حدیث رسول صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسلمانوں کی انفرادی و اجتماعی مسائل کے حل کا
اہم ترین ذریعہ ہے ہماری معاشرت ، سیاست، عبادت تعلیم، تبلیغ، اخلاقیات ، صنعت ،
زراعت ، جہاد اور اس نوعیت کے تمام معاملات کا دارو مدار اس پر ہے، علاوہ ازیں حدیث قرآن کریم کی تفسیر ہے، اور حدیث کے بغیر قرآن مجید کی صحیح طور پر
سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ناممکن ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ
اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
تَرجَمۂ کنز الایمان: بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے (احزاب ،21)
اس کی علاوہ قرآن مجید میں بے شمار مقامات پر اللہ عزوجل نے مسلمانوں کو اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ
وسلم کا حکم دیا
ہے۔حدیث
مبارکہ: حضرت شریح بن عبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ عراق میں حضرت علی
المرتضی رضی
اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے اہل شام کا ذکر ہوا تو لوگوں نے کہا اے ام المومنین ان پر لعنت
کیجئے، آپ رضی
اللہ عنہ نے فرمایا
نہیں اس لیے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوفرماتے
سنا ہے کہ :
ابدال شام میں ہوں گے اور وہ چالیس مرد ہیں جب بھی ان میں
سے ایک شخص کی موت ہوجاتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ کسی اور شخص کو اس کا بدل بنا دیتا ہے ان چالیس ابدالوں کے
صدقے سے بارشیں ہوتی ہیں ان کی وجہ سے دشمنوں کے خلاف مدد ملتی ہے اور انکی وجہ سے اہل شام سے عذاب دور کیا جاتا ہے۔(فضائل
صحابہ جلد ۲، ص 904، رقم الحدیث 1727)
اس روایت سے معلوم ہوا کہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صرف رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم کے فرمان کی
تعظیم کرتے ہوئے اہل شام کے خلاف دعا نہیں
کررہے
مکان عرش ان کا فلک فرش ان کا
فلک ذار مان سے اے محمد صلی اللہ علیہ
وسلم
خدا کی رضا چاہتے ہیں دوعالم
خدا چاہتا ہے رضائے محمد
حکایت۔
استاذ العلما ء، حافظ ملت حضرت علامہ شاہ عبدالعزیز محدث مراد آبادی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اپنے ہر عمل میں سنت کا بہت زیادہ
خیال رکھتے تھے۔
ایک بار حضرت رحمۃاللہ علیہ کے دائیں پاؤں میں زخم ہوگیا ایک
صاحب دوا لے کر پہنچے اور کہا حضرت دوا حاضر ہے، جاڑے کا زمانہ تھا، حضر ت رحمۃ اللہ علیہ موزہ پہنے ہوئے تھے آپ رحمہ اللہ علیہ نے پہلے الٹے پاؤں کا موزہ اتارا
وہ صاحب بول پڑے حضرت زخم تو داہنے پاؤں میں ہے آپ رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا بائیں پاؤں کا پہلے
اتارانا سنت ہے۔( نیکی کی دعوت کی فضیلت ص ۲۱۳)
دامن بھریں گے ہم دولتِ فضلِ خدا سے ہم
خالی کبھی گئی ہے حسن مصطفی کی عرض
یارب یہ دعا عطا رکی ہے جس وقت تک
دنیا میں جئے
محبوب کی سنت عام کرے یہ ڈانکا دین کا
بجاتا رہے۔
نوٹ:یہ مضامین تحریری مقابلہ کے تحت
لکھے گئے ہیں، تاکہ طلبہ و طالبات میں تحریر کا شوق و جذبہ پیدا ہوا، کسی بھی خاص
عمل کو سنّت قرار دینے کے لئے علمائے اہل سنت سے رابطہ کیا جائے نیز مکتبۃ المدینہ
کی کتاب”سنتیں اور آداب“ کا مطالعہ کیا جائے۔
فرمانِ
مصطفی صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم :
جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی
وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔سبحان اللہ عزوجل
سنت کی
