دین سے دوری کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، اور یہ مختلف افراد کے لیے مختلف ہوتی ہیں۔ چند عام وجوہات درج ذیل ہیں:

1۔ صحبت: صحبت انسان پر بہت گہرا اثر رکھتی ہے اگر انسان دین دار یعنی علماء کرام کی صحبت میں رہے تو دین دار بنے گے اور اگر بری صحبت میں رہے تو دین سے دور ہو جائے گا۔

2۔ ثقافتی اثرات: مغربی ثقافت اور میڈیا کا اثر بہت سے معاشروں پر ہے جس کی وجہ سے بعض لوگ اپنے مذہبی اقدار سے دور ہو جاتے ہیں اور مغربی طرز زندگی کو اپنانے لگتے ہیں۔ اس پر اقبال فرماتے ہیں کہ

یورپ کی غلامی پر رضا مند ہوا تو مجھ کو تو گلہ تجھ سے ہے یورپ سے نہیں

3۔ معاشرتی دباؤ: بعض اوقات سماج میں کچھ خاص گروہوں کی جانب سے دینی تعلیمات پر عمل کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس کی وجہ سے لوگ دین سے دوری اختیار کرتے ہیں۔

4۔ ذاتی تجربات: بعض افراد اپنی زندگی میں دینی شخصیات یا مذہبی اداروں کے ساتھ منفی تجربات کی وجہ سے دین سے دور ہو جاتے ہیں۔

5۔ مذہبی تعلیم کی کمی: دین کی صحیح اور مکمل تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے لوگ دین کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہوجاتے ہیں اور دین سے دوری اختیار کر لیتے ہیں۔

6۔ مادی ترقی اور لذت پسندی: موجودہ دور میں مادی ترقی اور اپنی ذاتی لذتوں میں مگن ہو جاتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دنیاوی لذتوں میں مشغول ہوکر دین اور آخرت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔

7۔ سوالات اور شکوک: بعض افراد کے ذہن میں مذہب سے متعلق مختلف سوالات اور شکوک پیدا ہوتے ہیں، اور اگر انہیں تسلی بخش جوابات نہ ملیں تو وہ دین سے دور ہو جاتے ہیں۔

8: اصل مقصد کا بھولنا:علامہ اقبال کے مطابق مسلمان نے دین کی روح اور اصل مقصد کو بھلا کر رسم و رواج اور روایات کو زیادہ اہمیت دے دی ہے۔ جس کی وجہ سے وہ دین سے دور اور دنیا کے قریب ہوتے جارہے ہیں اس تناظر میں اقبال کا مشہور شعر ہے:

حقیقت خرافات میں کھوگئی یہ امت روایات میں کھو گئی

یہ شعر اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمانوں نے دین کے ظاہری اعمال اور رسم و رواج کو اپنا لیا ہے، لیکن دین کی اصل روح اور اس کا مقصد فراموش کر دیا ہے۔

یہ وجوہات مختلف افراد کی سوچ، معاشرتی حالات اور ذاتی تجربات کے مطابق مختلف ہو سکتی ہیں۔ دین سے قربت یا دوری کا تعلق اکثر افراد کے ذاتی اور سماجی عوامل سے ہوتا ہے۔

دین سے دوری کا حل انسان کی زندگی میں روحانی، اخلاقی اور معاشرتی پہلوؤں کو بہتر بنانے کے لیے ضروری ہے۔ یہاں چند اقدامات ہیں جو دین سے دوبارہ تعلق قائم کرنے میں مدد کر سکتے ہیں:

1۔ نماز کی پابندی: نماز دین کا ستون ہے اور اللہ سے قربت کا بہترین ذریعہ ہے۔ باقاعدگی سے نماز ادا کرنے سے انسان کا دل نرم ہوتا ہے اور اللہ کی یاد تازہ رہتی ہے۔

2۔ قرآن پاک کی تلاوت اور سمجھنا: قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھنا اور اس کے احکامات پر غور کرنا دل کی پاکیزگی کا سبب بنتا ہے اور دین سے وابستگی کو مضبوط کرتا ہے۔

3۔ نیک صحبت اختیار کرنا: اچھے دوست اور ساتھی جو دین کے راستے پر چلنے والے ہوں، انسان کی سوچ اور اعمال پر مثبت اثر ڈالتے ہیں۔

4۔ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا: زندگی کے ہر شعبے میں اسلامی احکامات اور سنت نبوی ﷺ کو اپنانا دین سے مضبوط تعلق قائم کرنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔

5۔ ذکر و اذکار: دن بھر میں اللہ کا ذکر، دعائیں اور توبہ انسان کو روحانی طور پر قریب لاتی ہے۔

6۔ علم دین حاصل کرنا: دینی کتب پڑھنا، علماء سے رہنمائی لینا، اور دین کی گہری سمجھ حاصل کرنا ایمان کو مضبوط کرتا ہے۔

7۔ توبہ اور استغفار: گناہوں سے بچنے اور اللہ سے معافی مانگنے کی عادت ڈالنا دین کی طرف پلٹنے کا بہترین ذریعہ ہے۔

یہ اقدامات انسان کو دین کی طرف راغب کرتے ہیں اور دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی کا راستہ دکھاتے ہیں۔

