خوش کلامی ایک مستحسن عمل ہے، اسلام میں اس کی
تاکید کی گئی ہےجب ہم بازار خریداری کے لئے نکلتے ہیں تو ہمیں اپنی مطلوبہ چیز کی
بہت ساری دکانیں نظر آتی ہیں لیکن ہم اس دکان میں جاتے ہیں جس دکاندار کا برتائو
اور بطور خاص بات چیت ہمیں اچھی لگتی ہے؛ اس کا مطلب یہ ہے کہ اس دکاندار نے اپنی
مہذب باتوں اور خوش اخلاقی سے ہمارا دل جیت لیا ہے۔اس کے بالمقابل ہم میں سے اکثر
لوگ اس دکان پر جانا پسند نہیں کرتے ہیں جہاں انہیں غیر مہذب،سخت اور ترش کلامی کا
سامنا ہو۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ دکاندار کی خوش کلامی سے صرف خریدار کا دل خوش
نہیں ہوتا بلکہ دکاندار کی تجارت بھی ترقی پاتی ہے اورخاص بات یہ ہے کہ اس کے لئے
تاجر کو پیسے بھی خرچ نہیں کرنے پڑتے،یہی وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پر ایم بی اے
جیسے کورسوں میں آداب گفتگو انتہائی اہمیت کے ساتھ سکھائے جاتے ہیں۔
خوش کلامی صرف مذکورہ ایک وجہ سے نہیں بلکہ متعدد
وجوہات سے اسلام میں ایک مستحسن عمل ہے، اسی بنیاد پر قرآن و حدیث میں اس کی تاکید
آئی ہے۔ دوستوں اور پیاروں سے پیار بھرے انداز میں سبھی بات کرتے ہیں لیکن اسلام
نے اجنبیوں اور دشمنوں سے بھی نرم گفتگو کی تاکید کی ہے۔اس کی بہترین مثال قرآن
مجید میں موجود ہے کہ جب حضرت موسیٰ و ہارون علیہما السلام کو اللہ تبارک و تعالیٰ
نے وقت کے ظالم ترین شخص اور دشمنِ اہلِ ایمان فرعون کے پاس جانے کا حکم دیا تو
انہیں یہ تاکید کی کہ اس سے نرم گفتگو کریں۔ چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد باری
تعالیٰ ہے: اِذْهَبَاۤ اِلٰى فِرْعَوْنَ اِنَّهٗ طَغٰىۚۖ(۴۳) فَقُوْلَا لَهٗ
قَوْلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّهٗ یَتَذَكَّرُ اَوْ یَخْشٰى(۴۴) (پ
16، طہٰ: 43-44) ترجمہ: فرعون کے پاس جاؤ، بے شک وہ
سرکش ہوگیا ہے، سو اس سے نرمی سے بات کرو شاید وہ نصیحت حاصل کرے یا ڈر جائے۔ توجہ
فرمائیں کہ قرآن پاک کی اس تعلیم میں کسی صاحب ایمان سے نہیں بلکہ ایک بے ایمان
اور دین کے باغی شخص سے خوش کلامی کی تاکید کی گئی ہے؛اس سے جہاں اوروں کے ساتھ
ہماری بات چیت کا معیار مقرر ہوتا ہے وہیں اس ضمن میں بدرجہ اولیٰ دینی بھائیوں سے
حسن کلام کی ترغیب بھی ملتی ہے۔
دوسروں کو
خوش کرنے کو اسلام میں عبادت کا درجہ حاصل ہے۔ایک حدیث پاک میں نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے:یقینا
فرائض کو ادا کرنے کے بعد، اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کسی مسلمان
کو خوش کرنا ہے۔ (معجم کبیر، 11/59، حدیث: 11079) یہ کوئی مشکل کام نہیں ہے کیونکہ
لوگوں کو خوش کرنے کا سب سے آسان طریقہ خوش مزاجی کے ساتھ ان سے گفتگو ہے۔عملاً ہم
سب اس بات سے واقف ہیں کہ جس طرح کوئی ایک زہریلا لفظ کسی کا دن بگاڑنے کے لئے
کافی ہے، اسی طرح پیار بھرا ایک لفظ کسی کا دن سنوارنے کے لئے بھی کافی ہے۔
لہٰذاہم اس بات کو یقینی بنائیں کہ ہمارے الفاظ تخریب کے بجائے تعمیر کے لئے
