دین سے
دوری کی کئی وجوہات ہوسکتی ہیں، اور یہ مختلف افراد کے لیے مختلف ہوتی ہیں۔ چند عام
وجوہات درج ذیل ہیں:
1۔ صحبت: صحبت انسان پر بہت گہرا اثر رکھتی ہے اگر انسان دین
دار یعنی علماء کرام کی صحبت میں رہے تو دین دار بنے گے اور اگر بری صحبت میں رہے تو
دین سے دور ہو جائے گا۔
2۔ ثقافتی اثرات: مغربی ثقافت اور میڈیا کا اثر بہت سے معاشروں
پر ہے جس کی وجہ سے بعض لوگ اپنے مذہبی اقدار سے دور ہو جاتے ہیں اور مغربی طرز زندگی
کو اپنانے لگتے ہیں۔ اس پر اقبال فرماتے ہیں کہ
یورپ کی غلامی پر رضا مند ہوا تو مجھ کو تو گلہ
تجھ سے ہے یورپ سے نہیں
3۔ معاشرتی دباؤ: بعض اوقات سماج میں کچھ خاص گروہوں کی جانب
سے دینی تعلیمات پر عمل کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے جس کی وجہ سے لوگ
دین سے دوری اختیار کرتے ہیں۔
4۔ ذاتی تجربات: بعض افراد اپنی زندگی میں دینی شخصیات یا
مذہبی اداروں کے ساتھ منفی تجربات کی وجہ سے دین سے دور ہو جاتے ہیں۔
5۔ مذہبی تعلیم کی کمی: دین کی صحیح اور مکمل تعلیم نہ ہونے کی
وجہ سے لوگ دین کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار ہوجاتے ہیں اور دین سے دوری اختیار
کر لیتے ہیں۔
6۔ مادی ترقی اور لذت پسندی: موجودہ دور میں مادی ترقی اور اپنی
ذاتی لذتوں میں مگن ہو جاتے ہیں، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دنیاوی لذتوں میں مشغول
ہوکر دین اور آخرت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔
7۔ سوالات اور شکوک: بعض افراد کے ذہن میں مذہب سے متعلق مختلف
سوالات اور شکوک پیدا ہوتے ہیں، اور اگر انہیں تسلی بخش جوابات نہ ملیں تو وہ دین سے
دور ہو جاتے ہیں۔
8: اصل مقصد کا بھولنا:علامہ اقبال کے مطابق مسلمان نے دین کی
روح اور اصل مقصد کو بھلا کر رسم و رواج اور روایات کو زیادہ اہمیت دے دی ہے۔ جس کی
وجہ سے وہ دین سے دور اور دنیا کے قریب ہوتے جارہے ہیں اس تناظر میں اقبال کا مشہور
شعر ہے:
حقیقت خرافات میں کھوگئی یہ امت روایات میں کھو گئی
یہ شعر
اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ مسلمانوں نے دین کے ظاہری اعمال اور رسم و رواج کو اپنا
لیا ہے، لیکن دین کی اصل روح اور اس کا مقصد فراموش کر دیا ہے۔
یہ وجوہات
مختلف افراد کی سوچ، معاشرتی حالات اور ذاتی تجربات کے مطابق مختلف ہو سکتی ہیں۔ دین
سے قربت یا دوری کا تعلق اکثر افراد کے ذاتی اور سماجی عوامل سے ہوتا ہے۔
دین سے
دوری کا حل انسان کی زندگی میں روحانی، اخلاقی اور معاشرتی پہلوؤں کو بہتر بنانے کے
لیے ضروری ہے۔ یہاں چند اقدامات ہیں جو دین سے دوبارہ تعلق قائم کرنے میں مدد کر سکتے
ہیں:
1۔ نماز کی پابندی: نماز دین کا ستون ہے اور اللہ سے قربت کا
بہترین ذریعہ ہے۔ باقاعدگی سے نماز ادا کرنے سے انسان کا دل نرم ہوتا ہے اور اللہ کی
یاد تازہ رہتی ہے۔
2۔ قرآن پاک کی تلاوت اور سمجھنا: قرآن کو ترجمے
کے ساتھ پڑھنا اور اس کے احکامات پر غور کرنا دل کی پاکیزگی کا سبب بنتا ہے اور دین
سے وابستگی کو مضبوط کرتا ہے۔
3۔ نیک صحبت اختیار کرنا: اچھے دوست اور ساتھی جو دین کے راستے
پر چلنے والے ہوں، انسان کی سوچ اور اعمال پر مثبت اثر ڈالتے ہیں۔
4۔ اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا: زندگی کے ہر شعبے
میں اسلامی احکامات اور سنت نبوی ﷺ کو اپنانا دین سے مضبوط تعلق قائم کرنے میں مددگار
ثابت ہوتا ہے۔
5۔ ذکر و اذکار: دن بھر میں اللہ کا ذکر، دعائیں اور توبہ
انسان کو روحانی طور پر قریب لاتی ہے۔
6۔ علم دین حاصل کرنا: دینی کتب پڑھنا، علماء سے رہنمائی لینا،
اور دین کی گہری سمجھ حاصل کرنا ایمان کو مضبوط کرتا ہے۔
7۔ توبہ اور استغفار: گناہوں سے بچنے اور اللہ سے معافی مانگنے
کی عادت ڈالنا دین کی طرف پلٹنے کا بہترین ذریعہ ہے۔
یہ اقدامات
انسان کو دین کی طرف راغب کرتے ہیں اور دنیا و آخرت دونوں میں کامیابی کا راستہ دکھاتے
ہیں۔