تلخ گوئی، بدزبانی، سخت کلامی، ایسی باتیں یا لہجہ
جس سے کسی کی دل آزاری ہو کسی کا مذاق اڑانا طنز و طعنہ زنی کرنا وغیرہ۔
حکم: مذاق اڑانے کا
شرعی حکم بیان کرتے ہوئے حضرت علامہ عبد المصطفٰی اعظمی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں:
اہانت اور تحقیر کیلئے زبان یا اشارات، یا کسی اور طریقے سے مسلمان کا مذاق اڑانا
حرام و گناہ ہے کیونکہ اس سے ایک مسلمان کی تحقیر اور اس کی ایذاء رسانی ہوتی ہے
اور کسی مسلمان کی تحقیر کرنا اوردکھ دینا سخت حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام
ہے۔ (جہنم کے خطرات، ص173)
مومن کی صفات: فرمان آخری
نبی ﷺ ہے: مومن نہ طعن کرنے والا ہوتا ہے، نہ لعنت کرنے والا، نہ فحش بکنے والا بے
ہودہ ہوتا ہے۔ (ترمذی، 3/393، حدیث: 1987)
کیمیائے سعادت میں حجۃ الاسلام حضرت امام محمد
غزالی رحمۃ اللہ علیہ نقل فرماتے ہیں: کسی شخص نے حضرت امیرالمؤمنین عمربن
عبدالعزیز رضی اللہ عنہ سے سخت کلامی کی۔ آپ نے سرجھکا لیا اور فرمایا: کیا تم یہ
چاہتے ہو کہ مجھے غصّہ آجائے اور شیطان مجھے تکبر اور حکومت کے غرور میں مبتلا کرے
اور میں تم کو ظلم کا نشانہ بناؤں اور بروز قیامت تم مجھ سے اس کا بدلہ لو مجھ سے
یہ ہرگز نہیں ہوگا۔ یہ فرما کر خاموش ہوگئے۔ (کیمیائے سعادت، 2/597)
کسی شخص نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو گالی
دی۔ انہوں نے فرمایا: اگر بروزقیامت میرے گناہوں کاپلّہ بھاری ہے تو جو کچھ تم نے
کہا میں اس سے بھی بدتر ہوں اور اگر میرا وہ پلّہ ہلکا ہے تو مجھے تمہاری گالی کی
کوئی پرواہ نہیں۔ (اتحاف السادۃ المتقین، 9/416)
ہمارے نبی رحمت ﷺ کا انداز مبارک: شہنشاہ
خیر الانام ﷺ نے ایک غلام کو کسی کام کیلئے طلب فرمایا، وہ دیر سے حاضر ہوا توحضور
انور، مدینے کے تاجور ﷺ کے دست منوّر میں مسواک تھی فرمایا:اگر قیامت میں انتقام
نہ لیا جاتا تو میں تجھے اس مسواک سے مارتا۔ (مسند ابو یعلیٰ، 6/90، حدیث: 6892)
دیکھا آپ نے! ہمارے میٹھے میٹھے آقا، شہنشاہ
خیرالانام ﷺ کبھی بھی اپنے نفس کی خاطر انتقام نہیں لیتے تھے اور ایک آج کل کا
مسلمان ہے کہ اگر نوکر کسی کام میں کوتاہی کردے تو گالیوں کی بوچھاڑ بلکہ مار دھاڑ
پر اتر آتا ہے۔
بد گوئی طریقہ کفار ہے، وَ
قَالُوْا یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْ نُزِّلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ اِنَّكَ
لَمَجْنُوْنٌؕ(۶)ترجمہ کنز العرفان: اے وہ شخص جس پر قرآن نازل کیا
گیا ہے! بے شک تم مجنون ہو جواب باری تعالیٰ: مَاۤ
اَنْتَ بِنِعْمَةِ رَبِّكَ بِمَجْنُوْنٍۚ(۲) (پ 29،
القلم: 2) ترجمہ کنز الایمان: تم اپنے رب کے فضل سے مجنون نہیں۔
تفسیر صراط الجنان میں ہے: کفار نے نبی اکرم ﷺ کی
شان میں (گستاخی کرتے ہوئے) آپ کو مجنون کہاتو اللہ تعالیٰ نے قسم ارشاد فرما کر