میری تحریر کا خلاصہ کلام یہ ہے کہ دین علم کے گہرے سمندر کی طرح ہے کہ اس پر مسلسل تیرنے کے لیے بھی رہنمائی کی ضرورت ہے اگر کوئی رہنما نہ ہو گا تو سمندر کی تیز لہریں آپ کو بہا دے گی اور اگر آپ اس میں فائدہ حاصل کرنے کے لیے ڈوبنا چاہیے تو بھی رہنمائی کے بغیر مکمل ڈوب نہیں سکتے کہ راستے میں سمندری جانوروں سے بھی واسطہ پڑے گا اور ان سے بچنے کے لیے بھی رہنما کی ضرورت ہو گی اس لیے ایک اچھی صحبت اور کامل پیر کا ہونا ضروری ہے جو آپ کو سمندر کی تہہ میں موجود ہیرے تک پہنچنے کے لیے مدد فراہم کرے۔

ہمارا معاشرہ تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے اسکی وجہ دین سے دوری ہے۔اگر ہم دین کے احکامات کو سمجھ کر اس پر عمل پیرا ہو جائیں تو ایک بہترین معاشرے تشکیل پائے گا مگر افسوس ایک تعداد کو اس بات کا احساس تک ہی نہیں ہوتا کہ وہ دین سے دور ہیں دین دشمن دین کو مشکل کہتے ہیں حالانکہ دین بہت آسان ہے۔ اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: لَاۤ اِكْرَاهَ فِی الدِّیْنِ ﳜ قَدْ تَّبَیَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَیِّۚ- (پ 3، البقرۃ: 256) ترجمہ کنز العرفان: دین میں کوئی زبردستی نہیں، بیشک ہدایت کی راہ گمراہی سے خوب جدا ہوگئی ہے۔

دین سے دوری کے اسباب میں سے چند اسباب:

شیطان کی پیروی: شیطان کے وسوسوں میں آجانا نیکی کی راہ سے رک جانا، شیطانی وساوس پر عمل کرنا دین سے دوری کا بہت بڑا سبب ہے مثلاً کوئی عالم دین بننے کیلیے جامعہ میں داخل ہوگیا شیطان کا اسکو وسوسے ڈالنا کہ یہ بنو گے تو تنخواہ بہت کم ہوگی وغیرہ لہذا کچھ اور بنو اور اس بندے کا شیطان کے مکر میں آجانا۔ اللہ پاک فرماتا ہے: وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-اِنَّهٗ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ(۲۰۸) (پ 2، البقرۃ: 208) ترجمہ کنز الایمان: اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو بیشک وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

دین بیزار لوگوں کی بیٹھک: ایسے لوگ جو دین سے خود بھی بہت دور ہوتے ہیں اور دوسروں کو کرنے کی کوشش کرتے ہیں انکی پیروی کرنا بھی انسان کو تباہی کے گھڑے میں دھکیل دیتا ہے۔

نفس کی مکاریوں سے بے خبری: نفس نے جو کہااس پر عمل کرنا اسکو مثال سے سمجھیئے کسی کی نیت بنے کہ میں نے اجتماع میں شرکت کرنی ہے اور نفس کا اسکو یہ کہنا کہ آرام کرلو اتنی دیر بیٹھو گے نہ جاؤ اور وہ انسان نفس کی بات مان کر آرام کرنے لگ جائے اور اجتماع میں نہ جائے۔ اللہ پاک فرماتا ہے: وَ لَا تَتَّبِـعِ الْهَوٰى فَیُضِلَّكَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-(پ 23، ص:26) ترجمہ: نفس کی خواہش کے پیچھے نہ چلنا ورنہ وہ تجھے اللہ کی راہ سے بہکادے گی۔

جہالت: صرف اپنی دنیا سنوارنے میں ہی لگے رہنا علم دین حاصل نا کرنا انسان کی تباہی کا باعث بنتا ہے اور وہ دین سے اس قدر دور ہوجاتا ہے کہ اسکو عقائد تک کا علم نہیں ہوتا کہ مجھے اللہ پاک کے بارے یا آقا ﷺ کے بارے کیا عقیدہ رکھنا ہے ہمارا دین ہمیں کس بات کا حکم دیتا کس سے منع کرتاہے۔

غیر ضروری کاموں میں بے جا مصروفیات: ایسے کاموں میں مصروف رہنا کہ جو بے فائدہ ہو انسان کے نقصان کا باعث بنتے ہو اور وہ دین سے دور ہوتا چلا جاتا ہے مثلاً سوشل میڈیا کا ایسا استعمال جس کا دینی فایدہ نہ ہو بلکہ دین کا نقصان ہو۔

بے دینوں کی کتابیں پڑھنا: انہوں نے اس میں جو بھی لکھا ہے اس کو درست سمجھنا اسی پر عمل کرنا۔

صرف دنیا کمانے کی ہی دھن: جیسے کسی کا کاروبار ہو اور وہ بس اسی سوچ میں مصروف رہے کہ میں مزید سے مزید ترقی کرجاؤں اپنا تقریبا سارا دن اسی پر صرف کردے کہ میں فلاں سے آگے بڑھ جاؤں اسکو نیچے کردوں دنیا کو ہی سب کچھ سمجھ لے تو بھی دین سے دور ہوجاتا ہے۔

صرف دنیوی علوم ہی حاصل کرنا: جو انسان صرف دنیا کی تعلیم حاصل کرنے میں لگ جاتا ہے اس کے لیے تو دن رات ایک کر دیتا ہے اور جب دین کی بات آتی ہے تو وقت نہ ہونے کا بہانا بناتا ہے تو وہ صرف دنیا کا ہی ہوکر رہ جاتا ہے۔

