سنت کی اہمیت

Sun, 12 Apr , 2020
4 years ago

دنیا میں جب کسی انسان کو کسی سے محبت ہوتی ہےتو وہ اپنے محبوب کی اداؤں کو اپنانے کی کوشش کرتا ہے اور ہر اس کام سے بچتا ہے جس میں محبوب کی ناراضگی ہو،ہمیں بھی میٹھے میٹھے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بے انتہا محبت ہےہمارے پیارے پیارے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی مبارک اداوں کو سنت کہتے ہیں ایک طرف تو ہم محبتِ مصطفی کا دعویٰ کرتے ہیں اور دوسری طرف سنتِ مصطفی کو چھوڑکر فیشن کے متوالے نظر آتے ہیں، حالانکہ سنت کی اہمیت و فضیلت پر مشتمل متعدد آیات مبارکہ قرآن مجید میں جگما رہی ہیں۔چنانچہ رب ذوالجلال عروجل ارشاد فرماتا ہے؛

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)

تَرجَمۂ کنز الایمان: اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے (آل عمران ۔21)

اوراور مقام پر ارشاد رحمن عزوجل ہے:

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ- تَرجَمۂ کنز الایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا

قرآن کریم میں جہاں پروردگار عزوجل اپنے محبوب کی اطاعت کو اپنی اطاعت فرمارہا ہے، تو وہیں رسول پاک صاحبِ لولاک صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے عطا کردہ مدنی پھول بصورت احادیث کتب احادیث کو مہکا رہے ہیں۔

رسولِ مقبول گلشن آمنہ کے مہکتے پھول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔

من احب سنتی فقد احبنی و من احبنی کان معی فی الحبتہ

یعنی جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرےساتھ ہوگا۔

رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بے مثال محبوب رحمن عزوجل نے ارشاد فرمایا:من تمسک بسنتی عند فساد الامتی فلہ اجرمائۃ شہید

یعنی فساد ِ امت کے وقت جو شخص میری سنت پر عمل کرے گا اسے سو شہیدوں کا ثواب عطا ہوگا۔

ہدایت کے درخشندہ ستارے آسمان صحابیت کےتارے صحابہ کرام کی زندگی سنتوں پر عمل کی خوشبوؤں سے معطر و معنبر ہے۔

حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا سنت پر عمل :

صحابی رسول گلشن صحابیت کے مہکتے پھول ، ذوالنورین حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ ایک بار وضو فرمانے کے بعدمسکرائے اور فرمایا کہ ایک بار نبی کریم رسول عظیم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بھی وضو فرمانے کے بعد مسکرائے تھے۔

شہزاد ی کونین فاطمہ زاہر ہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکا سنتوں پر عمل :

محبوبہ محبوب رب العلمین شہزاد ی المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرما تی ہیں کہ میں نے چال ڈھال شکل و صورت انداز گفتگو اور اٹھنے بیٹھنے کے انداز میں شہزادی نبی جگر پارہ رسولِ عربی گلشنِ رسالت کی خوشبودار کلی فاطمہ زہرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے بڑھ کرکسی کو حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے مشابہت رکھنے والا نہ پایا۔

فرمانِ صحابہ سے فیضیاب آسمانِ والایت کے ماہتاب سلسلہ آفتابِ قادریت حضرت جنید بغدادی رحمہ اللہ علیہ نے ایک موقع پر فرمایا:کیا میں اپنے محبوب کی سنتوں پر عمل نہ کروں۔

سنت پر عمل کرنےکے بے شمار دینی اور دنیاوی فوائد ہیں:

سنت پر عمل کرنے سے ربِ کریم عزوجل کی رضا حاصل ہوتی ہے۔

سنت پر عمل کرنا جنت میں سرکار مدینہ راحتِ قلب و سینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے قرب کا ذریعہ ہے۔

سنت پر عمل کرنا اندھیری قبر کا چراغ ہے۔

سنت پر عمل کرنے سے شیطان کو رنج پہنچتا ہے

نوٹ:یہ مضامین تحریری مقابلہ کے تحت لکھے گئے ہیں، تاکہ طلبہ و طالبات میں تحریر کا شوق و جذبہ پیدا ہوا، کسی بھی خاص عمل کو سنّت قرار دینے کے لئے علمائے اہل سنت سے رابطہ کیا جائے نیز مکتبۃ المدینہ کی کتاب”سنتیں اور آداب“ کا مطالعہ کیا جائے۔

سنت کی اہمیت

Sun, 12 Apr , 2020
4 years ago

درود پاک کی فضیلت

سرکارِ ابدقرار صاحب نور بار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد خوشبودار ہے، قیامت کے روز جب کہ عرش کے سوا کوئی سایہ نہ ہوگا تین طرح کے لوگ عرش کے سائے میں ہوں گے، عرض کیا گیا وہ کون لوگ ہوں گے؟ ارشاد فرمایا، (۱) وہ شخص جو میرے امتی کی پریشانی دور کرے۔۲۔ میری سنت سے محبت کرنے والا میری سنت کو زندہ کرنے والا۔۳۔ اور مجھ پر کثرت سے درود پڑھنے والا

حدیث پاک کا مفہوم :

رسول اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔

کامران اور کامیاب وہ شخص ہے جو سنت و واجبات فرائض کے ساتھ نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنالے کیونکہ فلاحِ دارین کا جو وظیفہ حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی امت کو خاص طور پر عطا فرمایا وہ یہ ہے کہ فتنوں کے زمانے میں سنت کو مضبوطی سے تھام لیں۔

سنت کی اہمیت :