ان کی بد گوئی کا رد کرتے ہوئے اپنے حبیب ﷺ سے ارشاد فرمایا: اے پیارے حبیب! قلم
اور ان کے لکھے کی قسم! آپ مجنون نہیں ہیں کیونکہ آپ پر آپ کے رب تعالیٰ کا فضل ہے
اور اس کا لطف و کرم آپ کے شامل حال ہے، اس نے آپ پر انعام و احسان فرمائے، نبوت
اور حکمت عطا کی، مکمل فصاحت، کامل عقل، پاکیزہ خصائل اور پسندیدہ اخلاق عطا کئے،
مخلوق کے لئے جس قدر کمالات ہونا ممکن ہیں وہ سب علیٰ وجہ الکمال عطا فرمائے اور
ہر عیب سے آپ کی بلند صفات ذات کو پاک رکھا اوران چیزوں کے ہوتے ہوئے آپ مجنون
کیسے ہو سکتے ہیں۔ (تفسیر خازن، 4/293)
یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ قرآن پاک میں بکثرت
مقامات پر انبیاء کرام علیہم السّلام سے کفار کی جاہلانہ گفتگو کا ذکر ہے جس کے
مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ بدبخت طرح طرح سے انبیاء کرام کی بارگاہ میں سخت
کلامی اوربیہودہ گوئی کرتے اور وہ مقدّس حضرات اپنے عظیم حلم اور فضل کے لائق
انہیں جواب دیتے، لیکن حضور سیّد المرسلین ﷺ کی خدمت والا میں کفار نے جو زبان
درازی کی ہے اس کا جواب زمین و آسمان کی سلطنت کے مالک رب تعالیٰ نے خود دیا ہے
اور محبوب اکرم، مطلوب اعظم ﷺ کی طرف سے خوددفاع فرمایا ہے اورطرح طرح سے حضور پر
نور ﷺ کی (کفار کے الزامات سے) پاکی اور براء ت ارشاد فرمائی ہے اور بکثرت مقامات
پر دشمنوں کے الزامات دور کرنے پر قسم یاد فرمائی، یہاں تک کہ غنی اور غنی کرنے
والے رب تعالیٰ نے ہر جواب سے حضور اقدس ﷺ کو بے نیاز کر دیا،اور اللہ تعالیٰ کا
جواب دینا حضور انور ﷺ کے خود جواب دینے سے بدرجہا حضور پر نور ﷺ کے لیے بہتر
ہوااور یہ وہ مرتبۂ عظمیٰ ہے جس کی کوئی انتہاء نہیں۔ (فتاوی
رضویہ، 30/ 162تا 164ملخصاً)
اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں:
ملک خاص کبریا ہو مالک ہر ما سوا ہو
کوئی کیا جانے کہ کیا ہو عقل عالم سے ورا ہو
فرمان امام غزالی ہے: اگر تم اس بات پر قادر ہو کہ
جس پر نبی کریم ﷺ اور صحابہ ٔکرام قادر تھے کہ مزاح (یعنی خوش طبعی) کرتے وقت صرف
حق بات کہو،کسی کے دل کو اذیّت نہ پہنچاؤ،حد سے نہ بڑھو اور کبھی کبھی مزاح کرو تو
تمہارے لئے بھی کوئی حرج نہیں لیکن مزاح کو پیشہ بنا لینا بہت بڑی غلطی ہے۔ (احیاء
علوم الدین، 3/159)
اللہ کا محبوب بننے کا نسخہ: ارشاد
باری تعالیٰ ہے: وَ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ لَا
تُشْرِكُوْا بِهٖ شَیْــٴًـا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی
الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْجَارِ
الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِۙ-وَ مَا مَلَكَتْ
اَیْمَانُكُمْؕ-اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَاۙﰳ (۳۶) (پ5،