دین کے قریب کیسے ہوا جائے؟ اسکا بہت ہی آسان ذریعہ دعوت اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہوجانا بھی ہے۔ دعوت اسلامی کے مشکبار دینی ماحول سے وابستہ ہو جائیے ان شاءاللہ الکریم دین سے ایسی محبت نصیب ہوگی کہ آپ نہ صرف خود دینی ماحول والے ہو جائیں گے بلکہ دیگر کو بھی دین کی طرف لانے والے بن جائیں گے۔

اسلامی بہنو! ابھی وقت ہے آجائیے دین کی طرف اس سے پہلے کہ اس دنیا فانی سے کوچ کا وقت آ جائے اس وقت یہ سوچنا کہ کاش دین کی طرف آجاتی یہ سوچ اس وقت فائدہ نہ دے گی ہمیں ابھی سے کوشش کرنی ہے خود کو شریعت مطہرہ کی پابند بنانا ہے۔

اللہ پاک ہمیں دین اسلام پر استقامت عطا فرمائے۔ آمین

آج عالم اسلام کی یہ حالت ہے کہ  چاروں طرف سے کفار کی سازشوں میں جکڑا ہوا ہے،تمام اہل اسلام پر بے حسی کی ایک گھٹا چھائی ہوئی ہے۔کفارنے مسلمانوں کو ان کے مذہب و عقیدے سے بیزار کرنے کے لیے جتنے حربے استعمال کیے مسلمان بے خبر فاختہ کی طرح ان حربوں میں جکڑتے چلے گئے۔دین سے دوری کا یہ عالم ہے کہ آج ہم ابتدائی دینی تعلیمات سے بھی کورے ہوگئے ہیں۔

آج ایک مسلمان اپنی ناواقفیت کےسبب اپنے گھر میں پیدا ہونے والے بچے کے کان میں اذان دینے سے بھی عاجز ہے،کیونکہ اس بیچارے نے کبھی مؤذن کی صدا پر کان دھرنے کو مناسب ہی نہیں سمجھا۔آج ہمارے نوجوانوں کو فلمی اداکاروں کے نام اور ان کا بایو ڈیٹا تو ازبر ہے مگراپنے پیارے نبی ﷺکے سب سے پہلے جانشین کا نام تک معلوم نہیں!کیونکہ پیدائش کے وقت ان کے والدین نے انہیں اسلام کا اعزاز دینے کے لیے رسمی طور پران کے کانوںمیں اذان کے چند کلمات تو کہلوادیے تھے،لیکن اس کے بعد بچپن سے لڑکپن اور پھر لڑکپن سے جوانی تک ان کے کانوں نے ٹی وی و موبائل کی آواز کے علاوہ کوئی آواز سنی ہی نہیں۔ پھر جوانی سے فکر معاش میں سرگرداں اس نوجوان کو دین کا علم حاصل کرنے کے کے لیے فرصت ہی کہاں! بڑھاپے میں ریٹائرمنٹ کے بعد اگر فضل الٰہی سے اس مسلمان کو دین کی رغبت ہو بھی گئی تو اب زبان اپنے قابو میں نہ رہی کہ کلمہ طیبہ کے الفاظ تک صحیح طور پر زبان سے ادا نہیں ہو پاتے! حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں تو خوب اللہ پاک کا کروڑ ہا احسان مند رہنا چاہیے کہ اس نے ہمیں دین اسلام کی نعمت سے نوازا ہے۔دین اسلام جو تمام ادیان میں اعلیٰ وارفع اور اصل دین ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ-(پ 6، المائدۃ: 3) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔

دین اسلام ہی اصل کامیابی ہے آخرت کی ابدی نعمتوں اور کامیابی دین اسلام سے مشروط ہے۔ دین اسلام سے دوری کے اسباب کو جانناہی اپنی کوتاہیوں غفلتوں کا اعتراف ہے۔

دین سے دوری کے چند اسباب کا جائزہ لیتے ہیں کہ

سب سے پہلا سبب ہم سب کی غفلت جہالت اور دنیا پرستی ہے ہمیں دنیا کی ہوس،رغبت لالچ،دنیا کی اندھی محبت اور غیروں کی تقلید نے دین سے دور بہت دور پھینک دیا شیطان تو ازل سے ہی اسی طاق میں تھا کہ اللہ کے بندوں کو اللہ سے اللہ کے دین سے باغی کرے اس کے لیے جو اہم اور نازک ترین دشمن کا ہدف بنا وہ ہمارا تعلیمی نظام ہے جس میں نصاب تعلیم معیار تعلیم کو نشانہ بنایا گیا نظام تعلیم تو اس وقت ہی تباہی کی طرف چلا گیا جب دینی اور دنیاوی تعلیم کو تقسیم کردیا گیا مومن اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کا سینہ نور قرآن سے منور نہ ہو جائے۔

سوشل میڈیا کا غلط استعمال جدید دور میں انسان کو دین سے دور کرنے والادوسرا ذریعہ سوشل میڈیا ہے۔ معاشرے میں میڈیا کا کردار ہمیشہ سے ایک ستون کی طرح رہا ہے مگر افسوس اب معاملہ برعکس ہے۔ میڈیا معاشرے کی تعمیر نہیں کر رہا۔اسلامی تشخص کی تصویر بگاڑنے میں ہر دم لگا ہے۔