ایک مسلمان اور سرکار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سچے غلام ہونے کے ناطے لازم ہے کہ ہم اپنے آقا علیہ السَّلام کی سنتوں کو مضبوطی سے عمل پیرا ہوں اور آپ علیہ السلام کی پیاری پیاری سنتوں کو عمل کرنے کے ذریعے خوب عام کریں، کیونکہ آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے طریقوں پر عمل کرنا ہی ہمارے لیے ترقی درجات کا زینہ ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے ْ۔لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ترجمہ ، بے شک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے( احزاب ،21)

نماز قائم کرو قرآن نے تو حکم دیا مگر یہ ذکر تو نہیں کیا کہ رکوع اور سجود دعائیں کون سی کرنی ہے، قرآن نے یہ حکم تو دے دیا زکوة ادا کرو، مگر یہ تو بیان نہیں کہا کہ نصاب کتنا ہوگا، قرآن نے یہ تو حکم دیا، حج ادا کرو مگر یہ تفسیر تو نہیں بتائی منیٰ میں کتنی راتیں گزارنی ہے عرفات میں کون سے کام سر انجام دینے ہیں یہ سب رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بتائے وہ کتاب بھی اللہ کی بارگاہ میں قبول نہیں جس میں آپ کے فرامین کی روشنی نہ ہو۔

سنت کی اہمیت

Sun, 12 Apr , 2020
4 years ago

حدیث شریف :علیکم بسنتی ۔ ترجمہ: تم پر میری سنت لازم ہے

امیر المومنین حضرت عمر بن عبدالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کتنی سنتیں زندہ فرمائیں اس پر ان کی مدح ہوئی نہ کہ الٹا اعتراض ، تو تم سے پہلے تو صحابہ محتاطین تھے، رضی اللہ تعالٰی عنہم

چار چیزیں سنت ہیں:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: چار چیزیں انبیا کرام کی سنت ہیں۔

۱۔ختنہ ۲۔ خوشبو کا استعمال۔۳۔ نکاح اور مسواک کرنا

سوال۔ چاہیے کہ نماز فرض ہی پڑھی جائے سنتوں کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ متقی بننے کے لیے فرض نماز کی پابندی کافی ہے۔

جواب ۔ اسی سوال کی تقسیم یہ ہے کہ سنتوں کے بغیر فرض ناقص ہیں بلکہ بغیر سنت فرض ادا ہوسکتے ہی نہیں سنت کو فرض سے وہ تعلق ہے جو پانی کو کھانے سے ہے، کہ بغیر پانی نہ تو کھانا تیار ہوتا ہے اور نہ کھایا جاتا ہے اسی طرح بغیر سنت فرض ادا نہیں ہوسکتا ہے دیکھو مثلا روٹی ہے ، بغیر پانی بنتی بھی نہیں اور کھائی بھی نہیں جاتی، کھیت بھی گہوں پانی سے تیار ہوا، پھر آٹا پانی سے گوندھا گیا، جب کھانے کے لیے بیٹھے تو ساتھ پانی پیا گیا، جس ترکاری سے روٹی کھائی وہ بھی کھیت میں پانی سے تیار ہوئی پھر پانی ہی سے دھلی اور پانی ہی سے پکی اسی طرح فرض سنت سے حاصل ہوتا ہے اور پھر کوئی فرض نماز ایسی نہیں جس میں سنت نہ ہو، لیکن سنت مصطفی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہی ہے جو دنیا میں ہمیں اپنے دامن میں لیتی ہے اور مرنے کے بعد بھی ۔

نوٹ:یہ مضامین تحریری مقابلہ کے تحت لکھے گئے ہیں، تاکہ طلبہ و طالبات میں تحریر کا شوق و جذبہ پیدا ہوا، کسی بھی خاص عمل کو سنّت قرار دینے کے لئے علمائے اہل سنت سے رابطہ کیا جائے نیز مکتبۃ المدینہ کی کتاب”سنتیں اور آداب“ کا مطالعہ کیا جائے۔

سنت کی اہمیت

Sun, 12 Apr , 2020
4 years ago

آقا کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا، جس نے میری سنت سے منہ موڑا وہ مجھ سے نہیں ، ایک اور جگہ ارشاد فرمایا جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔

نبی رحمت،شفیع امت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں میں بے شمار حکمتیں ہیں، آئیے سائنس کی روشنی میں سنت کی حکمتیں ملاحظہ کرتے ہیں۔

پانی بیٹھ کر پینا سنت ہے او راس کی حکمت یہ ہے کہ پانی دونوں گردوں میں جاتا ہے، کھڑے ہو کر پینے سے ایک گردے میں جاتا ہے، جس سے دوسرا گردا فیل ہونے کا اندیشہ ہے۔

وضو کرنے کی 14 سنتیں ہیں، ان میں سے تین سنتیں ہیں، (۱) دونوں ہاتھ دھونا۔ (۲) کلی کرنا۔(۳) ناک میں پانی چڑھانا

اس کی حکمت یہ ہے کہ اگر پانی کا رنگ ، ذائقہ اور بو تبدیل ہو تو اس پانی سے وضو درست نہیں۔ہاتھ دھونے سے پانی کا رنگ معلوم ہوگا، کلی کرنے سے پانی کا ذائقہ معلوم ہوگا اور ناک میں پانی چڑھانے سے بو معلوم ہوگی، اب اگر پانی درست ہوگا تو فرض ادا کریں گے یعنی چہرہ دھوئیں گے،

مسواک کرنا بھی آقا کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیاری سنت ہے۔مسواک کرنے کے بہت سے فضائل ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں، مسواک کرنے سے بلغم دور ہوتی ہے، مسواک عقل بڑھاتی ، آنکھوں کو بینائی (روشنی) تیز کرتی ہے، سب سے بڑا فائدہ کہ اس سے اللہ کی رضا حاصل ہوتی ہے۔

