دین سے دوری دنیا و آخرت میں نقصانات اور خسارے کا باعث ہے،دین سے دوری کی صورت میں بد اخلاقی، بد کرداری اور نتیجتاً برا انجام کا بھی سامنا کرنا پڑے گا۔ قرآن پاک میں اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: وَ مَاۤ اُبَرِّئُ نَفْسِیْۚ-اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَةٌۢ بِالسُّوْٓءِ اِلَّا مَا رَحِمَ رَبِّیْؕ-اِنَّ رَبِّیْ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵۳) (پ 13، یوسف: 53) ترجمہ کنز الایمان: اور میں اپنے نفس کو بےقصور نہیں بتاتا بےشک نفس تو برائی کا بڑا حکم دینے والا ہے مگر جس پر میرا رب رحم کرے بےشک میرا رب بخشنے والا مہربان ہے۔

احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں:

ایک روایت میں حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: رسول اللہ ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے: اے اللہ! میں اس علم سے جو نفع نہ دے، اس دل سے جو تجھ سے ڈرتا نہ ہو، اس نفس سے جو سیر نہ ہوتا ہو اور اس دعا سے جو قبول نہ ہو تیری پناہ مانگتا ہوں۔ (ابن ماجہ، 1/ 92، حدیث: 250)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: تلاش سے علم میں اضافہ ہوتا ہے اور علم میں مہارت سوال سے ہوتی ہے، توجس کا تمہیں علم نہیں اس کے بارے میں سیکھو اور جو کچھ جانتے ہو ا س پر عمل کرو۔ (جامع بیان العلم وفضلہ، ص 122، حدیث: 402)

ایک مرتبہ حضرت فتح موصلی رحمۃ اللہ علیہ نے حاضرین سے استفسار فرمایا: جب مریض کو کھانے پینے اور دواء سے روک دیا جائے تو کیا وہ مر نہیں جاتا؟ لوگوں نے عرض کی: جی ہاں۔ تو آپ نے فرمایا: یہی معاملہ دل کا ہے جب اسے تین دن تک علم و حکمت سے روکا جائے تو وہ بھی مر جاتا ہے۔ (لباب الاحیاء، ص 24)

دین سے دوری کی وجوہات: غفلت،جہالت، دنیا کی ہوس رغبت، لالچ، دنیا کی اندھی محبت اور غیروں کی تقلید نے دین سے دور بہت دور کر دیا ہے۔

دین سے دوری کی چند اور اہم وجوہات یہ بھی ہیں:

دینی تعلیمات کو نظر انداز کرنا اور اپنی زندگیوں میں ان کی پیروی نہ کرنا۔ اپنی خواہشات کے پیچھے چلنا اور اپنے دین کو نظرانداز کرنا۔ دینی علم اور حکمت کی کمی۔ دنیا کے لالچ اور فریب میں پڑنا۔ برے کاموں اور گناہوں میں پڑنا۔ آخرت کی فکر نہ کرنا۔ دینی تعلیم اور تربیت کی کمی۔ معاشرتی دباؤ۔

یہ وہ وجوہات ہیں جو لوگوں کو دین سے دور کرتی ہیں۔ اگر ہم اپنی زندگیوں میں دینی تعلیمات کو اپنائیں اور ان پرعمل کریں، تو ہم اپنے دین کے قریب رہ سکتے ہیں اور اپنی زندگیوں کو بہتر بنا سکتے ہیں۔