دینی امور میں غفلت سے مراد وہ بھول ہے جو انسان پر بیدار مغزی اور احتیاط کی کمی کے باعث طاری ہوتی ہے۔ (1)

علم دین کی اہمیت و فضیلت مسلم ہے قرآن و حدیث کے صفحات علم دین کی فضیلت سے بھرے پڑے ہیں لیکن ان فضائل کے باوجود بھی آج معاشرہ علم دین سے کوسوں دور ہوتا جا رہا ہے۔ اور دن بہ دن علم دین سے دوری میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اس پر جتنا افسوس کیا جائے کم ہے کہ مسلمان گھرانے میں پیدا ہونے والا بچہ صحیح کلمہ پڑھنا نہیں جانتا، طہارت اور نماز کے ضروری مسائل سے ناواقف ہوتا ہے، اسلام کی بنیادی عقائد اور وہ ضروریات دین جن پر ایمان کا دارومدار ہے اس کا بھی علم نہیں رکھتا۔

دین سے دوری کی کئی وجوہات ہیں یہاں پر چند بیان کی جاتی ہیں:

1۔ دنیاوی علم حاصل کرنے میں رغبت رکھنا مسلم معاشرہ آج دینی تعلیم کو حاصل کرنے میں دلچسپی کی بجائے سارا زور صرف اور صرف عصری علوم کو حاصل کرنے پر لگا رہا ہے۔ اعلی نوکری اور عمدہ جاب کے چکر میں دین و شریعت کی پاسداری کا لحاظ بھی بھلا بیٹھا ہے۔ بے شک دنیاوی تعلیم کا حصول شریعت میں منع نہیں ہے لیکن شریعت کو پس پشت ڈال کر دینی تعلیم سے یکسر غافل ہو کر زندگی گزارنا دنیا میں بھی نقصان دہ ہے اور آخرت میں بھی نقصان دہ ہے۔

اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں: دین کے ضروری علوم سے غافل ہو کر دنیاوی علوم میں مشغول ہونا حرام ہے۔ (2)

2۔ ہر وقت مال جمع کرتے رہنے کا مذموم جذبہ بھی علم حاصل کرنے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے۔ (3) انسان ہمیشہ حریص ہی رہتا ہے وہ چاہتا ہے کہ اس کے پاس کثرت مال و دولت ہو اور اس میں وہ یہ بھی پرواہ نہیں کرتا کہ وہ مال حلال طریقے سے حاصل کرتا ہے یا حرام طریقے سے۔

3۔ بعض لوگوں کو پتہ ہی نہیں ہوتا کہ کن کن چیزوں کا علم سیکھنا فرض ہے بنیادی عقائد کے مسائل سے لاعلمی اور نماز اور روزے کے درست مسائل کا علم ہی نہیں ہوتا۔

امیر اہل سنت اپنی کتاب میں ایک جگہ فرماتے ہیں: حسب حال (یعنی اپنی موجودہ حالت کے مطابق) فرض علوم نہ جاننا گناہ اور نہ جاننے کے سبب گناہ کر گزرنا گناہ در گناہ و حرام و جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ (4)

رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ والہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس شخص کے لیے ہلاکت ہے جو علم حاصل نہ کرے اور اس کے لیے بھی ہلاکت ہے جو علم حاصل کرے پھر اس پر عمل نہ کرے۔ (5)

4۔ شیطان جس قدر دشمنی علم سے رکھتا ہے اور کسی چیز سے نہیں رکھتا اور سب سے زیادہ وسوسے بھی علم سے روکنے کے لیے دل میں ڈالتا ہے۔ (6)

اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: اے وہ لوگو جو ایمان لائے! داخل ہو جاؤ اسلام میں پورے پورے اور نہ پیروی کرو شیطان کے قدموں (یعنی راستوں) کی بے شک وہ تمہارے لیے کھلا دشمن ہے۔ (7) اس کی تفسیر میں قرطبی میں ہے: اس راستے پر نہ چلو جس کی طرف تمہیں شیطان بلا رہا ہے۔ (8)

اور حضرت قتادہ فرماتے ہیں: ہر گناہ خطوت شیطان میں سے ہے۔ (9)

شیطان کو انسان کا دشمن قرار دیا گیا ہے ہمیں چاہیے کہ ہم اسے دشمن ہی سمجھیں۔

امیر اہل سنت فرماتے ہیں کہ منجیات اور مہلکات منجیات یعنی نجات دلانے والے اعمال مہلکات یعنی ہلاکت میں ڈالنے والے اعمال کا علم سیکھیں گے تو شیطان کا بھرپور مقابلہ ہو سکے گا۔ (10)

5۔ انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کا غیر ضروری استعمال اور بد مذہبوں کا اس بارے میں کردار

علم سیکھنے سے دور کرنے میں ان چیزوں کا بھی بڑا کردار ہے کہ لوگ ان چیزوں کے غیر ضروری اور حد سے زیادہ استعمال میں پڑ کر اپنا اپنا قیمتی وقت فضولیات کی نظر کر رہے ہیں اور لوگ انٹرنیٹ وغیرہ سے علم دین حاصل کر رہے ہیں حالانکہ انہیں یہ بھی علم نہیں کہ وہ صحیح سنی العقیدہ ہیں بھی یا نہیں بدمذہبوں سے ہرگز علم دین حاصل نہ کیا جائے اور ان سے دور رہنا چاہیے۔ امام محمد بن سیرین نے فرمایا: یہ علم تمہارا دین ہے تو تم غور کر لو کہ اپنا دین کس سے حاصل کر رہے ہو۔ (11) لہذا ان بدمذہب سکالرز وغیرہ سے دور ہی رہنا چاہیے۔

اللہ پاک ہمیں علم دین کی صحیح قدر دانی کی توفیق عطا فرمائے اور مادیت کے اس خطرناک دور میں علم دین کی شمع کو ہر تاریک گھر میں پہنچائے اور گھر گھر کو علم دین سے منور فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

حوالہ جات :

1۔باطنی بیماریوں کی معلومات، ص 179

2۔فتاوی رضویہ 648/23ملخصا

3۔ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 25

4۔نیکی کی دعوت، ص 137

5۔ظاہری گناہوں کی معلومات، ص 25

6۔ فیضان علم و علماء، ص 23 بتغیر قلیل

7۔پ 2، البقرۃ: 208۔ تفسیر قرطبی، 3/395

8۔ اے ایمان والو، ص 110

9۔تفسیر ابن ابی حاتم، 8/2552

10۔امیر اہل سنت کی نصیحتیں، ص 55

11۔مسلم، ص 11