النساء: 36) ترجمہ: اور اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ
اور ماں باپ سے اچھا سلوک کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور قریب کے
پڑوسی اور دور کے پڑوسی اور پاس بیٹھنے والے ساتھی اور مسافر اور اپنے غلام
لونڈیوں (کے ساتھ اچھا سلوک کرو) بیشک
اللہ ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو متکبر، فخر کرنے والا ہو۔
موضوع آیت: اس آیت کریمہ
میں اللہ تعالیٰ اور بندوں دونوں کے حقوق کی تعلیم دی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا
بندوں پر حق یہ ہے کہ صرف اسی کی عبادت کی جائے اور عبادت کے جملہ طریقے اسی کےلئے
خاص کردئیے جائیں یعنی جانی، مالی، زبانی، قلبی، ظاہری، باطنی ہر طرح کی عبادت اسی
پاک پروردگار کےلئے خاص ہو اور کسی قسم کی عبادت میں اصلاً اس کے ساتھ کسی کو شریک
نہ کیا جائے۔
اور بندوں کے حقوق میں بنیادی اصول دوسروں کو تکلیف
سے بچانا اور سہولت و راحت پہنچانا ہے۔ اپنی زبان اور ہاتھ سے کسی کو تکلیف نہ
پہنچائیں، بدکلامی اور بدگمانی سے بچیں، کسی کا عیب نہ بیان کریں، کسی پر الزام
تراشی نہ کریں، تلخ کلامی سے بچیں، نرمی سے گفتگو کریں، مسکراہٹیں بکھیریں، جو
اپنے لئے پسند کریں وہی دوسروں کےلئے پسند کریں، دوسروں کو اپنے شر سے بچائیں اور
ان کے لئے باعث خیر بنیں۔
ہمارےرسول اللہ ﷺ نےتو مسلمانوں کو ایک جسم
فرمایاہے جس کے ایک حصے میں ہونے والی تکلیف کوپوراجسم محسوس کرسکے۔ آپ نے کبھی
سوچا کہ امت مسلمہ کےاس جسد واحد کو تلخ کلامی کسی کی دل آزاری کی عادت کس کس طرح
نقصان پہنچاتی ہے، تلخ کلامی مسلمانوں کا کلچر نہیں مسلمانوں کے کلچر میں تو ایک
دوسرے کوبرے نام سے پکارنے یانام بگاڑنے کی بھی گنجائش نہیں، مسلمانوں کے کلچر میں
لہجےکوشہد سے زیادہ میٹھا اورالفاظ کو روئی سے زیادہ نرم رکھنا شامل ہے۔اسلام
کےعطاکردہ آرٹ آف کمیونیکیشن پر عبور حاصل کرنے والوں کےذریعےہی دین دنیا بھر میں
پہنچا اور دلوں کو فتح کیا۔ اللہ پاک کے نیک بندوں کے حالات زندگی ہمیں یہ بتاتے
ہیں کہ یہ حضرات زبان سےعزتیں ذبح نہیں کرتے تھے بلکہ زبان سے عزتوں کوزندگی
اورعزم و حوصلے کو توانائی فراہم کیا کرتے اور اپنےعمل سےیہ ثابت کرتے کہ تعلیمات
نبوی پرعمل کرکے یوں دلوں پر حکومت کی جاتی ہے۔
اللہ کریم نے حضور رحمت عالم ﷺ کے ذریعے ہمیں
اصول زندگی (Rules of life) عطا
فرمائے ہیں جن پر عمل کرکےجینے کاسلیقہ بھی آجاتا ہے اورزندگی دشوار بنانے والے
کاموں سے نجات کا راستہ بھی مل جاتا ہے۔ انتخاب کا اختیار ہمارے پاس ہے کہ خواہشات
کے پیچھے چل پڑتے ہیں یا اسلام کے عطا کردہ اصول زندگی اپناتے ہیں۔
آئیے! اپنا اختیار استعمال کریں اور اسلام کے عطا
کردہ اصول زندگی اپنالیں تاکہ دین ودنیا کی کامیابیاں حاصل کرسکیں۔