اہمیت :
لغوی معنی سنت کے لغوی معنی طریقہ و عادت ہے اصطلاح میں حضور علیہ السلام کے عادات کو سنت کہتے ہیں وہ لوگ
جو ا س بنا پرترک کردیتے ہیں کہ سنت ہی تو
ہے کون سا فرض ہے تو وہ لوگ سن لیں کہ حدیث و قرآن میں سنت کی کیا اہمیت ہے۔ وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ
فَانْتَهُوْاۚ-
تَرجَمۂ کنز الایمان: اور جو کچھ تمہیں رسول عطا
فرمائیں وہ لو اور جس سے منع فرمائیں باز
رہو۔(حشر،7)
حدیث : حضور علیہ السلامنے ارشاد فرمایا جو میری پیروی کرتا
ہے وہ مجھ سے ہے اور جس نے میری سنت سے منہ موڑا وہ مجھ سے نہیں۔(الشفا شریف)
اگر قیامت کے دن آقا علیہ لسلام نے منہ موڑا شفاعت نہیں کی دیدار ہی نہ کروایا تو ہمارا کیا ہوگا سنت تو
نبی کی ادا ہے جس کا کلمہ پڑھا ہے اس کا طریقہ ہے ہمیں تو فخر کرنا چاہیے کہ ہم
امتِ محمدی صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں سے ہیں تو ایسابننا چاہیے کہ لاکھوں میں پہچانا جائے کہ یہ نبی کا امتی ہے سرکار کا
غلام ہے۔(صحابہ کرام کا عشقِ رسول صفحہ نمبر ۲۲۹)
عن انس قال علیہ السلام من احیا سنتی فقد احیانی وقد احیانی کان معی فی الجنۃ
حضر ت ِ انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں
رسول علیہ
السلام جس نے میری سنت کو زندہ کیا تحقیق اس نے مجھ کو زندہ
کیا اور جس نے مجھ کو زندہ کیا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔(سنن ترمذی کتاب
العلم باب ماجا فی الحدیث ۲۶۸۷۔ ج ۲، ص
۳۰۹)
ہمارےاسلاف
فرماتے ہیں قاضی عیاض مالکی نے فرمایا:
ابن شہاب رضی
اللہ عنہ جو تابعی
بزرگ ہیں فرماتے ہیں کہ مجھے اہل علم سے یہ بات پہنچی ہے کہ جو نبی صلی اللہ علیہ
وسلم کی سنت کو پکڑنے والا ہے اس کے لیے نجات ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ- تَرجَمۂ کنز الایمان: جس
نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا
۔(النساء 80)
حدیث:
حضرت جابر رضی
اللہ عنہ سے روایت ہی
فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلیا للہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : بہترین بات وہ کتاب اللہ ہے اور بہترین ہدایت وہ محمد صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہدایت ہے ۔ (مشکوۃ ،27 حدیث:
133)
فنا اتنا تو ہوجاؤں میں تیری ذاتِ
عالی میں
جو مجھ کو دیکھ لے اس کو تیرا دیدار
ہوجائے
نوٹ:یہ مضامین تحریری مقابلہ کے تحت لکھے گئے ہیں، تاکہ طلبہ و طالبات میں
تحریر کا شوق و جذبہ پیدا ہوا، کسی بھی خاص عمل کو سنّت قرار دینے کے لئے علمائے
اہل سنت سے رابطہ کیا جائے نیز مکتبۃ المدینہ کی کتاب”سنتیں اور آداب“ کا مطالعہ
کیا جائے۔
رب
تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
سُنَّةَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُّسُلِنَا
تَرجَمۂ
کنز الایمان: دستور ان کا جو ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے۔(سورہ بنی اسرائیل ،۷۷)
سنت کی تعریف :
جسے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عادةً کیا وہ "سنت
زائدہ" ہے جسے عبادةً کیا وہ "سنتِ ہدی" میں سے ہے اور جسے ہمیشہ
کیا وہ سنت مؤکدہ ہے جسے کبھی کبھار کیا
وہ سنت غیرہ مؤکدہ ہے، فرمانِ الہی ہے: وَ یَهْدِیَكُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ۔تَرجَمۂ کنز الایمان: تمہیں اگلوں کی روشیں بتادے۔( النساء ، ۲۶)
حدیث:
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم نے فرمایا جس