دشمنوں کی چالوں سے بے خبر ہونا تیسرا بڑا سبب دشمن کی چالوں سے اور طاغوت کے مکرو فریب سے بے خبر ہوناہے شیطان کی ہمیشہ سے چال رہی ہےکہ وہ برائی کو برائی کہہ کر نہیں متعارف کرواتا بلکہ برائی کوخوبصورت بناکرپیش کرتارہاہے۔ان سب چالوں کاشکار،ہم اس لےہو گئےکہ ہمیں قرآن سےدور رکھا گیا۔ہمارا معیار ہماری سوچ دنیا اور بس دنیا ہی رہی لہو ولعب نے میرے ضمیراورشعورکو بیدارہی نہ ہونےدیا۔

مغربی تہذیب و تمدن کو اپنانا مغرب کے کلچر و تہذیب نے ہم پرایساجا دو کیا کہ ہم سب زندگی کےاصل مقصد کو بھول گئے۔اپنے اتنےاہم کامل دین اسلام کو بھول گئے اس کی حوبصورت تعلیمات کو بھول گئے، نبی پاک ﷺ کی عظیم ہستی کو بھول گئے حد تو یہ کہ ہم اپنے کرم کرنے والے رب کو بھول گئے وہ رب جو فرماتا ہےکہ زمین وآسمان جتنے گناہ لیکرآؤ بس ایک بارسچے دل سے توبہ کرلو میں بخششوں کی بارش کردوں مغفرت کے دریا بہا دوں گا۔ ان سب کو بھول کر مغربی کلچر کو اپنانے کی وجہ سے آج ہم دین سے دور ہیں۔

اسوہ حسنہ کا ترک کرنا ہم محبت رسول ﷺ کے دعوے دار تو ہیں مگر اتباع رسول ﷺ میں زندگی کی رمق باقی نہیں بچی۔ اتباع رسول اللہ ﷺ میں ہی زندگی ہے اور آسانی ہے لیکن آج ہم نے قدم بہ قدم پر رہنمائی کرنے والی ذات کے اسوہ حسنہ کر ترک کر دیا ہے جسکی وجہ سے امت محمدیہ دین سے دور تر دور ہوتی جا رہی ہے۔

مسلمان بہت سی وجوہات کی بنا پر دین سے دور ہے لیکن آئیے! ہم انہی چند ایک وجوہات کو جان کر ان وجوہات کو ختم کرنے کا عزم کرتے ہیں۔

سب سے پہلےتوبہ نصوح کر کے رو رو کے دعائیں کریں اپنے گناہوں کا اعتراف کریں کہ آج ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر قرآن مجید سے ٹوٹا ہوارشتہ جوڑنا ہو گا، قرآن ہی مکمل ضابطہ حیات ہے۔ قرآن ہی کو اپنا راہنما امام بنانا ہو گا قرآن ہی تمام مسائل کا حل ہے-

روٹھے ہوئےرب کو کثرت سجدہ سے منانا ہوگا۔ ارکان اسلام کو خوشی دلی سے اپنانے کا عزم کرنا ہوگا میڈیا سے خود کو اور آنے والی نسلوں کودور ہی رکھنا ہوگا۔ذمہ داران میڈیا کو انٹرویو یر مہذب پروگرام اشاعت کرنے سے باز رکھنا ہوگا اسکی جگہ میڈیا پرایسے پروگرام پیش کروائے جائیں جو نسل نو کی سیرت و کردار کو نکھار دیں جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پاکستانی شہری میں اسلامی تشخص کو ازسر نو زندہ کرےجو نورایمان سے تعمیر سیرت کرے کہ نسل نو اسوہ حسنہ کی عملی تفسیر ہوں، تخلیقی اورپیشہ ورانہ تعلیم و تربیت پربھرپور توجہ دی جائے، والدین خاص طور پر خصوصی توجہ دیں اپنی اولاد پر، بےحیائی کی پرزور مذمت ہو، روزگار کے مواقع زیادہ فراہم کیےجائیں، دشمن کی ہر چال پرکڑی نگاہ ہو، جدید ٹیکنالوجی پر عبور، جدید علوم کی تعلیم حاصل کرنےکی ضرورت ہے۔اخلاقی اور مذہبی تربیت کامنظم اہتمام کیاجائےاورسب سے بڑھ کراللہ اور رسول ﷺ کی صحیح اطاعت کی جائے۔اگرآج بھی اس تباہی کو نظراندازکیا گیا۔آج کی خاموشی مجرمانہ خاموشی ہوگی۔ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہےکہ یہی زندگی اصل زندگی نہیں بلکہ اصل اور ابدی زندگی تو آخرت کی زندگی ہےتو عقلمندی کا تقاضا ہے،ایمان کا تقاضا ہےکہ اپنی ابدی زندگی کی فکرابدی کامیابی کی فکرتمام فکروں پر غالب ہو۔ہم حریص ہوں، ہم متلاشی ہوں صرف اور صرف اللہ رب العزت کی رضامندی کے اور یہی محبت کا تقاضا ہے۔

آئیں اللہ سے توبہ کرتے ہوئےامت مسلمہ کی حفاظت اتحاد اور استقامت کی دعا کریں، اللہ ہم سب کو دین اسلام کی نعمت کی قدر کرنے اورعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

دین سے دوری کے مختلف اسباب ہیں، جنہیں قرآن و حدیث کی روشنی میں سمجھا جا سکتا ہے۔ یہاں پر وجوہات بیان کی جا رہی ہیں جو لوگوں کو دین سے دور لے جاتی ہیں:

