ذریعہ ہے۔
نقصانات: تلخ کلامی کے
بے شمار نقصانات ہیں۔ جن میں سے چند یہ ہیں: نیکیوں کا زائل ہونا، عداوت، قطع
تعلقی، مبلغ کے ایسے انداز کے سبب لوگوں کی علم دین سے دوری، دل آزاری۔
تلخ کلامی کا علاج: اس
ضمن میں تلخ کلامی کے چار علاج پیش خدمت ہیں: 1- نرم مزاجی کو اپنایا جائے 2-اخروی
آفتوں کو یاد کیا جائے 3- غصے اور چرچڑا پن سے دور رہا جائے 4- اپنے بڑوں کا ادب
اور چھوٹوں سے شفقت کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔
امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: ایسا
بولو کہ لوگ سننا پسند کریں۔
ہے فلاح و کامرانی نرمی و آسانی میں ہر بنا کام بگڑ جاتا ہے نادانی
میں
اللہ پاک ہمیں تلخ کلامی اور دل آزاری والی گفتگو
کرنے سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین ﷺ