نے میرے طریقے پر چلنے سے گریز کیا وہ مجھ سے نہیں۔(رواہ البخاری ۲)
گمراہی سے بچنے کے لیے کتاب اللہ،اور سنت رسول صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم دونوں کی پیروی کا حکم ہے، قرآن
مجید کو سنت کے ذریعے ہی سمجھا جاسکتا ہے سنت کے بغیر قرآن مجید سے تمام شرعی مسائل معلوم کرنا ممکن نہیں،
سنت کی
اہمیت قران مجید کی روشنی میں:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ
وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ(۲۰)
تَرجَمۂ کنز الایمان:: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو
اور سن سنا کر اسے نہ پھرو (انفال ،20)
وَ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّكُمْ
تُرْحَمُوْنَۚ(۱۳۲)
تَرجَمۂ کنز الایمان: اور اللہ
و رسول کے فرمان بردار رہو اس اُمید پر کہ تم رحم کیے جاؤ (آل عمران ، 132)
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ فَقَدْ فَازَ
فَوْزًا عَظِیْمًا(۷۱) تَرجَمۂ
کنز الایمان: اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمان برداری کرے اس نے بڑی کامیابی
پائی۔ (سورہ احزاب آیت 71)
قرآن و سنت پر سختی سے عمل
کرنے والے لوگ گمراہیوں سے محفوظ رہیں گے۔
جو شخص اپنی زندگی کو نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تعلیمات کے مطابق ان کے طریقوں کے مطابق اور
سنتوں کے مطابق گزارے گا، اللہ عزوجل کے ہاں اس کی زندگی قبول ہوگی، سبحان اللہ
عزوجل
ہمارے دین میں سنت کی بہت اہمیت ہے ، سرکار دوعالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم سنئے: ترجمہ : جس
نے میری سنت سے منہ موڑا وہ مجھ
سے نہیں۔
اگر قیامت کے دن نبی پاک صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم نے منہ موڑ لیا ہائے افسوس آپ نے
شفاعت نہیں دیدار ہی نہ کرایا تو کہاں جائیں گے ہم استغفر اللہ
یہاں تو بڑا عجیب سا رواج چل پڑا ہے کہ یار سنت ہی ہے نا، فرض تو نہیں۔ سنت
ہی ہے چلو چھوڑ دیتے ہیں، یعنی سنت کو بہت عام سمجھ لیا گیا ہے، یہ تو ہمارے نبی صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ادا ہے جس نبی کا کلمہ پڑھا ہے یہ اس کا
طریقہ ہے اگر غور کیا جائے کہ سنت کیا ہے ؟ تو یہ ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ
وسلم کا طریقہ ہے،
اور اگر حج کا سفر دیکھا جائے تو پورا حج ہی ان کے طریقے کے مطابق ہوتا ہے اور
بزرگوں کی یادوں کے مطابق ہوتا ہے۔
فرمان:
پیارے آقا صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا، جو پاک اور حلال کھائیں سنت پر عمل
کریں اور لوگ اس کے فتنوں سے محفوظ رہیں وہ جنت میں جائے گا۔ ایک شخص نے عرض کی
یارسول اللہ
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم آج کل بہت سے لو گ ایسے ہیں ۔
فرمایا ،میرے بعد والے زمانوں میں بھی ہوں گے مفتی احمد یار خان فرماتے ہیں،
کسی سنت کو معمولی مت سمجھیں، حتی کہ راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو دور کرنا، بیٹھ
کر پانی پینا، سادگی اپنانا وغیرہ وغیرہ
حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
سیرت مبارکہ اور آپ کی سنت مقدسہ کی اتباع اور پیروی ہر مسلمان پر واجب و لازم ہے۔
اسی لئے آسمان امت کے چمکتے ہوئے ستارے، ہدایت کے چاند تارے اللہ و رسول کے پیارے صحابہ کرام رضی
اللہ تعالٰی عنہ آپ کی ہر سنت کریمہ کی اتباع اور
پیروی کو اپنی زندگی کے ہر قدم پر اپنے لئے لازم الایمان اور واجب العمل سمجھتے
تھے اور بال برابر بھی کبھی کسی معاملے