اللہ کی یاد سے غفلت: قرآن میں اللہ کی یاد سے غافل رہنے والوں کے بارے میں تنبیہ کی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: وَ مَنْ اَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِیْ فَاِنَّ لَهٗ مَعِیْشَةً ضَنْكًا (پ 16، طہٰ: 124) ترجمہ: اور جو لوگ میرے ذکر سے روگردانی کریں گے، ان کے لیے تنگ زندگی ہوگی۔

مال و دولت کا غرور: قرآن میں اللہ تعالیٰ نے قارون کی مثال بیان کی جو اپنے مال کے غرور میں مبتلا تھا اور دین سے دور ہوگیا۔

شیطان کی پیروی: شیطان انسان کو دین سے دور کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ الشَّیْطٰنَ لَكُمْ عَدُوٌّ فَاتَّخِذُوْهُ عَدُوًّاؕ- (پ 22، فاطر: 6) ترجمہ کنز الایمان: بےشک شیطان تمہارا دشمن ہے تو تم بھی اُسے دشمن سمجھو۔

علم دین کی کمی: دین سے دوری کا ایک بڑا سبب علم دین کی کمی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایا: علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ (ابن ماجہ، 1/146، حدیث: 224) اس کے علاوہ درج ذیل وجوہات بھی دین سے دوری کا سبب بنتی ہیں:

غلط صحبت، نماز میں سستی، ناشکری، گناہوں میں مبتلا ہونا، ظاہری نمود و نمائش، موت کی یاد سے غفلت، تقدیر پر ایمان کی کمزوری، اللہ کی رضا پر راضی نہ ہونا، خودپسندی یعنی اپنی تعریف اور تکبر میں مبتلا ہونا، اللہ کی رحمت سے مایوسی، دین کو بوجھ سمجھنا اور اس پر عمل نہ کرنا، غلط عقائد کا اپنانا، وقت کی ناقدری، احساس ذمہ داری کی کمی، خوف و مایوسی یعنی دین کے احکام کو مشکل سمجھ کر خوف اور مایوسی میں مبتلا ہو جانا، شہوت پرستی اور نفسانی خواہشات کا پیچھا کرنا، علماء سے دوری اور دنیاوی مصروفیات میں مشغول ہو کر دین کو پس پشت ڈال دینا وغیرہ یہ وجوہات قرآن و حدیث کی روشنی میں انسان کو دین سے دور کر سکتی ہیں، اس لیے ان سے بچنے کی کوشش کرنا چاہیے اور اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔


علم دین سے دوری ایک اہم مسئلہ بنتا جا رہا ہے نت نئے فیشن اور سوشل میڈیا نے واقعی بنی نوع انسان کو دین کے علم سے بہت دور کر دیا ہے بلکہ ایسا کہنا بے جا نہ ہو گا کہ  انسان میں علم دین اب دور دور تک نظر نہیں آتا جس طرف بھی نگاہ دوڑائی جاتی ہے تو جہالت ہی جہالت ہے زمانہ جہالت میں جیسے لوگ ایک دوسرے کے حق کو دبا لیتے تھے قتل و غارت عام تھی چوری ڈاکہ زنا بے حیائی نا فرمانی سر عام لڑائی جھگڑے آج بھی قرب قیامت یہ سب عام ہی عام ہوتا چلا جا رہا ہے ان تمام کاموں کی ایک ہی وجہ ہے علم دین سے دوری۔ علم دین سے دوری کی جو وجوہات سامنے آتی ہیں آئیے ان پر مختصر سا کلام کرتے ہیں:

بری صحبت: بری صحبت ایک سنگین مسئلہ ہے انسان جس جگہ اور جن کے ساتھ اور جہاں بیٹھتا ہے وہاں کا ماحول بہت اثر انداز ہوتا ہے ایک شخص اگر طالب علم ہے تو اسکا بیٹھنا اٹھنا جن لوگوں کے ساتھ ہے آیا کہ وہ لوگ ایمان والے ہیں بھی یا نہیں کہیں معاذ اللہ بدمذہب کافر وغیرہ تو نہیں۔ بدمذہب کی دوستی سے تو ہر ایک کو ہی بچنا ہے کہ ایسے لوگ جو ایمان کے لٹیرے ہوں انکے تو سائے سے بھی بچنا چاہیے۔ البتہ اگر کوئی کام کاج والا شخص کام کاج سے تھکا ہارا دوستوں کے ساتھ بیٹھتا ہے بعض اوقات تو کئی کئی گھنٹے دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں گزر جاتے ہیں تو وہاں جو بیٹھ کر باتیں کی گئیں کیا وہ کسی کام کی تھی ان باتوں سے دین کو کیا فائدہ پہنچا یا دین کی بات کیا سیکھی گئی؟ اور اگر دوست اچھے ذہن والے نہیں برے ہیں اچھی صحبت نہیں پھر تو دین کو بہت نقصان پہنچا اور دنیا بھی برباد ہوئی اور اگر صحبت اچھی ہو تو انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے بہت کچھ حاصل کر لیتا ہے مثلا اگر اچھی صحبت اچھے دوست دینی ذہن رکھنے والے تو فالتو باتیں کم ہوں گی اور کام کی باتیں زیادہ ہوں گی اچھے اخلاق سیکھائے گے ماں باپ کی اطاعت کا ذہن بنائے گئے نماز کی طرف رغبت نیک کاموں کی باتیں نیک مشورے تو اس طرح علم دین سیکھنے کا ذہن بنائے گئے مگر افسوس کہ اچھی صحبت بہت کم میسر آتی ہے بری صحبت سے علم دین سے انسان بہت دور ہو جاتا ہے وقت کو ضائع کرتا ہے باتیں کرنے کے لئے گھومنے کے لئے تو بہت وقت ہوتا ہے مگر مسجد جانے کا وقت نہیں درس سننے کا بیان سننے کا وقت نہیں ہوتا تو اس طرح بری صحبت بھی علم دین سے دوری کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔

سوشل میڈیا: علم دین سے دور کرنے میں سوشل میڈیا کا بھی بھر پور ہاتھ ہے بنا دیکھے سمجھے ہم ہر ایک انسان کو سننا شروع کر دیتے ہیں نہ اسکا بیگ گراؤنڈ دیکھا جاتا ہے نہ کچھ کہ یہ جو بیٹھ کر سوشل میڈیا پر اسلام اور دین کی باتیں کر رہا ہے کس مدرسے یا کس ادارے سے پڑھا ہوا ہے آیا کہ پڑھا لکھا دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والا ہے بھی یا نہیں مگر ہم یہ پہچان تب ہی کر پائیں گے جب ہم خود کچھ نہ کچھ دین کے بارے میں جانتے ہوں گے تو ہمارا ہر ایک کو سننا ہمیں گمراہی کی طرف لے جاتا ہے بنا کسی حوالے کے ہم اسکی بات پر یقین کر بیٹھتے اور وسوسوں کا شکار ہو جاتے ہیں سوشل میڈیا پر 90 فی صد جھوٹی باتیں بیان کی جاتی ہیں اور بے جا کہانیاں سنا کر بس لوگوں کو متاثر کیا جاتا ہے جتنا وقت لوگ سوشل میڈیا کو دیتے ہیں اگر اتنا وقت علم دین سیکھا جائے تو بھر پور علم دین کا خزانہ ہاتھ آئے اور ساری جہالت دور ہو جاتی ہے۔

انسان بے شک خسارے میں ہے، بہت جلد اپنے نفس کے چکروں میں آکر اور دنیاوی خواہشوں کی تکمیل میں بہت سارا وقت مال ضائع کرتا ہے یہ نفس تو اسے کشاں کشاں برائیوں کی طرف لے جاتا ہے اور اگر اسے اس کی حالت پر چھوڑ دیا جائے تو وہ بدی کے لیے انسان کے دل میں زبردست داعیہ اور کشش کا سامان پید اکردیتا ہے۔ نفس کی اس حالت پر بڑی محنت و ریاضت مجاہدے اور مشقت کے بعد قابو پایا جاسکتا ہے۔

نفس کے لیے مجاہدہ و مشقت انتہائی تکلیف دہ امر ہے۔ خارجی سازگار ماحول اسے بدی کی طرف کھینچتا ہے تو باطنی شعور اسے صراط مستقیم سے بھٹکا کر دین سے دور لے جاتا ہے۔سماجی ڈھانچہ بھی اسے برائی کی طرف مائل کرتا ہے۔ ایسی صورت میں نوجوان کو دین سے کیونکر قریب کیا جائے۔

نسل نو کی دین سے بےرغبتی کا سبب: یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ محبوب حقیقی سے لو لگانے والے اب خال خال رہ گئے ہیں۔ یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور نئی نسل کے دین سے تنافر اور بے رغبتی کے کیا اسباب ہیں؟ کیا ایسا تو نہیں کہ ہماری دکان میں وہ مال ہی نہیں جس کی طلب کے لیے خریدار دور دور سے کشاں کشاں آیا کرتے تھے۔

اللہ ہمیں علم دین کی سمجھ بوجھ عطا فرمائے۔فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے کہ اللہ پاک جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے اللہ ہمیں بھی اپنے سینوں کو علم دین سے آراستہ کرنے کی روشن کرنے کی توفیق بخشے ہمیں اپنے علم پر عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے دینی سوچ دینی ماحول اپنانے کی توفیق ملے اور ایمان کی حفاظت فرمائے۔ آمین


دین کے لغوی معنی مذہب،عقیدہ ہیں اور اصطلاح میں دین وہ پیغام،ہدایت نامہ اور حکم نامہ ہے جس سے اللہ پاک نے پیغمبروں کے ذریعے انسانوں کے مابین صحیح رشتے کی نشاندہی کرنے خدا،آخرت اور رسالت وغیرہ جیسی بنیادی اصولی باتوں کو تسلیم کرنے کے لیے نازل کیا۔ امام ابن عقیل حنبلی رحمۃ اللہ  علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے لوگوں کے احوال کا جائزہ لیا تو برا ہی عجیب معاملہ پایا۔ لوگ گھروں کے اجڑنے پر روتے ہیں۔ پیاروں کی موت پر آہیں بھرتے ہیں۔ معاشی تنگدستی پر حسرتیں کرتے ہیں اور زمانے کو برا بھلا کہتے ہیں۔ حالانکہ وہ دیکھتے ہیں کہ اسلام کی عمارت گر رہی ہے۔ دین فرقوں میں بٹ چکا ہے۔ سنتیں مٹ رہی ہیں اور بدعات کا غلبہ ہے۔ گناہوں کی کثرت ہے لیکن ان لوگوں میں سے کوئی بھی اپنے دین کے لیے رونے والا نہیں ہے۔ اپنی عمر برباد کرنے پر کسی کو افسوس نہیں ہے۔ اپنے وقت کو ضائع کرنے پرکسی کو کوئی غم نہیں میں اس سب کا ایک ہی سبب دیکھتا ہوں کہ دین ان کی نظروں میں ہلکا ہو چکا ہے دنیا ان کی فکروں کا محور بن چکی ہے۔

