علم دین سے دوری ایک اہم مسئلہ بنتا جا رہا ہے نت نئے فیشن اور سوشل میڈیا نے واقعی بنی نوع انسان کو دین کے علم سے بہت دور کر دیا ہے بلکہ ایسا کہنا بے جا نہ ہو گا کہ  انسان میں علم دین اب دور دور تک نظر نہیں آتا جس طرف بھی نگاہ دوڑائی جاتی ہے تو جہالت ہی جہالت ہے زمانہ جہالت میں جیسے لوگ ایک دوسرے کے حق کو دبا لیتے تھے قتل و غارت عام تھی چوری ڈاکہ زنا بے حیائی نا فرمانی سر عام لڑائی جھگڑے آج بھی قرب قیامت یہ سب عام ہی عام ہوتا چلا جا رہا ہے ان تمام کاموں کی ایک ہی وجہ ہے علم دین سے دوری۔ علم دین سے دوری کی جو وجوہات سامنے آتی ہیں آئیے ان پر مختصر سا کلام کرتے ہیں:

بری صحبت: بری صحبت ایک سنگین مسئلہ ہے انسان جس جگہ اور جن کے ساتھ اور جہاں بیٹھتا ہے وہاں کا ماحول بہت اثر انداز ہوتا ہے ایک شخص اگر طالب علم ہے تو اسکا بیٹھنا اٹھنا جن لوگوں کے ساتھ ہے آیا کہ وہ لوگ ایمان والے ہیں بھی یا نہیں کہیں معاذ اللہ بدمذہب کافر وغیرہ تو نہیں۔ بدمذہب کی دوستی سے تو ہر ایک کو ہی بچنا ہے کہ ایسے لوگ جو ایمان کے لٹیرے ہوں انکے تو سائے سے بھی بچنا چاہیے۔ البتہ اگر کوئی کام کاج والا شخص کام کاج سے تھکا ہارا دوستوں کے ساتھ بیٹھتا ہے بعض اوقات تو کئی کئی گھنٹے دوستوں کے ساتھ گپ شپ میں گزر جاتے ہیں تو وہاں جو بیٹھ کر باتیں کی گئیں کیا وہ کسی کام کی تھی ان باتوں سے دین کو کیا فائدہ پہنچا یا دین کی بات کیا سیکھی گئی؟ اور اگر دوست اچھے ذہن والے نہیں برے ہیں اچھی صحبت نہیں پھر تو دین کو بہت نقصان پہنچا اور دنیا بھی برباد ہوئی اور اگر صحبت اچھی ہو تو انسان بہت کچھ سیکھ سکتا ہے بہت کچھ حاصل کر لیتا ہے مثلا اگر اچھی صحبت اچھے دوست دینی ذہن رکھنے والے تو فالتو باتیں کم ہوں گی اور کام کی باتیں زیادہ ہوں گی اچھے اخلاق سیکھائے گے ماں باپ کی اطاعت کا ذہن بنائے گئے نماز کی طرف رغبت نیک کاموں کی باتیں نیک مشورے تو اس طرح علم دین سیکھنے کا ذہن بنائے گئے مگر افسوس کہ اچھی صحبت بہت کم میسر آتی ہے بری صحبت سے علم دین سے انسان بہت دور ہو جاتا ہے وقت کو ضائع کرتا ہے باتیں کرنے کے لئے گھومنے کے لئے تو بہت وقت ہوتا ہے مگر مسجد جانے کا وقت نہیں درس سننے کا بیان سننے کا وقت نہیں ہوتا تو اس طرح بری صحبت بھی علم دین سے دوری کی ایک بہت بڑی وجہ ہے۔

سوشل میڈیا: علم دین سے دور کرنے میں سوشل میڈیا کا بھی بھر پور ہاتھ ہے بنا دیکھے سمجھے ہم ہر ایک انسان کو سننا شروع کر دیتے ہیں نہ اسکا بیگ گراؤنڈ دیکھا جاتا ہے نہ کچھ کہ یہ جو بیٹھ کر سوشل میڈیا پر اسلام اور دین کی باتیں کر رہا ہے کس مدرسے یا کس ادارے سے پڑھا ہوا ہے آیا کہ پڑھا لکھا دین کی سمجھ بوجھ رکھنے والا ہے بھی یا نہیں مگر ہم یہ پہچان تب ہی کر پائیں گے جب ہم خود کچھ نہ کچھ دین کے بارے میں جانتے ہوں گے تو ہمارا ہر ایک کو سننا ہمیں گمراہی کی طرف لے جاتا ہے بنا کسی حوالے کے ہم اسکی بات پر یقین کر بیٹھتے اور وسوسوں کا شکار ہو جاتے ہیں سوشل میڈیا پر 90 فی صد جھوٹی باتیں بیان کی جاتی ہیں اور بے جا کہانیاں سنا کر بس لوگوں کو متاثر کیا جاتا ہے جتنا وقت لوگ سوشل میڈیا کو دیتے ہیں اگر اتنا وقت علم دین سیکھا جائے تو بھر پور علم دین کا خزانہ ہاتھ آئے اور ساری جہالت دور ہو جاتی ہے۔

انسان بے شک خسارے میں ہے، بہت جلد اپنے نفس کے چکروں میں آکر اور دنیاوی خواہشوں کی تکمیل میں بہت سارا وقت مال ضائع کرتا ہے یہ نفس تو اسے کشاں کشاں برائیوں کی طرف لے جاتا ہے اور اگر اسے اس کی حالت پر چھوڑ دیا جائے تو وہ بدی کے لیے انسان کے دل میں زبردست داعیہ اور کشش کا سامان پید اکردیتا ہے۔ نفس کی اس حالت پر بڑی محنت و ریاضت مجاہدے اور مشقت کے بعد قابو پایا جاسکتا ہے۔

نفس کے لیے مجاہدہ و مشقت انتہائی تکلیف دہ امر ہے۔ خارجی سازگار ماحول اسے بدی کی طرف کھینچتا ہے تو باطنی شعور اسے صراط مستقیم سے بھٹکا کر دین سے دور لے جاتا ہے۔سماجی ڈھانچہ بھی اسے برائی کی طرف مائل کرتا ہے۔ ایسی صورت میں نوجوان کو دین سے کیونکر قریب کیا جائے۔

نسل نو کی دین سے بےرغبتی کا سبب: یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ محبوب حقیقی سے لو لگانے والے اب خال خال رہ گئے ہیں۔ یہ ہم سب کے لیے لمحہ فکریہ ہے اور نئی نسل کے دین سے تنافر اور بے رغبتی کے کیا اسباب ہیں؟ کیا ایسا تو نہیں کہ ہماری دکان میں وہ مال ہی نہیں جس کی طلب کے لیے خریدار دور دور سے کشاں کشاں آیا کرتے تھے۔

اللہ ہمیں علم دین کی سمجھ بوجھ عطا فرمائے۔فرمان مصطفیٰ ﷺ ہے کہ اللہ پاک جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے تو اسے دین کی سمجھ بوجھ عطا فرما دیتا ہے اللہ ہمیں بھی اپنے سینوں کو علم دین سے آراستہ کرنے کی روشن کرنے کی توفیق بخشے ہمیں اپنے علم پر عمل کرنے کی بھی توفیق عطا فرمائے دینی سوچ دینی ماحول اپنانے کی توفیق ملے اور ایمان کی حفاظت فرمائے۔ آمین