میں بھی اپنے پیارے رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کی مقدس سنتوں سے انحراف یا ترک
گوارا نہیں کر سکتے تھے۔
ارشاد باری
تعا لی:اللہ پاک پارہ 3 سورہ آل عمران کی آیت نمبر 31 میں ارشاد فرماتا
ہے:
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ
فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ
اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)
تَرجَمۂ کنز الایمان: اے محبوب تم فرمادو
کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو
تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے
گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔
حضرت ابو
بکر صدیق کی آخری تمنا:
صحیح بخاری میں ہے امیر
المؤمنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنی وفات سے صرف چند گھنٹے پہلے ام المؤمنین
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے دریافت کیا کہ رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے کفن مبارک میں کتنے کپڑے تھے؟
اور آ پ کی وفات کس دن ہوئی؟ اس سوال کی وجہ یہ تھی کہ آپ رضی
اللہ تعالٰی عنہ کی انتہائی تمنا تھی کہ زندگی کے تمام لمحات میں تو میں نے اپنے تمام معاملات
میں حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مبارک سنتوں کی مکمل طور پر اتباع کی ہے مرنے
کے بعد کفن اور وفات کے دن بھی اتباع سنت نصیب ہو جائے۔ (بحوالہ : بخاری شریف 1/186، باب موت الاثنین)
قول:
حضرت حسن بصری رحمۃ
اللہ تعالٰی علیہ نے فرمایا: اللہ سے محبت کی علامت اس کے رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت کی پیروی کرنا ہے۔
حضرت ابو
ہریرہ رضی اللہ تعالٰی عنہ کا سنت پر عمل:۔
ایک مرتبہ حضرت ابو ہریرہ
رضی اللہ تعالٰی عنہ کا گزر ایک ایسی
جماعت پر ہوا جس کے سامنے کھانے کیلئے بھنی ہوئی مسلم بکری رکھی ہوئی تھی۔ لوگوں
نے آپ کو کھانے کیلئے بلایا، آپ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہ کہہ کر انکار فرمایا کہ حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم دنیا سے تشریف لے گئے اور کبھی جو کی روٹی پیٹ
بھر کر نہ کھائی میں بھلا ان لذیذ اور پر تکلف کھانوں کو کھانا کیونکر گوارا کر
سکتا ہوں۔ (مشکوٰۃ المصابیح، 1/446، باب فضل الفقراء)
حدیث
مبارکہ: حضرت
ابو محمد عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ تعالٰی عنہ روایت کرتے ہیں:
نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا ہے: تم میں سے کوئی بھی شخص اس
وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتا جب اس کی خواہش نفس اس چیز کی پیروکار نہ بن جائے
جسے میں لے کر آیا ۔ (بحوالہ اربعین نووی)
سنت مبارکہ
کے فوائد:۔
حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں پر عمل کے بہت زیادہ فوائد ہیں چند
فوائد بیان کرتے ہیں۔
1۔ سنت پر عمل پیرا ہونے
سے مؤمن بندے کو اللہ تعا لی کی محبت نصیب
ہوتی ہے
2۔ فرائض میں جو کمی
کوتاہی رہ جاتی ہے وہ ان سنتوں پر عمل کرنے سے کر دی جاتی ہے
3۔ اتباع سنت کی بنا پر
انسان بدعت سے محفوظ رہتا ہے
4۔سنت کی پیروی کرنا
شعائر الہیٰ کے احترام کا حصہ بھی ہے۔
نتیجہ:۔
کسی مومن کا اللہ کے نزدیک جتنا مقام ہوتا ہے، اس کا دار و مدار بھی
رسول اللہ صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع پر
ہے جس قدر زیادہ حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں کی اتباع کرنے والا ہوگا وہ اتنا ہی