سلام کرنا حضرت آدم علیہ السلام کی سنت ہے مصافحہ کرنا سنتِ صحابہ علیہمُ الرِّضوان اور سنتِ رسول ہے، ٹھہر ٹھہر کر بات کرنا بھی سنتِ سرکار ہے جمعرات کو سفر کی ابتدا کرنا بھی سنت ہے ، آقا کریم علیہ السلام کا فرمان ہے۔ رات کو سفر کرو کیونکہ زمین لپیٹ دی جاتی ہے۔

سرمہ لگانا بھی ہمارے آقا کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیاری پیاری سنت ہے، اسلامی بھائیوں کے لیے سر کے بیچ میں مانگ نکالنا بھی سنتِ رسول ہے، عمامہ شریف بھی ہمارے آقا کی پیاری پیاری سنت ہے، عمامہ شریف باندھنے سے سر میں درد نہیں ہوتا۔

مہمان کو دروازے تک رخصت کرنا بھی ہمارے آقا کی پیاری پیاری سنت ہے، جمعہ کے دن غسل کرنا نئے کپڑے پہننا، خوشبو لگانا، مسواک کرنا، بالوں میں تیل لگانا بھی سنتِ رسول ہے۔

محمد کی سنت کی الفت عطاکر

میں ہوجاؤں ان پر فدا یا الہی

میں سنتوں کی دھومیں مچاتار ہوں کاش

تو دیوانی ایسی بنا یا الہی

یا ربِ مصطفی ہمیں اپنے پیارے حبیب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صدقے سنتوں پر پابندی سے عمل کرنے کی توفیق عطا فرما۔ امین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ:یہ مضامین تحریری مقابلہ کے تحت لکھے گئے ہیں، تاکہ طلبہ و طالبات میں تحریر کا شوق و جذبہ پیدا ہوا، کسی بھی خاص عمل کو سنّت قرار دینے کے لئے علمائے اہل سنت سے رابطہ کیا جائے نیز مکتبۃ المدینہ کی کتاب”سنتیں اور آداب “ کا مطالعہ کیا جائے۔


سنت کی اہمیت

Sun, 12 Apr , 2020
4 years ago

سنت کے معنی و مفہوم اور اس کی تعریف:

سنت کے لغوی معنی طریقہ کاراور طرزِ عمل ہے خواہ اچھا ہو یابرا، محدثین کی اصطلاح میں نبی اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے جو بھی آپ کاقول، فعل یا بیان سکوتی، نیز آپ کی زندگی کی کوئی بھی جسمانی صفت یا اخلاقی کیفیت یا سیر و فضیلت خواہ آپ کی بعثت سے پہلے کی ہویا بعد کی نقل کی گئی اس کو سنت کہتے ہیں۔

علمائےاصول کے نزدیک سنت کی تعریف:

ہر اس قول و فعل بیان کو سنت کہتے ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی ذات گرامی کی طرف منسوب کرکے نقل کیا گیا ہو اور اس سے کوئی حکمِ شرعی ثابت ہوتا ہو، پھر آگے علما نے حدیث کی دو قسمیں ذکر کی ہیں۔قولی اوردوسری فعلی۔

حدیث قولی : حدیث قولی کہتے ہیں احکامِ شرعیہ کے معاملے میں مختلف اوقات میں مختلف مواقع پر جو کبھی آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، وہ سب سنتِ قولی میں داخل ہیں۔

حدیث فعلی : اور حدیث فعلی عبادات وغیرہ کی کیفیت سے متعلق رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وہ تمام افعال اور اعمال جو صحابہ کرام نےآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے بیان کیے ہیں، سنت فعلی کہلاتے ہیں، جیسے نمازروزے کی کیفیت وغیرہ۔

فقہائے امت نے حدیث اور سنت کی تعریف ایک ہی طرح کی ہے اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ہر عمل امت مسلمہ کے لیے سنت کا درجہ رکھتا ہے، آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی پوری زندگی اسوہ حسنہ سے ایک مکمل شخصیت اسی وقت وجود میں آتی ہے جب آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی اتباع کی جائے۔

اتباع سنت کی اہمیت اور فضیلت :

زندگی میں کسی بھی چیز کی پیروی کرنے کے لیے ایک مکمل شخصیت کا نمونہ(رول ماڈل کے طور پر ) ہونا ضروری ہے، آج تک جس شخص نے بھی کوئی نظریہ پیش کیاسب سے پہلے اس کے مطابق زندگی گزارنے کی کوشش کی تب کہیں جا کر لوگوں نے ان کے افکار کو قبول کیا۔انبیائے کرام علیہم السلام تو انسانوں کی ہدایت ، فلاں و کامیابی کے لیے اس دنیا میں تشریف لائے ان کی زندگی تمام کی تمام وحی کی تعلیمات کے مطابق ڈھلی ہوتی ہے۔رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیروی اس صورت میں ہوسکتی جب ہم قرآن و حدیث دونوں کو ساتھ ملائیں۔

وَ كَیْفَ تَكْفُرُوْنَ وَ اَنْتُمْ تُتْلٰى عَلَیْكُمْ اٰیٰتُ اللّٰهِ وَ فِیْكُمْ رَسُوْلُهٗؕ

تَرجَمۂ کنز الایمان: اور تم کیونکر کفر کرو گے تم پرتو اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور تم میں اس کا رسول تشریف فرماہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو جو تعلیمات دیں ان میں بھی بڑے واضح الفاظ میں اپنی پیروی کوامت کے لیے لازم قرار دیا ۔حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، فعلیکم بسنتی و ستۃ الخلفا الراشدین المھدین

