دنیا میں
پائے جانے والے امور کئی طرح کے ہیں۔بعض سے دوری اچھی جبکہ بعض سے دوری دنیا و آخرت
میں تباہ کن ہوتی ہے۔آخر الذکر میں سے سر فہرست دین سے دوری ہے۔فی زمانہ معاشرے میں
پھیلی سینکڑوں برائیوں کی اصل وجہ یہی ہے۔کیونکہ جب تک انسان دین کی تعلیمات سے مربوط
رہتا ہے تو حقوق اللہ اور حقوق العباد کی ادائیگی کا خیال رکھتا ہے۔دین ہی خیر و شر
کے درمیان فرق کرنے کا شعور دیتا ہے جبکہ دین سے دور شخص اس عظیم نعمت سے محروم رہتا
ہے اور شیطان کا کھلونا بن کر رہ جاتا ہے۔ذیل میں دین سے دوری کی چند وجوہات ذکر کی
جاتی ہیں:
علم دین سے دوری:دین سے دوری کی بنیادی وجہ علم سے دوری
ہے۔جب انسان کسی امر کے بارے آگاہی حاصل کرلیتا ہے تو اس پر عمل کی کوشش بھی کرتا ہے
جبکہ علم دین سے دور شخص کی مثال اندھے کی طرح ہے جس کو کچھ سجائی نہیں دیتا اللہ پاک
فرماتا ہے: وَ مَا یَسْتَوِی
الْاَعْمٰى وَ الْبَصِیْرُۙ(۱۹) (پ 22، فاطر:
19) ترجمہ کنز الایمان: اور برابر نہیں اندھا اور انکھیارا۔
بعض مفسرین
نے اس آیت کے یہ معنی بیان کئے ہیں کہ جاہل
اور عالم برابر نہیں۔
زمانہ رسالت سے دوری: جس قدر نبی کریم ﷺ کے مبارک زمانے سے دوری ہوتی جائے گی اسی قدر دین
سے دوری بڑھتی چلی جائے گی۔ روایت میں ہے کہ بے شک تم پر آنے والا ہر دور پہلے دورسے زیادہ برا ہو گا۔ (ریاض الصالحین،2/
92)
علّامہ
ملّا علی قاری علیہ رحمۃ اللہ الباری فرماتے ہیں: حضور ﷺ کا زمانہ جہان کے لیےروشن مشعل کی طرح ہے۔ پس جیسے جیسے دنیا زمانۂ نبوی سے دور ہوتی جارہی ہے اس میں اندھیروں
اور حجابات کی زیادتی ہو رہی ہے۔
نیکی کی دعوت نہ دینا: جب تک کسی معاشرے میں دینی تعلیمات کو
عمدہ شمار کرتے ہوئے اس کی دعوت دی جاتی رہے تو اس کے افراد دین سے منسلک رہتے ہیں
جبکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر میں سستی کے نتیجے میں دین سے دوری بڑھتی چلی جاتی
ہے۔
قرآن پاک
میں یہودی علما کی صفت یوں بیان کی گئی: كَانُوْا لَا یَتَنَاهَوْنَ عَنْ
مُّنْكَرٍ فَعَلُوْهُؕ-لَبِئْسَ مَا كَانُوْا یَفْعَلُوْنَ(۷۹) (پ 6،
المائدۃ: 80)ترجمہ کنز العرفان: وہ ایک دوسرے کو کسی برے کام سے منع نہ کرتے تھے جو
وہ کیا کرتے تھے۔ بیشک یہ بہت ہی برے کام کرتے تھے۔ اس کے نتیجے میں بنی اسرائیل کی سرکشی بڑھ گئی اور
ان پر لعنت اتاری گئی۔
دنیا کی محبت: دور حاضر میں ایسا محسوس ہوتا ہے گویا کہ
ہم دنیا میں اپنے بھیجے جانے کے اصل مقصد کو بھلا کر دنیا کے پیچھے مست ہو گئے ہیں۔
ہمارا مقصود صرف مال، عزت و شہرت رہ گیا۔ دنیا کی محبت دل میں ایسی راسخ ہو چکی ہے
کہ دینی تعلیمات معلوم ہونے کے باوجود پر بھی دنیا کو ترجیح دیتے ہوئے انہیں فراموش
کر بیٹھے ہیں۔ کفار مکہ کا بھی ایمان نہ لانے کا ایک سبب دنیا کی محبت و مالی وسعت
تھا اور وہ نبی کریم ﷺ اور قرآن کا انکار کرتے
ہوئے کہنے لگے: ءَاُنْزِلَ عَلَیْهِ الذِّكْرُ مِنْۢ بَیْنِنَاؕ- (پ
23، صٓ: 8) ترجمہ کنز العرفان:کیا ہمارے درمیان ان پر قرآن اتارا گیا۔
دین کے بارے میں غلط تصورات: دین سے دوری کی ایک وجہ دین کے بارے
میں پھیلائے جانے والے غلط نظریات بھی ہیں۔ کسی کا خیال ہے کہ دین پر عمل کرنا بہت
مشکل ہے اور کوئی سوچ کر بیٹھا ہے کہ دین پر عمل کرنا تو مولویوں کا کام ہے۔ کہیں سے
آواز آتی ہے کہ اگر دین پر عمل کرو گے تو ملا بن جاؤ گے دنیا کی ترقی سے محروم رہ جاؤ
گے۔حالانکہ یہ سب بے سروپا قیاس آرائیاں ہیں۔ ان کو ترویج دینے والے یا تو خاندان کے
بڑے بوڑھے ہوتے ہیں یا سوشل میڈیا کے نام نہاد اسکالرز۔دین اسلام تو رب کا پسندیدہ
دین ہے اور یہ مکمل ضابطہ حیات تو ہمیں ہمارے پیدا فرمانے والے نے عطا فرمایا ہے جو
ہماری بھلائی کو ہم سے زیادہ جاننے والا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ
اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ۠(۲۱۶) (پ 2، البقرۃ: 216) ترجمہ کنز العرفان:
اور اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔
یاد رکھیے!
دنیا و آخرت میں مدار نجات دین ہی ہے۔دین سے دوری کفر تک لے جانے کا سبب بھی بن سکتی
ہے۔ والعیاذ باللہ
ہمیں چاہیے
کہ خود بھی دینی ماحول سے وابستہ رہیں اور دوسروں کو بھی قریب لانے کی کوشش کریں۔ الحمدللہ
الکریم اس پر فتن دور میں دعوت اسلامی ایک امید کی کرن ہے۔
اللہ پاک
ہمیں دعوت اسلامی کے دینی ماحول میں استقامت عطا فرمائے۔