زیادہ اللہ پاک کے پاس لائق احترام
ہوگا۔
حاصل
کلام:۔
پیارے مسلمانوں اپنا فرض
نبھائیں سنت رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو عمل کے ذریعے زندہ کیجئے کیونکہ سنت رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم آپ کے ساتھ کامل اور سچی محبت کی نشانی ہے۔
اللہ پاک فرماتا ہے:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ
اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ
تَرجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو ! حکم مانو اللہ اور حکم مانو رسول
کا۔(سورہ نسا آیت 59)
پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا ۔
جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت
میں میرے ساتھ ہوگا۔
کسی نے کیا خوب کہا ہے۔
انہیں جانا انہیں مانا نہ رکھاغیر سے
کام
للہ الحمد میں دنیا سے مسلمان گیا
کیا ہی خوب زمانہ تھا کہ جب سنتوں پر عمل کا آفتاب اقبال عروج پر تھا ،
تعریف کن الفاظ سے کروں کہ جب چار سمت مثل خوشبو عمل سنت کی بہاریں تھیں مثل
پروانہ عاشقانِ رسول صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنتِ رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی شمع پر زندگیاں نچھاور کرنا
مقصود زندگی سمجھتے۔
تاریخ اس امر پر شاہد ہے کہ زمانے کے فتنوں,، جہالت و بدمذہبی کی
تاریکیوں، روشن خیالیوں کے تیز جھونکوں نے اس شمع کو گل کرنا چاہا۔مگر! تاریخ کے
صفحات یہ بتاتے ہیں کہ میرے پیارے آقا صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت وہ شمع ہے کہ جس پر فدا ہونے والے
پروانوں کو نہ تو زمانے کے فتنے دور کرسکے نہ ہی جہالت و بدمذہبی کی تاریکیاں ان
پروانوں کے قریب آسکی، اور نہ ہی روشن خیالیوں کے تیز جھونکے ان کے قدم اکھاڑ سکے۔
اے عاشقانِ رسول اپنے آقا کریم صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں کا علم حاصل کیجئے، کہ ہر انسان محتاجِ
تقلید ہے۔ اور ہمیں حکم ہے اپنی زندگی کے
ہر پہلو اپنے ہر قول و فعل کو تقلید رسول میں گزارنے کا۔
اے حصولِ کامیابی کے متوالو!
یاد رکھنا، جتنے بھی ستارے عوجِ
ثریا پر چمکے سب کو چمک میرے کریم آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں سے ہی ملی، جس نے محبوب
اکبر عزوجل کی ادا کو ادا کیا، رب تعالیٰ نے اسے بلندی عطا فرمائی، اگر آپ بھی
کامیابیوں کے منظر خواہاں ہیں، دنیا و آخرت کی فلاح چاہتے ہیں تو سنتوں پر عمل
کیجئے دنیا آپ کے قدموں میں ہوگی۔
اے عاشقانِ رسول!
خدارا ! اپنے اوپر ترس کھائیے، غور کیجئے کہ ہمارے جسم پر لباس کے نام پر
موجود لباس کیا دو جہاں پر رحمت بنائے گئے کریم آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت کے مطابق ہے؟ یا پھر ؟
ہمارے ظاہر پر یہود و نصاری کا رنگ چڑھا ہوا ہے، ہمارا اٹھنا بیٹھنا، چلنا، پھرنا،
سونا جاگنا غرض یہ کہ ہمارے معمولاتِ زندگی، کیا ان کی سنت کے مطابق ہیں؟ جن کے
قدموں میں لوٹنا ہے، ارے جن سے شفاعت کی بھیک طلب کرنی ہے۔ ارے! یہ گناہوں کا انبار لے کر جن کی چادرِ رحمت میں
چھپنا ہے،یا پھر ؟؟
محبوبِ خدا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دشمنو! پیارے کریم آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اذیتیں دینے والوں !جانثاروں
پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑنے والوں، مسلمانوں کی نسل کشی کرنے والو ! مسلمانوں کی
آبرو ریزی کرنے والوں کے مشابہ ہے؟
تو پھر دل کے کانوں سے سن لو!
پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے فرمایا جو
کسی قوم سے مشابہت اختیار کرے وہ انہی میں سے ہے۔ (سنن ابی داؤد کتاب اللباس
الحدیث ۴۰۳۱ ، ج ۳، ص ۶۲)
تواے یہود و نصاریٰ کے طرز ِ زندگی کو آئیڈیل بنانے والو! اے سنت پر عمل
پیرا مسلمانوں کو معاذ اللہ بیک ورڈ سوچ کا حامل
کہنے والو۔ یاد رکھنا، پھر تمہارے لیے میرے کریم آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی چادرِ رحمت میں کوئی جگہ نہ
ہوگی۔بلکہ میرے آقا نے تو فرمادیا :کہ جو
جس قوم سے مشابہت رکھے گا انہیں میں سے
ہوگا۔پھر تم اس دن انہی کے ساتھ ہوگے، جن
کے طریقے آج تمہیں محبوب ہیں۔
خدارا مسلمانو!
جان لو! مصطفی صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے در کو چھوڑ کر کہیں ٹھکانہ نہ پاؤ گے! ابھی ہوش کے ناخن لو ، زندگی کو غنیمت
جانو اورساری زندگی ان کے طریقے پر گزارنے کا پختہ عہد کرلو جن کے طفیل گناہوں کے
باوجود ہماری صورتیں نہیں بگڑیں، ارے جن کے طفیل ہم غضبِ الہی سے امان میں ہیں،
اور جن کے قدموں میں شفاعت کی بھیک طلب کرنے کے لیے لوٹنا ہے۔
سنت کہتے ہیں "طریقے کو" یعنی سنت ، اسی لیے آسمانِ امت کے چمکتے
ہوئے ستارے ہدایت کے چاند تارے، اللہ و رسول عزوجل صلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے پیارے صحابہ کرام علیہمُ الرِّضوانآپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہر سنت کی اتباع اور پیروی کو
اپنی زندگی کے ہر دم قدم پر اپنے لیے لازم الایمان اور واجب العمل سمجھتے تھے اور
بال برابر بھی کسی معاملے میں کبھی بھی اپنے پیارے رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مقدس سنتوں سے انحراف یا ترک گوارا نہیں کرسکتے تھے۔
بحوالہ ۔ (الشفا بتعریف حقوق المصطفی، القسم الثانی فیما یجب علی الانام، الخ
الباب الاول فی فرض الایمان بہ ، الخ،
ففضل واما وجوب، الخ، الجز الثانی، ص ۸۔۹ ملخصا)
اولیائے
کرام کی رو سے سنت کی اہمیت:
سید الطائفہ جنید بغدادی رحمۃ اللہ
تعالٰی علیہ فرماتے ہیں۔
کہ سب راستے بند ہیں مگر جو شخص رسول کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی اتباع کرے اور فرمایا کہ جس شخص نے قرآن یاد
نہ کیا ہو اور حدیث نہ لکھی ہو اس کی اقتدا اس امر میں نہ کی جائے گی کیونکہ ہمارا
علم قرآن و حدیث کے ساتھ مفید ہے، ابو سعید خراز رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: کہ جو باطن ظاہر شرع
کے خلاف ہو وہ باطل ہے۔بحوالہ (نزہۃ الناظرین، کتاب الایمان ، باب الاعتصام
بالکتاب والسنہ ص ۱۱)
ایک آیت میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
چنانچہ سورة الاحزاب کی آیت نمبر ۲۱ میں ارشاد فرماتا ہے ۔ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ
رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ تَرجَمۂ کنز الایمان: ۔ بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر
ہے
اس آیت کے تحت مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ تفسیر خزائن العرفان میں فرماتے
ہیں: ان کی اچھی طرح اتباع کرو اور دین
الہی کی مدد کرو اور رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کا ساتھ نہ چھوڑو اور مصائب پر صبر کرو اور رسول
نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی سنتوں پر
چلو یہ بہتر ہے۔