ترجمہْ۔ تمہارے اوپر میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفائے راشدین کی سنت لازم ہے ۔

آئیے ہم سب مل کر یہ عہد کریں کہ اپنے پیارے نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیاری پیاری سنتوں پر عمل پیرا ہو کر اپنی دنیا اور آخرت کو سنواریں، جزاکم اللہ خیرا۔

سنت کی اقسام: سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے طریقے دو اقسام کے تھے وہ یہ ہیں۔

1۔ سنن الہدیٰ : سنن الہدیٰ آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ان طریقوں کو کہتے ہیں جنہیں آپ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بطور عبادت اپنایا ہو۔

2۔سنن زوائد:سنن زوائد آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ان طریقوں کو کہتے ہیں جنہیں آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے بطور عادت اپنا یا ہو، جیسے ( سونا، جاگنا، کھانا، پینا اٹھنا، بیٹھنا وغیرہ وغیرہ )

سنت کی اہمیت قرآن پاک کی رو سے:اللہ عزوجل نے سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنت کی محافظت کا حکم ارشا دفرمایا، چنانچہ اللہ رب العزت پارہ ۲۸ سورہ الحشر کی آیت نمبر ۷ میں ارشاد فرماتا ہے: وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-

تَرجَمۂ کنز الایمان: اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو۔

نوٹ:یہ مضامین تحریری مقابلہ کے تحت لکھے گئے ہیں، تاکہ طلبہ و طالبات میں تحریر کا شوق و جذبہ پیدا ہوا، کسی بھی خاص عمل کو سنّت قرار دینے کے لئے علمائے اہل سنت سے رابطہ کیا جائے نیز مکتبۃ المدینہ کی کتاب”سنتیں اور آداب“ کا مطالعہ کیا جائے۔

سنت کی اہمیت

Sun, 12 Apr , 2020
4 years ago

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)

تَرجَمۂ کنز الایمان: اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ آل عمران ،31)

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ- تَرجَمۂ کنز الایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا ۔(النساء 80)

انسان کے زندگی گزارنے کے بہت سے طریقے ہیں ہر مذہب کا اپنا طریقہ ہے مگر مسلمانوں کے لیے زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ کیا ہے اس کی رہنمائی ہمیں قرآن عظیم نے فرمادیا:لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ تَرجَمۂ کنز الایمان: بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے (احزاب ،21)

معلوم ہوا کہ سرکار دوعالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہر ہر ادا زندگی گزارنے کے سنہری اصول ہیں، آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی زندگی سارے عالم کے لیے عملی نمونہ ہے، دنیا میں کوئی ایسی ہستی نہیں جن کے اقوال و اطوار ہر ہر لمحہ قلم بند ہوں ، یہ شان صرف تاجدار رسالت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہر ہر اد ابے مثال ہے ہر ادا میں فائدہ اور سارے عالم کے لیے حکمتوں کا خزینہ ہے۔

آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیاری اداؤں کو نہ صرف صحابہ کرام لکھ لیتے بلکہ اس پر کمال یہ تھا کہ پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہر ادا کو اپنانے کی کوشش فرماتے۔سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنت فلاح کا راستہ ہے ، ہدایت کانور ہے کامیابی اورکامرانی کی طرف جانے کا راستہ ہے ، قربِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کاذریعہ ہے دعویٰ محبت کی دلیل ہے۔

آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سنت پر عمل کرنے کے خود بے شمارفضائل بیان فرمائے ہیں۔

مثلاآپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فرمانِ عالیشان کا مفہوم ہے جس نےمیری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔(مشکوة المصابیح ، کتاب الایمان باب الاعتصام بالکتاب والسنہ) اسی طرح درس سنت دینا بھی بہت فضیلت کا باعث ہے۔

سرکار مدینہ ، راحت ِ قلب و سینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جو شخص میری امت تک کوئی اسلامی بات پہنچائے تاکہ اس سے سنت قائم کی جائے، یا اس سے بدمذہبی دور کی جائے تو وہ جنتی ہے۔(حلیۃ الاولیا1436 )

اسی طرح ایک حدیث پاک میں ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے : فساد امت کے وقت جس نے میری ایک سنت کو زندہ کیا اسے سوشہیدوں کا ثواب ملے گا۔

حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے سرکار اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے میری کسی سنت کورواج دیاجو میرے بعد متروک ہوگئی تھی تو اس کو سنت پر عمل کرنے والوں کے برابر ثواب ملے گا، عمل کرنے والوں کے ثواب میں کسی قسم کی کمی کیے بغیر اور کسی نے کوئی گمراہی میں ڈالنے والی چیز گڑھی جس سے نہ اللہ راضی ہو اور نہ اس کا رسول تو اس کو عمل کرنے والوں کے مجموعی گناہوں کے برابر گناہ ملے گا، ان کے گناہوں میں کسی قسم کی کمی کیے بغیر ۔(ترمذی شریف، ابن ماجہ شریف)

حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرکار ِ اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے تھامے رہنا اور سختی سے اس پر کاربند رہنا اور نئی گڑھی باتوں سے بچتے رہنا کیونکہ ہر نئی گڑھی ہوئی بات بدعت ہے اوربدعت گمراہی،(ترمذی ، ابن ماجہ)