پیاری اسلامی بہنو! اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جس میں ہر شے کا واضح بیان ہے دنیا میں مسلمان تو بہت ہیں جو اپنے دین کو جاننے کی بجائے اس سے بہت دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ دین سے دوری کی چند وجوہات پرھیے:

نسیانِ خالق (خدا کو بھول جانا): اللہ پاک کی اطاعت و فرمانبرداری کوترک کر دینا اور حقوق اللہ کو یکسر فراموش کر دینا نسیان حالق کہلاتا ہے۔ (تفسیر طبری، 12/50) اپنے حالق ہی کو بھول جانا، اس کے ذکر سے غافل ہو جانا، اطاعت و فرمانبرداری کو ترک کر دینا اور حقوق اللہ کو بالکل فراموش کر دینا بہت بڑی بدبختی اور دین سے دوری کا سبب ہے۔ اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتا ہے: وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ(۱۹) (پ،28الحشر: 19 ترجمہ کنز الایمان: اور ان جیسے نہ ہو جو اللہ کو بھول بیٹھے تو اللہ نے انہیں بلا میں ڈاالا کہ اپنی جانیں یاد نہ رہیں وہی فاسق ہیں۔

نسیانِ موت (موت کو بھول جانا): دنیاوی مال و دولت کی محبت و گناہوں میں غرق ہو کر موت کو بالکل بھول جانا نسیانِ موت کہلاتا ہے، جیسا کہ اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتا ہے: وَ جَآءَتْ سَكْرَةُ الْمَوْتِ بِالْحَقِّؕ-ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِیْدُ(۱۹) (پ 26، ق: 19) ترجمہ کنز الایمان: اور ائی موت کی سختی حق کے ساتھ یہ ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔

فرمان مصطفی ﷺ ہے: سب سے زیادہ عقل مند و دانا وہ مومن ہے جو موت کثرت سے یاد کرے اور اس کے لیے احسن طریقے پر تیاری کرے یہی (حقیقی) دانا لوگ ہیں۔

محبتِ دنیا: محبت دنیا یہ ہے کہ انسان ہر ذریعے سے دنیا حاصل کرتا رہے ضرورت پڑے تو دین دنیا پر قربان کر دے۔ (مراة المناجیح، 7/ 43) تفسیر صراط الجنان میں ہے: جب دین کو چھوڑ کر دنیا سے محبت کی جائے تو یہ بری ہے اور کفار کا طریقہ ہے اور اگر دنیا کو دین کے لیے وسیلہ بنایا جائے تو اس سے محبت اچھی ہے۔ (احیاء العلوم، 3/273) فرمان مصطفی ﷺ ہیں: دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ (شعب الایمان،7/383، حدیث: 10501)

اتباعِ شیطان (شیطان کی پیروی): شیطان کے وساوس و شبہات کے مطابق چلنا اتباع شیطان کہلاتا ہے۔ (تفسیر خزاین العرفان، ص 69 ماخوذاً) شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے اس کا مقصد دنیا و آخرت دونوں کو تباہ و برباد کرنا ہے ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا گناہ کرنا شیطان ہی کی اتباع ہے اور شیطان کی اتباع جہنم میں لے جانے والا کام ہے اور اللہ کریم قرآن پاک میں فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-وَ مَنْ یَّتَّبِـعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِنَّهٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ- (پ 18، النور: 21) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو شیطان کے قدموں پر نہ چلو اور جو شیطان کے قدموں پر چلے تو وہ تو بے حیائی اور بری ہی بات بتائے گا۔

بندگیِ نفس (نفس کا ہر حکم مان لینا): جائز و ناجائز کی پروا کیے بغیر نفس کا ہر حکم مان لینا بندگی نفس کہلاتا ہے بندگی نفس یعنی جائز و ناجائز کی پرواہ کیے بغیر نفس کی ہر ہر بات کو مان لینا یا اس پر عمل کر لینا نہایت ہی مہلک یعنی ہلاکت میں ڈالنے والا کام ہے۔ اللہ کریم قرآن پاک میں فرماتا ہے: وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ(۴۰) (پ 30، النازعات: 40، 41) ترجمہ کنز الایمان: اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا اور نفس کو خواہش سے روکا تو بے شک جنت ہی ٹھکانا ہے۔

اللہ پاک ہمیں ہمیشہ دین سے وابستہ رکھے اور ایمان پہ زندگی اور ایمان پہ موت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبیین ﷺ

دنیا میں پائے جانے والے امور کئی طرح کے ہیں۔بعض سے دوری اچھی جبکہ بعض سے دوری دنیا و آخرت میں تباہ کن ہوتی ہے۔آخر الذکر میں سے سر فہرست دین سے دوری ہے۔فی زمانہ معاشرے میں پھیلی سینکڑوں برائیوں کی اصل وجہ یہی ہے۔کیونکہ جب تک انسان دین کی تعلیمات سے مربوط رہتا ہے تو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا خیال رکھتا ہے۔دین ہی خیر و شر کے درمیان فرق کرنے کا شعور دیتا ہے جبکہ دین سے دور شخص اس عظیم نعمت سے محروم رہتا ہے اور شیطان کا کھلونا بن کر رہ جاتا ہے۔ذیل میں دین سے دوری کی چند وجوہات ذکر کی جاتی ہیں:

علم دین سے دوری:دین سے دوری کی بنیادی وجہ علم سے دوری ہے۔جب انسان کسی امر کے بارے آگاہی حاصل کرلیتا ہے تو اس پر عمل کی کوشش بھی کرتا ہے جبکہ علم دین سے دور شخص کی مثال اندھے کی طرح ہے جس کو کچھ سجائی نہیں دیتا اللہ پاک فرماتا ہے: وَ مَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُۙ(۱۹) (پ 22، فاطر: 19) ترجمہ کنز الایمان: اور برابر نہیں اندھا اور انکھیارا۔

بعض مفسرین نے اس آیت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ جاہل اور عالم برابر نہیں۔

زمانہ رسالت سے دوری: جس قدر نبی کریم ﷺ کے مبارک زمانے سے دوری ہوتی جائے گی اسی قدر دین سے دوری بڑھتی چلی جائے گی۔ روایت میں ہے کہ بے شک تم پر آنے والا ہر دور پہلے دورسے زیادہ برا ہو گا۔ (ریاض الصالحین،2/ 92)

علّامہ ملّا علی قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری فرماتے ہیں: حضور ﷺ کا زمانہ جہان کے ‏لیےروشن مشعل کی طرح ہے۔ پس جیسے جیسے دنیا زمانۂ نبوی سے دور ہوتی جارہی ہے اس میں اندھیروں اور حجابات کی زیادتی ہو رہی ہے۔

نیکی کی دعوت نہ دینا: جب تک کسی معاشرے میں دینی تعلیمات کو عمدہ شمار کرتے ہوئے اس کی دعوت دی جاتی رہے تو اس کے افراد دین سے منسلک رہتے ہیں جبکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں سستی کے نتیجے میں دین سے دوری بڑھتی چلی جاتی ہے۔

قرآن پاک میں یہودی علما کی صفت یوں بیان کی گئی: كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ(۷۹) (پ 6، المائدۃ: 80)ترجمہ کنز العرفان: وہ ایک دوسرے کو کسی برے کام سے منع نہ کرتے تھے جو وہ کیا کرتے تھے۔ بیشک یہ بہت ہی برے کام کرتے تھے۔ اس کے نتیجے میں بنی اسرائیل کی سرکشی بڑھ گئی اور ان پر لعنت اتاری گئی۔

دنیا کی محبت: دور حاضر میں ایسا محسوس ہوتا ہے گویا کہ ہم دنیا میں اپنے بھیجے جانے کے اصل مقصد کو بھلا کر دنیا کے پیچھے مست ہو گئے ہیں۔ ہمارا مقصود صرف مال، عزت و شہرت رہ گیا۔ دنیا کی محبت دل میں ایسی راسخ ہو چکی ہے کہ دینی تعلیمات معلوم ہونے کے باوجود پر بھی دنیا کو ترجیح دیتے ہوئے انہیں فراموش کر بیٹھے ہیں۔ کفار مکہ کا بھی ایمان نہ لانے کا ایک سبب دنیا کی محبت و مالی وسعت تھا اور وہ نبی کریم ﷺ اور قرآن کا انکار کرتے ہوئے کہنے لگے: ءَاُنْزِلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ مِنْۢ بَیْنِنَاؕ- (پ 23، صٓ: 8) ترجمہ کنز العرفان:کیا ہمارے درمیان ان پر قرآن اتارا گیا۔

دین کے بارے میں غلط تصورات: دین سے دوری کی ایک وجہ دین کے بارے میں پھیلائے جانے والے غلط نظریات بھی ہیں۔ کسی کا خیال ہے کہ دین پر عمل کرنا بہت مشکل ہے اور کوئی سوچ کر بیٹھا ہے کہ دین پر عمل کرنا تو مولویوں کا کام ہے۔ کہیں سے آواز آتی ہے کہ اگر دین پر عمل کرو گے تو ملا بن جاؤ گے دنیا کی ترقی سے محروم رہ جاؤ گے۔حالانکہ یہ سب بے سروپا قیاس آرائیاں ہیں۔ ان کو ترویج دینے والے یا تو خاندان کے بڑے بوڑھے ہوتے ہیں یا سوشل میڈیا کے نام نہاد اسکالرز۔دین اسلام تو رب کا پسندیدہ دین ہے اور یہ مکمل ضابطہ حیات تو ہمیں ہمارے پیدا فرمانے والے نے عطا فرمایا ہے جو ہماری بھلائی کو ہم سے زیادہ جاننے والا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠(۲۱۶) (پ 2، البقرۃ: 216) ترجمہ کنز العرفان: اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

یاد رکھیے! دنیا و آخرت میں مدار نجات دین ہی ہے۔دین سے دوری کفر تک لے جانے کا سبب بھی بن سکتی ہے۔ والعیاذ باللہ

ہمیں چاہیے کہ خود بھی دینی ماحول سے وابستہ رہیں اور دوسروں کو بھی قریب لانے کی کوشش کریں۔ الحمدللہ الکریم اس پر فتن دور میں دعوت اسلامی ایک امید کی کرن ہے۔

اللہ پاک ہمیں دعوت اسلامی کے دینی ماحول میں استقامت عطا فرمائے۔