دین کے
لغوی معنی مذہب،عقیدہ ہیں اور اصطلاح میں دین وہ پیغام،ہدایت نامہ اور حکم نامہ ہے
جس سے اللہ پاک نے پیغمبروں کے ذریعے انسانوں کے مابین صحیح رشتے کی نشاندہی کرنے خدا،آخرت
اور رسالت وغیرہ جیسی بنیادی اصولی باتوں کو تسلیم کرنے کے لیے نازل کیا۔ امام ابن
عقیل حنبلی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں
نے لوگوں کے احوال کا جائزہ لیا تو برا ہی عجیب معاملہ پایا۔ لوگ گھروں کے اجڑنے پر
روتے ہیں۔ پیاروں کی موت پر آہیں بھرتے ہیں۔ معاشی تنگدستی پر حسرتیں کرتے ہیں اور
زمانے کو برا بھلا کہتے ہیں۔ حالانکہ وہ دیکھتے ہیں کہ اسلام کی عمارت گر رہی ہے۔ دین
فرقوں میں بٹ چکا ہے۔ سنتیں مٹ رہی ہیں اور بدعات کا غلبہ ہے۔ گناہوں کی کثرت ہے لیکن
ان لوگوں میں سے کوئی بھی اپنے دین کے لیے رونے والا نہیں ہے۔ اپنی عمر برباد کرنے
پر کسی کو افسوس نہیں ہے۔ اپنے وقت کو ضائع کرنے پرکسی کو کوئی غم نہیں میں اس سب کا
ایک ہی سبب دیکھتا ہوں کہ دین ان کی نظروں میں ہلکا ہو چکا ہے دنیا ان کی فکروں کا
محور بن چکی ہے۔
پیاری
اسلامی بہنو! اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ جس میں ہر شے کا واضح بیان ہے دنیا میں
مسلمان تو بہت ہیں جو اپنے دین کو جاننے کی بجائے اس سے بہت دور ہوتے چلے جا رہے ہیں۔
دین سے دوری کی چند وجوہات پرھیے:
نسیانِ خالق (خدا کو بھول جانا): اللہ پاک کی اطاعت و فرمانبرداری کوترک کر دینا اور حقوق
اللہ کو یکسر فراموش کر دینا نسیان حالق کہلاتا
ہے۔ (تفسیر طبری، 12/50) اپنے حالق ہی کو بھول جانا، اس کے ذکر سے غافل ہو جانا، اطاعت
و فرمانبرداری کو ترک کر دینا اور حقوق اللہ کو بالکل فراموش کر دینا بہت بڑی بدبختی اور دین سے دوری کا سبب ہے۔ اللہ پاک قرآن پاک میں فرماتا ہے: وَ لَا تَكُوْنُوْا
كَالَّذِیْنَ نَسُوا اللّٰهَ فَاَنْسٰىهُمْ اَنْفُسَهُمْؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ
الْفٰسِقُوْنَ(۱۹)
(پ،28الحشر: 19 ترجمہ کنز الایمان: اور ان
جیسے نہ ہو جو اللہ کو بھول بیٹھے تو اللہ نے انہیں بلا میں ڈاالا کہ اپنی جانیں یاد نہ رہیں
وہی فاسق ہیں۔
نسیانِ موت (موت کو بھول جانا): دنیاوی مال و
دولت کی محبت و گناہوں میں غرق ہو کر موت کو بالکل بھول جانا نسیانِ موت کہلاتا ہے،
جیسا کہ اللہ تعالی قرآن پاک میں فرماتا ہے:
وَ جَآءَتْ سَكْرَةُ
الْمَوْتِ بِالْحَقِّؕ-ذٰلِكَ مَا كُنْتَ مِنْهُ تَحِیْدُ(۱۹) (پ 26،
ق: 19) ترجمہ کنز الایمان: اور ائی موت کی سختی حق کے ساتھ یہ ہے جس سے تو بھاگتا تھا۔
فرمان
مصطفی ﷺ ہے: سب سے زیادہ عقل مند و دانا وہ مومن ہے جو موت کثرت سے یاد کرے اور اس
کے لیے احسن طریقے پر تیاری کرے یہی (حقیقی) دانا لوگ ہیں۔
محبتِ دنیا: محبت دنیا یہ ہے کہ انسان ہر ذریعے سے دنیا
حاصل کرتا رہے ضرورت پڑے تو دین دنیا پر قربان کر دے۔ (مراة المناجیح، 7/ 43) تفسیر
صراط الجنان میں ہے: جب دین کو چھوڑ کر دنیا سے محبت کی جائے تو یہ بری ہے اور کفار
کا طریقہ ہے اور اگر دنیا کو دین کے لیے وسیلہ بنایا جائے تو اس سے محبت اچھی ہے۔ (احیاء
العلوم، 3/273) فرمان مصطفی ﷺ ہیں: دنیا کی محبت تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ (شعب الایمان،7/383،
حدیث: 10501)
اتباعِ شیطان (شیطان کی پیروی): شیطان کے وساوس
و شبہات کے مطابق چلنا اتباع شیطان کہلاتا ہے۔ (تفسیر خزاین العرفان، ص 69 ماخوذاً)
شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے اس کا مقصد دنیا و آخرت دونوں کو تباہ و برباد کرنا ہے
ہر چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا گناہ کرنا شیطان ہی کی اتباع ہے اور شیطان کی اتباع
جہنم میں لے جانے والا کام ہے اور اللہ کریم
قرآن پاک میں فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا
خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِؕ-وَ مَنْ یَّتَّبِـعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِنَّهٗ
یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِؕ- (پ 18،
النور: 21) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو شیطان کے قدموں پر نہ چلو اور جو شیطان
کے قدموں پر چلے تو وہ تو بے حیائی اور بری ہی بات بتائے گا۔
بندگیِ نفس (نفس کا ہر حکم مان لینا): جائز و ناجائز
کی پروا کیے بغیر نفس کا ہر حکم مان لینا بندگی نفس کہلاتا ہے بندگی نفس یعنی جائز
و ناجائز کی پرواہ کیے بغیر نفس کی ہر ہر بات کو مان لینا یا اس پر عمل کر لینا نہایت
ہی مہلک یعنی ہلاکت میں ڈالنے والا کام ہے۔ اللہ کریم قرآن پاک میں فرماتا ہے: وَ اَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ وَ نَهَى
النَّفْسَ عَنِ الْهَوٰىۙ(۴۰) (پ 30، النازعات: 40، 41) ترجمہ کنز الایمان:
اور وہ جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرا
اور نفس کو خواہش سے روکا تو بے شک جنت ہی ٹھکانا ہے۔