آج عالم اسلام کی یہ حالت ہے کہ  چاروں طرف سے کفار کی سازشوں میں جکڑا ہوا ہے،تمام اہل اسلام پر بے حسی کی ایک گھٹا چھائی ہوئی ہے۔کفارنے مسلمانوں کو ان کے مذہب و عقیدے سے بیزار کرنے کے لیے جتنے حربے استعمال کیے مسلمان بے خبر فاختہ کی طرح ان حربوں میں جکڑتے چلے گئے۔دین سے دوری کا یہ عالم ہے کہ آج ہم ابتدائی دینی تعلیمات سے بھی کورے ہوگئے ہیں۔

آج ایک مسلمان اپنی ناواقفیت کےسبب اپنے گھر میں پیدا ہونے والے بچے کے کان میں اذان دینے سے بھی عاجز ہے،کیونکہ اس بیچارے نے کبھی مؤذن کی صدا پر کان دھرنے کو مناسب ہی نہیں سمجھا۔آج ہمارے نوجوانوں کو فلمی اداکاروں کے نام اور ان کا بایو ڈیٹا تو ازبر ہے مگراپنے پیارے نبی ﷺکے سب سے پہلے جانشین کا نام تک معلوم نہیں!کیونکہ پیدائش کے وقت ان کے والدین نے انہیں اسلام کا اعزاز دینے کے لیے رسمی طور پران کے کانوںمیں اذان کے چند کلمات تو کہلوادیے تھے،لیکن اس کے بعد بچپن سے لڑکپن اور پھر لڑکپن سے جوانی تک ان کے کانوں نے ٹی وی و موبائل کی آواز کے علاوہ کوئی آواز سنی ہی نہیں۔ پھر جوانی سے فکر معاش میں سرگرداں اس نوجوان کو دین کا علم حاصل کرنے کے کے لیے فرصت ہی کہاں! بڑھاپے میں ریٹائرمنٹ کے بعد اگر فضل الٰہی سے اس مسلمان کو دین کی رغبت ہو بھی گئی تو اب زبان اپنے قابو میں نہ رہی کہ کلمہ طیبہ کے الفاظ تک صحیح طور پر زبان سے ادا نہیں ہو پاتے! حالات کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں تو خوب اللہ پاک کا کروڑ ہا احسان مند رہنا چاہیے کہ اس نے ہمیں دین اسلام کی نعمت سے نوازا ہے۔دین اسلام جو تمام ادیان میں اعلیٰ وارفع اور اصل دین ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ رَضِیْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًاؕ-(پ 6، المائدۃ: 3) ترجمہ کنز الایمان: اور تمہارے لیے اسلام کو دین پسند کیا۔

دین اسلام ہی اصل کامیابی ہے آخرت کی ابدی نعمتوں اور کامیابی دین اسلام سے مشروط ہے۔ دین اسلام سے دوری کے اسباب کو جانناہی اپنی کوتاہیوں غفلتوں کا اعتراف ہے۔

دین سے دوری کے چند اسباب کا جائزہ لیتے ہیں کہ

سب سے پہلا سبب ہم سب کی غفلت جہالت اور دنیا پرستی ہے ہمیں دنیا کی ہوس،رغبت لالچ،دنیا کی اندھی محبت اور غیروں کی تقلید نے دین سے دور بہت دور پھینک دیا شیطان تو ازل سے ہی اسی طاق میں تھا کہ اللہ کے بندوں کو اللہ سے اللہ کے دین سے باغی کرے اس کے لیے جو اہم اور نازک ترین دشمن کا ہدف بنا وہ ہمارا تعلیمی نظام ہے جس میں نصاب تعلیم معیار تعلیم کو نشانہ بنایا گیا نظام تعلیم تو اس وقت ہی تباہی کی طرف چلا گیا جب دینی اور دنیاوی تعلیم کو تقسیم کردیا گیا مومن اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک اس کا سینہ نور قرآن سے منور نہ ہو جائے۔

سوشل میڈیا کا غلط استعمال جدید دور میں انسان کو دین سے دور کرنے والادوسرا ذریعہ سوشل میڈیا ہے۔ معاشرے میں میڈیا کا کردار ہمیشہ سے ایک ستون کی طرح رہا ہے مگر افسوس اب معاملہ برعکس ہے۔ میڈیا معاشرے کی تعمیر نہیں کر رہا۔اسلامی تشخص کی تصویر بگاڑنے میں ہر دم لگا ہے۔

دشمنوں کی چالوں سے بے خبر ہونا تیسرا بڑا سبب دشمن کی چالوں سے اور طاغوت کے مکرو فریب سے بے خبر ہوناہے شیطان کی ہمیشہ سے چال رہی ہےکہ وہ برائی کو برائی کہہ کر نہیں متعارف کرواتا بلکہ برائی کوخوبصورت بناکرپیش کرتارہاہے۔ان سب چالوں کاشکار،ہم اس لےہو گئےکہ ہمیں قرآن سےدور رکھا گیا۔ہمارا معیار ہماری سوچ دنیا اور بس دنیا ہی رہی لہو ولعب نے میرے ضمیراورشعورکو بیدارہی نہ ہونےدیا۔