یہاں ایک نکتہ یاد رہے کہ بدعت سے مراد بدعت سیئہ ہے بدعت حسنہ کی ممانعت نہیں ہے۔جیساکہ دوسری روایت میں بدعت حسنہ یعنی اچھا طریقہ ایجاد کرنے والے کو عمل کرنے والوں کی مثل ثواب ملتا ہے،اسی طرح بخاری شریف کی حدیث مبارکہ 2179 ہے: عبدالعزیز بن عبداللہ لیث، حضرت ابولیث سعید حضرت ابوہریرہ نبی اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہر نبی کو جس قدر آیات دی گئی ہیں اسی قدر ان پر ایمان لایا گیا اور مجھے تو وحی دی گئی ہے، جو اللہ تعالیٰ نے میری طرف بھیجی ہے اس لیے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میری پیروی کرنے والے لوگ بہت زیادہ ہوں گے۔

بخاری شریف کی ایک اور حدیث پاک کا مفہوم ہے حدیث نمبر 2177:اسماعیل مالک عبداللہ بن دینار سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے عبدالملک بن مروان کے پاس بیعت کا خط بھیجا کہ جس قدر مجھ سے ہوگا اللہ او اس کے رسول کی سنت پرسننے اور اطاعت کرنے کا ا قرار کرتا ہوں۔

اسی لیے صحابہ کرام سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہرہر ادا کو اپنانے کی کوشش کیا کرتے تھے اور ہمارے اسلاف کا یہی طریقہ کار رہا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر کا م کوسرکار صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق گزارنے کی کوشش کیا کرتے۔ انسان کو روزمرہ زندگی میں بہت سے کام کرنے ہوتے ہیں جیسے کھانا پینا سونا جاگنا میل جول ، شادی ، غمی لباس پہننا اتارنا سفر کرنا، اور دیگربے شمار کام اگر ایک مسلمان ہر کام سنت کے مطابق کرے گا اس کا وہ کام بھی ہوجائے گا اور سنت پر عمل کرنے کا ثواب بھی حاصل ہوگا، اور جو بھی کام سنت کے مطابق کیا جائے اس کام میں برکت ہوتی ہے۔ ہمارے صحابہ کرام علیہم الرضوان اور اسلاف کرا م تو سنت پر عمل کرتے ہی آئے ہیں، مگر میرے آقا و مولی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے جو فرمایا اب جا کر اس پر تحقیق ہورہی ہے اور سائنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مسلمانوں کے نبی کی ہر ادا میں کمال اور حکمت ہے۔

ایک سائنس دان نے یہاں تک لکھ دیا کہ مسلمانوں کو علاج کی کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ ان کے نبی کی تعلیمات پر عمل ان کے لیے بیماری سے شفا ہے پریشانیوں سے رہائی اور حکمتوں کا چشمہ ہے۔

آج کے اس پرفتن دور میں دعوت اسلامی کے مدنی ماحول میں بکثرت سنتیں سیکھی اور سکھائی جاتی ہیں، عشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے جام پلائے جاتے ہیں، بلاشبہ بانی دعوت اسلامی شیخ طریقت امیر اہلسنت کی ذاتِ مبارکہ سنت مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے آپ نے نہ صرف خود سنت پر عمل کیا بلکہ لاکھوں مسلمانوں کو سنت کا پیکر بنادیا اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ ہم پر سلامت رکھے اور ہمیں سنتو ں کا حقیقی پیکر بنائے۔ آمین

امیر اہلسنت اپنے مشہور زمانہ نعتیہ کلام کے ایک شعر میں بارگاہِ رسالت میں عرض کرتے ہیں:

تیری سنتوں پر چل کر میری روح جب نکل کر

چلے تم گلے لگانا مدنی مدینے والے

نوٹ:یہ مضامین تحریری مقابلہ کے تحت لکھے گئے ہیں، تاکہ طلبہ و طالبات میں تحریر کا شوق و جذبہ پیدا ہوا، کسی بھی خاص عمل کو سنّت قرار دینے کے لئے علمائے اہل سنت سے رابطہ کیا جائے نیز مکتبۃ المدینہ کی کتاب”سنتیں اور آداب“ کا مطالعہ کیا جائے۔


سنت کی اہمیت

Sun, 12 Apr , 2020
4 years ago

سنت کا لغوی معنی:

سنت کے لغوی معنی راستہ طریق ، طریق کار اور راہ عمل کے ہیں۔

اصطلاحی معنی :

نبی پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے افعال و اعمال کو سنت کہتے ہیں ، سنت کا لفظ قرآن مجید میں بھی آیا ہے

وَ قَدْ خَلَتْ سُنَّةُ الْاَوَّلِیْنَ(۱۳) تَرجَمۂ کنز الایمان:اور اگلوں کی راہ پڑچکی ہے ۔(حجر، ۱۳ )

محدثین کے ہاں یہ لفظ اصطلاحی طور پر درج ِ ذیل معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

۱۔اس کا تعلق نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت سے ہے

۲۔یہ لفظ عام طور پر حدیث کے مترادف کے طور پر استعمال ہوتا ہے

۳۔کبھی کبھی یہ لفظ بدعت کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے۔

۴۔ کبھی سنت کی اصطلاح اس امر کے لیے استعمال ہوتی ہے جس کی دلیل حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے طرز عمل میں موجود ہو۔

سنت کا اطلاق صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے عمل پر بھی ہوتا ہے۔

اس سلسلے میں ارشاد نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے:میری سنت اور میرے خلفائے راشدین کی سنت کی پیروی تم پر لازم ہے۔

سرکارِ مدینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:اللہ عزوجل کا ایک فرشتہ ہر روز یہ اعلان کرتا ہے جس نے سنت رسول کی مخالفت کی اسے آپ کی شفاعت نصیب نہ ہوگی۔(قوت القلوب ۲ ص ۷۳)

حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا :

من احب سنتی فقد احبنی ومن احبنی کان معی فی الجنۃ

جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ (جامع ترمذی ، کتاب العلم ، الحدیث ۲۶۸، ج ۴، ص ۳۰۹)

