کسی انسان کے ساتھ ایسے طریقے سے کلام کرنا کہ
الفاظ بہت سخت ہو اسے تلخ کلامی کہتے ہیں۔ جس طرح اگر جسم پر تیز چھری چلائی جائے
اگرچہ جسم کاٹنے کی غرض سے نہ چلائی ہو مگر جسم کاٹ دیتی ہے اسی طرح تلخ کلامی کی
وجہ سے اگلے کا دل کٹ جاتا ہے۔ تلخ کلامی ہمارے معاشرے کی ایک بہت عام عادت ہے جو
نہ جانے روزانہ کتنے لوگوں کے دل کاٹتی ہے۔ اس ضمن میں چند احادیث مبارکہ ملاحضہ
کیجیے۔
خیر سے محرومی کا باعث: حضرت
جریر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضور نبی کریم ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا:
جو نرمی سے محروم کیا گیا وہ تمام خیر سے محروم کیا گیا۔ (ابو داود، ص 512، حدیث:
1382)
کونسا اسلام افضل ہے: حضرت
ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت
ہے،صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! کون سا اسلام افضل ہے؟ تو ارشاد فرمایا کہ اس
شخص کا اسلام جس کی زبان اور ہاتھ سے تمام مسلمان سلامت رہیں۔ (بخاری، 1/16، حدیث:11)
سچا مسلمان کون ہے: رسول
الله ﷺ نے فرمایا: سچا مسلمان وہ جس کے زبان و ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور سچا
مؤمن وہ جس سے لو گ اپنے خون و مال میں مطمئن رہیں۔ یعنی اس کا برتاؤ ایسا اچھا ہو
کہ لوگوں کو قدرتی طور پر اس کی طرف سے اطمینان ہو کہ یہ نہ ہمارے مال مارے گا، نہ
تکلیف دے گا،یہ اطمینان مسلمین الله کی بڑی نعمت ہے اسی لئے بزرگ فرماتے ہیں کہ
کسی کی قوت ایمانی جانچنے کے لئے اس کے پڑوسیوں اور دوستوں سے پوچھو۔ اس حدیث سے
اشارۃً معلوم ہورہا ہے کہ اسلام اور ایمان میں فرق ہے اسلام کا تعلق ظاہر اعضاء سے
ہے اور ایمان کا قلب سے۔ (مراۃ المناجیح، 1/54)
ہمیں چاہیے کہ ہمارے ہر ہر اعضاء سے ہمارے مسلمان
بھائی محفوظ رہے۔ اللہ پاک ہمیں پیارے آقا ﷺ کے پیارے انداز گفتگو کے صدقے ہماری
زبان بھی اچھی کر دے کہ کسی کو ہماری وجہ سے کوئی ایذا نہ ہو۔