مغربی تہذیب و تمدن کو اپنانا مغرب کے کلچر و تہذیب نے ہم پرایساجا دو کیا کہ ہم سب زندگی کےاصل مقصد کو بھول گئے۔اپنے اتنےاہم کامل دین اسلام کو بھول گئے اس کی حوبصورت تعلیمات کو بھول گئے، نبی پاک ﷺ کی عظیم ہستی کو بھول گئے حد تو یہ کہ ہم اپنے کرم کرنے والے رب کو بھول گئے وہ رب جو فرماتا ہےکہ زمین وآسمان جتنے گناہ لیکرآؤ بس ایک بارسچے دل سے توبہ کرلو میں بخششوں کی بارش کردوں مغفرت کے دریا بہا دوں گا۔ ان سب کو بھول کر مغربی کلچر کو اپنانے کی وجہ سے آج ہم دین سے دور ہیں۔

اسوہ حسنہ کا ترک کرنا ہم محبت رسول ﷺ کے دعوے دار تو ہیں مگر اتباع رسول ﷺ میں زندگی کی رمق باقی نہیں بچی۔ اتباع رسول اللہ ﷺ میں ہی زندگی ہے اور آسانی ہے لیکن آج ہم نے قدم بہ قدم پر رہنمائی کرنے والی ذات کے اسوہ حسنہ کر ترک کر دیا ہے جسکی وجہ سے امت محمدیہ دین سے دور تر دور ہوتی جا رہی ہے۔

مسلمان بہت سی وجوہات کی بنا پر دین سے دور ہے لیکن آئیے! ہم انہی چند ایک وجوہات کو جان کر ان وجوہات کو ختم کرنے کا عزم کرتے ہیں۔

سب سے پہلےتوبہ نصوح کر کے رو رو کے دعائیں کریں اپنے گناہوں کا اعتراف کریں کہ آج ہم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر قرآن مجید سے ٹوٹا ہوارشتہ جوڑنا ہو گا، قرآن ہی مکمل ضابطہ حیات ہے۔ قرآن ہی کو اپنا راہنما امام بنانا ہو گا قرآن ہی تمام مسائل کا حل ہے-

روٹھے ہوئےرب کو کثرت سجدہ سے منانا ہوگا۔ ارکان اسلام کو خوشی دلی سے اپنانے کا عزم کرنا ہوگا میڈیا سے خود کو اور آنے والی نسلوں کودور ہی رکھنا ہوگا۔ذمہ داران میڈیا کو انٹرویو یر مہذب پروگرام اشاعت کرنے سے باز رکھنا ہوگا اسکی جگہ میڈیا پرایسے پروگرام پیش کروائے جائیں جو نسل نو کی سیرت و کردار کو نکھار دیں جو اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پاکستانی شہری میں اسلامی تشخص کو ازسر نو زندہ کرےجو نورایمان سے تعمیر سیرت کرے کہ نسل نو اسوہ حسنہ کی عملی تفسیر ہوں، تخلیقی اورپیشہ ورانہ تعلیم و تربیت پربھرپور توجہ دی جائے، والدین خاص طور پر خصوصی توجہ دیں اپنی اولاد پر، بےحیائی کی پرزور مذمت ہو، روزگار کے مواقع زیادہ فراہم کیےجائیں، دشمن کی ہر چال پرکڑی نگاہ ہو، جدید ٹیکنالوجی پر عبور، جدید علوم کی تعلیم حاصل کرنےکی ضرورت ہے۔اخلاقی اور مذہبی تربیت کامنظم اہتمام کیاجائےاورسب سے بڑھ کراللہ اور رسول ﷺ کی صحیح اطاعت کی جائے۔اگرآج بھی اس تباہی کو نظراندازکیا گیا۔آج کی خاموشی مجرمانہ خاموشی ہوگی۔ بحیثیت مسلمان ہمارا ایمان ہےکہ یہی زندگی اصل زندگی نہیں بلکہ اصل اور ابدی زندگی تو آخرت کی زندگی ہےتو عقلمندی کا تقاضا ہے،ایمان کا تقاضا ہےکہ اپنی ابدی زندگی کی فکرابدی کامیابی کی فکرتمام فکروں پر غالب ہو۔ہم حریص ہوں، ہم متلاشی ہوں صرف اور صرف اللہ رب العزت کی رضامندی کے اور یہی محبت کا تقاضا ہے۔

آئیں اللہ سے توبہ کرتے ہوئےامت مسلمہ کی حفاظت اتحاد اور استقامت کی دعا کریں، اللہ ہم سب کو دین اسلام کی نعمت کی قدر کرنے اورعمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