من تمسک بسنتی عند فساد امتی فلہ اجر مائۃ شہید

یعنی فساد امت کے وقت جو شخص میری سنت پر عمل کرے گا اسے سو شہیدوں کا ثواب عطا ہوگا۔

(کتاب الزھدا لکبیر الامام ، الحدیث ۲۰۷ ج ۱)

سینہ تیری سنت کا مدینہ بنے آگا

جنت میں پڑوسی مجھے تم اپنا بنانا

نوٹ:یہ مضامین تحریری مقابلہ کے تحت لکھے گئے ہیں، تاکہ طلبہ و طالبات میں تحریر کا شوق و جذبہ پیدا ہوا، کسی بھی خاص عمل کو سنّت قرار دینے کے لئے علمائے اہل سنت سے رابطہ کیا جائے نیز مکتبۃ المدینہ کی کتاب”سنتیں اور آداب“ کا مطالعہ کیا جائے۔

سنت کی اہمیت

Sun, 12 Apr , 2020
4 years ago

مختصر سی میری کہانی ہے

جو بھی ہے انہی کی مہربانی ہے

جتنی سانسوں سے نام لیا ہے ان کا

یہی میری زندگانی ہے

حمد اسی پروردگار عالم کولائق ہے جس نے امرکن سے تمام جہان پیدا فرمایا ایک مشت خاک سے انسان بنایا او را للہ جل جلالہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں اشرف المخلوقات انسان پیدا فرمایا اور پھر اس مالک ملک کا یہ بھی احسان ہے کہ اس نے ہمیں اپنےحبیب پاک صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی عظیم امت میں پیدا فرمایا اور اس وقت بھی اللہ کا کرم ہے کہ ہمیں یہ توفیق بخشی کہ ہم اللہ کا ذکر رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذاتِ بابرکت پر درود و سلام اور اللہ کی بارگاہ کی طرف متوجہ رہنا یہ ہمیں نصیب ہے، جو ضابطہ حیات بندوں کے لیے حضور علیہ السلام نے قائم فرمایا ہے اس سے مسلمان دور ہیں جس وجہ سے اضطراب ہے جب مسلمان سنتوں کے قریب ہوگا جب اس میں رسول اللہ کی سنت آئے گی حضور کی اتباع آئے گی اور صحیح معنوں میں حضور کی تعلیمات پر عمل ہوگا تو پھر کوئی اضطراب نہیں، یہ ہی وجہ ہے اللہ والے اور مقبولانِ بارگاہ جن کی زندگیاں حضور کی سنت کے مطابق گزریں حضور کی اتباع میں گزریں، وہ فرماتے ہیں: بندگی کے لیےسب سے بڑا زیور حضور کی سنت ہے۔فرمانِ باری ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ تَرجَمۂ کنز الایمان: بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے (احزاب ،21)

اسوة حسنہ:

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ دنیائے انسانیت کے لیے نمونہ ہے حضور کی سنت آپ کا قول آپ کاہر عمل اہل اسلام کے لیے برہان ربانی ہے وہی عبادت اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہوگی جس میں حضور کی اتباع کی گئی ہوگی، اور بہترین راستہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا راستہ ہے۔

حدیث شریف:حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو میری سنت سے محبت کرے اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا(ترمذی)

سنت کی اہمیت:ہرعبادت کے لیے حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی حیاتِ طیبہ ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے، سنتِ مبارکہ سے واقفیت تامہ حاصل کیجئے اور اس پر عمل کیجئے جیسا کہ عمل کرنے کا حق ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی فرمانبرداری کا طوق گلے میں ڈالے رکھو۔ اور ہر کام حضور کی سنت کے مطابق کیجئے کھانا سنت کے مطابق کھائیے، پانی سنت کے مطابق پیجئے، گفتگو کریں تو سنت کے مطابق نظریں جھکا کے کیجئے اور جوتے پہنیں تو سنت کے مطابق اگر آپ ہر کام سنت کے مطابق کریں گے تو ساتھ کام بھی ہوجائے گا اور حضور علیہ الصلوة والسلام کا فیض بھی نصیب ہوگا۔

حضرت مجدد الف ثانی شیخ سر ہندی فاروقی علیہ الرحمہ کا فرمان:

حضرت مجدد الف ثانی شیخ سرہندی فاروقی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں جب میں فرض نماز پڑھتا ہوں ، نیت فرض کی کرتا ہوں مگر دل میں یہ خیال ہوتا ہے کہ رسول اللہ نے بھی فرض ادا کیے ہیں، تو ساتھ فرض بھی ادا ہوجاتا ہے اور رسول اللہ کی سنت کا بھی فیض ملتا ہے۔

اللہ والوں کا فیض کیا ہے؟اللہ والوں کا فیض یہ ہے کہ ان کی صحبت میں بیٹھ کر رسول اللہ کی محبت میں رونا آجائے اللہ کی محبت میں روئے ، دین کی طلب پیدا ہو ، یہ ہے اللہ والوں کا فیض ۔