استعمال ہوں۔ ہماری بات چیت کس طرح تعمیر و تخریب کا سبب بن سکتی ہے، اس کا اندازہ
ہمیں ایک مشہور واقعہ سے ہوتا ہے:
واقعہ یہ ہے کہ کسی زمانے میں ایک بادشاہ تھا، اس
نے یہ خواب دیکھا کہ اس کے سارے دانت ٹوٹ گئے ہیں،چنانچہ اس نے صبح کو ایک تعبیر
بتانے والے کو بلوایا اور اس سے خواب کی تعبیر معلوم کی، اس نے بتلایا کہ اس خواب
کی تعبیر یہ ہے کہ آپ کے سامنے آپ کے اہل خانہ اور اولادیں وفات پا جائیں گی،یہ سن
کر بادشاہ بہت خفا ہوا اور اس معبر کا سر قلم کرنے کا حکم صادر کردیا۔ اس کے بعد
بادشاہ نے ایک دوسرے تعبیر بتلانے والے کو بلوایااور اس کے سامنے خواب کو بیان
کیا، معبر نے بتلایا کہ بادشاہ سلامت! اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ لمبی عمر پائیں گے
حتیٰ کہ آپ کے اہل خانہ سے بھی زیادہ آپ کی عمر ہوگی۔ یہ سن کر بادشاہ بہت خوش ہوا
اور معبر کو انعام و اکرام کے ساتھ رخصت کیا۔ غور فرمائیں کہ دونوں تعبیروں کا
مطلب ایک ہی بتایا گیا ہے لیکن کہنے کے انداز اور اسلوب نے کس قدر فرق پیدا کردیا۔
خوش کلامی اور مہذب گفتگو کے فوائد معلوم ہوجانے کے
بعد ہمارے لئے یہ ضروی ہے کہ ہم ذیل کی باتوں کو بھی اپنے ذہن میں رکھیں کہ لوگوں
کو اچھی بات چیت سے یا کسی دوسرے طریقے سے خوش کرتے وقت ہم دین کی سرحدوں کو ہر گز
پار نہ کریں یعنی اللہ پاک کو ناراض کرکے بندوں کو خوش نہ کریں کیونکہ بندوں کو
خوش کرنے کا مقصد اللہ تعالیٰ کوخوش کرنا ہے نہ کہ ناراض کرنا۔ لہٰذا کوئی قریبی
شخص اپنی خوشی کے لئے ہم سے اگر یہ کہتا ہے کہ تم جھوٹ بول دو یا غلط بیان دے دو
تو ہم محض اپنے پیارے کی خوشی کے لئے ہر گز ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ اس صورت میں
اللہ کی خوشی سے ہم محروم ہوجائیں گے۔ اسی طرح اسلام نے ہمیں خوش کلامی کی ترغیب
دی ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ ہم غیر محرموں سے لچھے دار باتیں کر کے
اپنی عاقبت ہی خراب کرلیں۔
چونکہ ہم سب کی منزل آخرت ہے اس وجہ سے ہمیں خوش
کلامی اور بد کلامی کو آخرت کے نتائج کے آئینے میں ضرور دیکھنا چاہئے۔ اس حوالے سے
ذیل کی حدیث ہماری آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونی چاہئے:
حضرت ابو ہر یرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ
ایک شخص نے عرض کیا: یا رسو ل اللہ ﷺ! فلانی عورت کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ
کثرت سے نماز، روزہ اور صدقہ خیرات کرنے والی ہے (لیکن) اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان
سے تکلیف دیتی ہے (یعنی برا بھلا کہتی ہے)۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فر مایا: وہ دوزخ
میں ہے۔ پھر اس شخص نے عرض کیا یا رسو ل اللہﷺ! فلانی عورت کے بارے میں یہ مشہور
ہے کہ وہ نفلی روزہ، صدقہ خیرات اور نماز تو کم کرتی ہے بلکہ اس کا صدقہ وخیرات
پنیر کے چند ٹکڑوں سے آگے نہیں بڑھتا لیکن اپنے پڑوسیوں کو اپنی زبان سے کو ئی
تکلیف نہیں دیتی۔ رسول اللہ نے ارشاد فرمایا: وہ جنت میں ہے۔(شعب الایمان، 7/78،
حدیث: 9545)