زندگی میں تبدیلی کیسے آئےَ؟

تبدیلی اس طرح اس کے اندر رسول اللہ کی سنت قائم ہوجائے حضور کی اتباع اس کے اندر نظر آئے پہلے اگر وہ ایک نماز باجماعت پڑھتا تھا اب پانچ نمازیں باجماعت پکی ہوجائیں، آپ کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ سعادت ِ ابدی و عزت سرمدی انسان کے لیے خداوند جلا وعلی کی محبت کے ساتھ وابستہ ہے، اور اس دولت و خلعت کا محل حضرت سید المرسلین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلم کی سنت کی متابعت پر موقوف ہے، کہ خدا کی راہ میں ایک مرتبہ شہید ہوجانے کا کس قدر ثواب ہے لیکن جس وقت امت میں خرابیاں پھیل جائیں سنتوں کی جگہ بدعات اور غیر مسلموں کی راہ وروش جنم لے کر گھر اور کے گھر بلکہ معاشرے فیشن کے نام پر سنتوں کو پامال کرتے ہونگے ، سنت سید الکونین صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر چلنے اور چلانے والوں کی تضحیک کی جا رہی ہو یعنی مذاق اڑایا جارہا ہو تو ایسا آدمی اس وقت باہمت و با ایمان سربکف ہو کہ اس میدان کا ر ساز میں سنتوں پر عمل کرکے ان کو زندہ کرے گا۔اس کو رب عزوجل کی طرف سے سو شہیدوں کا ثواب عطا کیا جائے گا۔۔ اللہ ہمیں حضور کی سنتوں کا پیکر بنائے۔(امین)

نوٹ:یہ مضامین تحریری مقابلہ کے تحت لکھے گئے ہیں، تاکہ طلبہ و طالبات میں تحریر کا شوق و جذبہ پیدا ہوا، کسی بھی خاص عمل کو سنّت قرار دینے کے لئے علمائے اہل سنت سے رابطہ کیا جائے نیز مکتبۃ المدینہ کی کتاب”سنتیں اور آداب“ کا مطالعہ کیا جائے۔


سنت کی اہمیت

Sun, 12 Apr , 2020
4 years ago

سنت دینِ اسلام کی بنیاد اور مصدر کی حیثیت رکھتی ہے ۔

سنت کی تعریف:

نبیِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قول ،فعل،تقریر اور خبروں کا نام ’’سنت‘‘ ہے ۔(نزھۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر،صفحہ 41،مطبوعہ دارالمنھاج القویم،دمشق)

جس کے بارے فرمانِ خدا ہے: تَرجَمۂ کنز الایمان: ’’اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز رہو۔‘(تحت رقم الآیۃ،سورۃ الحشر:آیۃ7)

سنت قرآن کی تشریح ہے:

قرآنِ مجید نبیِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کاوہ عظیم معجزہ ہے،جو تمام عالَم میں ہدایتِ حق کا اعلان کرتا ہے۔ اسی قرآن کی تفصیل و تشریح کے لیے آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سنت دی گئی۔فرمانِ خداہے: تَرجَمۂ کنز الایمان: ’’اور ہم نے تم پر یہ کتاب نہ اتاری مگر اس لیے کہ تم لوگوں پر روشن کردو جس بات میں اختلاف کریں ۔(تحت رقم الآیۃ،سورۃ النحل:آیۃ64)

اس کے علاوہ کثیر آیاتِ سے واضح ہے کہ قرآن مجید کے ساتھ سنتِ رسول کامقام ایک تفسیر و تشریح حیثیت رکھتا ہے۔

سنت کے بغیر قرآن پر عمل ممکن نہیں:

ان کے علاوہ کئی وجوہ ہیں جو قرآن پر مکمل عمل کرنے کے لیےسنتِ رسول کی محتاجی کو واضح کرتی ہیں۔چنانچہ حضرت خطیب بغدادی علیہ الرَّحمہ روایت فرماتے ہیں:حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالٰی عنہ ،اپنے اصحاب کے ساتھ تشریف فرماتھےکہ ایک شخص یوں عرض گزار ہواکہ ’’ہمیں فقط قرآن سنائیے۔‘‘آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا:’’قریب آؤ‘‘،وہ قریب ہواتو فرمایا:’’بتاؤ کہ اگر تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو قرآن دیا جائے تو کیا تم اس میں ظہر وعصر کی چارچار رکعات پا لوگے؟کیامغرب کی تین رکعات اور ان میں سے دومیں قرأت (کی مقدار) پالو گے؟کیا تم اس میں طوافِ کعبہ اورسعیِ صفاومروہ کے سات سات چکر پالو گے؟‘‘،پھر فرمایا:’’اے قوم! ہم سے (احادیث) لے لو،اللہ کی قسم! اگر تم نے ایسا نہ کیاتو ضرور گمراہ ہوجاؤ گے۔‘‘( کتاب الکفایۃ فی علم الروایۃ،لخطیب بغدادی،صفحہ15،دارالمعارف،ھند۔)

سنت پر عمل حکمِ قرآنی ہے:

کثیر آیات صراحت سے سنت پر عمل کے وجوب کوبیان کرتی ہیں۔قرآن میں ہے: تَرجَمۂ کنز الایمان: ’’اور حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ہوشیار رہو۔‘‘ (تحت رقم الآیۃ،سورۃ المائدۃ:92)

سنت کی نافرمانی گمراہی ہے:

ایک گھرانے کی طرف رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک صحابی کےلیے پیغامِ نکاح بھیجا،تو انہوں نے اس صحابی سے رشتے کرنے کو منظور نہ کیا،تب یہ آیت نازل ہوئی ۔( صراط الجنان،جلد8،پارہ22،سورۃ الاحزاب،تحت رقم الآیۃ:36)

تَرجَمۂ کنز الایمان: ’’اور کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے کہ جب اللہ و رسول کچھ حکم فرمادیں تو اُنہیں اپنے معاملہ کا کچھ اختیار رہے اور جو حکم نہ مانے اللہ اور اس کے رسول کا وہ بےشک صریح گمراہی بہکا۔‘‘ (تحت رقم الآیۃ،سورۃ الاحزاب:آیۃ 36)

غور طلب امریہ ہے کہ یہ خالص ان کاگھریلو معاملہ تھا،جو خود شریعت نے ان کے حوالے کیا تھا۔مگر جب نبیِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رائے کے خلاف ہواتو قرآن نے اسے شدید مخالفت اورنافرمانی تصور کیا،اور اس پر اس گھرانے کو عتاب کیا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان امور کی اہمیت کا کیا عالَم ہوگا،جس میں آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت واتباع واجب ہے؟

سنت ہدایت کارستہ ہے:کثیر احادیث میں زندگی کے تمام امور میں ہر چھوٹے اوربڑے ،ادنیٰ اوراعلیٰ کو ہرحالت میں سنت سے ہدایت لینے کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔

حدیث میں ہے: ’’تم پر میری اور ہدایت یافتہ خلفاءِ راشدین کی سنت لازم ہے،اسے دانتوں سے مضبوط پکڑلو،نئی بات سے دور رہو کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔(‘‘ السنن لابی داؤد،باب فی لزوم السنۃ،صفحہ1169،حدیث4607،مطبوعہ دارِ ابنِ کثیربیروت)

سنت باعثِ اجر ہے:

رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود سنت پر ابھارا ہے ؛کیونکہ یہ اجر میں زیادتی کاباعث بنتی ہے۔حدیث میں ہے: ’’جس نے میری سنتوں میں سے کسی ایسی سنت کو زندہ کیا،جو میرے بعد مٹ چکی ہو،تو اس کو اس سنت پر عمل کرنے والوں کا بھی اجر ملے گا،بغیر ان عمل کرنے والوں کے اجر میں کسی کمی کے۔‘‘ (السنن للترمذی،کتاب العلم،باب ماجاء فی الاخذ بالسنۃ واجتناب البدع،صفحہ 986،حدیث 2677،مطبوعہ دار ابن کثیربیروت،)

اور فرمایا: ’’فسادِ امت کے وقت ،میری سنتوں کو مضبوطی سے تھامنے والے کے لیےسو شہیدوں کاثواب ہے۔(‘‘ المعجم الاوسط للطبرانی،جلد5،صفحہ315،حدیث5414،مطبوعہ دار الحرمین،القاہرہ )

اللہ پاک ہمیں نبیِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں پر عمل کا جذبہ عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ:یہ مضامین تحریری مقابلہ کے تحت لکھے گئے ہیں، تاکہ طلبہ و طالبات میں تحریر کا شوق و جذبہ پیدا ہوا، کسی بھی خاص عمل کو سنّت قرار دینے کے لئے علمائے اہل سنت سے رابطہ کیا جائے نیز مکتبۃ المدینہ کی کتاب”سنتیں اور آداب “ کا مطالعہ کیا جائے۔

سنت کی اہمیت

Sun, 12 Apr , 2020
4 years ago

میرے میٹھے اور پیارے اسلامی بھائیوں اللہ عزوجل قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:

ترجمہ کنزالایمان ۔ بے شک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے(سورةالاحزاب آیت نمبر۲۱)

ترجمہ کنزالایمان : آپ فرمادیجئے کہ اے لوگوں اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تمہیں دوست رکھے گا(سورة آل عمران آیت نمبر۳۱)

ترجمہ کنزالایمان :آپ فرمادیجئے کہ اللہ اورر سول کا حکم مانو (سورہ آل عمران آیت ۳۲)

میرے پیارے اسلامی بھائیوں ہماری بہتری پیارےآقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی پیروی میں ہے ان کی سنت اپنانے میں ہے، آپ اسے اس فرضی حکایت سے سمجھئے۔

حکایت :

ایک شخص ایک بزرگ کے پاس آتا ہے اور عرض کرتاہے حضور گناہوں سے بچ نہیں پاتا میری اصلاح فرمادیجئے،

وہ بزرگ اسے فرماتے ہیں، بیٹے تم داڑھی شریف سجالو چہرے پر اللہ نے چاہا تو اس کی برکت سے گناہوں سے بچ جاؤ گے۔ اس نوجوان نے ہاں کرلی اور چلا گیا وقت گزرتا گیا اور کچھ ہی ماہ بعد اس کے چہرے پر داڑھی جگ مگا رہی تھی ، اور وہ کسی بھی گناہ کی طرف جاتا تو آپ خود ہی سوال کرتا کہ میری داڑھی ہے لوگ کیا کہیں گےدیکھو مولوی ہو کر ایسا کام کرتاہے، بس یہی بات نے اسے گناہوں سے بچا کے رکھ اور وہ نوجوان نیکیوں پر لگ گیا۔

میرے پیارے اسلامی بھائیوں اس فرضی حکایت سے معلوم ہوا کہ جب ایک سنت پر عمل کرنے سے گناہوں سے بچنا آسان ہے تو اگر ہم اپنی پوری زندگی کو سنتوں سے سجالیں تو دنیا اورآخرت میں کامیاب ہوجائیں گے، اور سنت سے محبت کرنے کی بھی کیا خوب فضیلت ہے کہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں۔

کہ جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔

میرے پیارے اسلامی بھائیوں جنت میں آقا کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ ہونا آسان بس سنتوں پر عمل کئےجائیں اور آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے ساتھ ہوتے جائیے،

نوٹ:یہ مضامین تحریری مقابلہ کے تحت لکھے گئے ہیں، تاکہ طلبہ و طالبات میں تحریر کا شوق و جذبہ پیدا ہوا، کسی بھی خاص عمل کو سنّت قرار دینے کے لئے علمائے اہل سنت سے رابطہ کیا جائے نیز مکتبۃ المدینہ کی کتاب”سنتیں اور آداب“ کا مطالعہ کیا جائے۔