حضور اقدس صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی سیرت
مبارکہ اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی سنت مقدسہ
کی اتباع و پیروی ہر مسلمان پر لازم و واجب ہے اللہ رب العزت کا فرمان ہے۔ پارہ ۳، سورہ آل عمران کی آیت نبر 39 میں ارشادِ
ربانی ہے
قُلْ اِنْ كُنْتُمْ
تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ
ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۳۱)
تَرجَمۂ کنز الایمان: اے محبوب تم
فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ
تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا
مہربان ہے
اس سے معلوم ہوا کہ طریقہ اہل اللہ مطابق شریعت ہے اور جو
لوگ شریعت کے پورے پورے تابعدار ہیں وہی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے اولیائے اور مقبول ہیں، چنانچہ در مختار میں
لکھا ہے کہ حضرت ابراہیم بن ادھم ، حضرت شفیق بلخی اور معروف کرخی ، وغیرہ بہت سے
اولیائے کاملین حضرت امام اعظم علیہ الرَّحمہ کے مذہب پر ہوئے ہیں۔
بحوالہ (الدر المختار، المقدمہ ج ۱، ص
۱۴۰)
ہمہ شیراں جہاں بستہ ایں سلسلہ ماند
روبہ از حیلہ چساں بگیلد ایں سلسلہ را
درود شریف
کی فضیلت:
اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے محبوب، دانائے غیوب منزہ عن
العیوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان تقرب نشان ہے۔
جس نے مجھ پر سو مرتبہ درود پاک پڑھ اللہ تعالیٰ اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لکھ دیتا
ہے کہ یہ بندہ نفاق اور جہنم کی آگ سے آزاد ہے اسے بروز قیامت شہدا کے ساتھ رکھے
گا۔
سنت کے لغوی معنی طریقہ، راستہ ہے یہ صحیح ہویا غلط، اچھا ہو یا برا، جائز
ہو یا ناجائز یہ سب اسی میں شمار ہوں گے،
سنت سے مراد حضور اکرم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے افعال و اقوال ہیں یا ایسے کام جو سرور کائنات صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے سامنے کیے گئے ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا ہو،
شرعی اصطلاح میں سنت کے اصطلاحی معنی بہت وسیع ہیں کیونکہ فقہ اور اصول فقہ کے علما شرعی دلائل سے بحث کرتے ہیں،
محدثین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول کی چھان بین کرتے ہیں، فقیہ شرعی اعتبارسے
حرام و حلال، واجب و مکروہ کا فیصلہ کرتے ہیں اور مختلف مواقع پر سنت کا لفظ مختلف
اصطلاحات کی شکل میں استعمال ہوتا
ہے اور بولا جاتا ہے جو شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے افعال و اعمال پر عمل کرتا ہے وہ سنت پر عمل
کرنے والا کہلاتا ہے۔
سنت کی ضرورت و اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتاہے کہ قرآن عربی
زبان میں اہل عرب کے سامنےنازل ہورہاتھا وہ عرب جن کا پوری دنیا میں اپنی فصاحت و
بلاغت میں کوئی ثانی نہیں تھا جب اسلام کی روشنی پھیل گئی اور عربوں نے اپنے دامن
کو نور اسلام سے منور کرلیا تو ان کا یہ عالم تھا کہ اکثر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے قرآن کریم کے مفاہیم و مطالب کے
لیے استفسار کیا کرتے تھے اور ایسا کرنا کوئی نقص یا برائی کی بات نہ تھی۔
ایک طرف اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم پر یہ ذمہ داری عائد کی تو دوسری طرف مسلمانوں
کو بھی پابند کیا کہ تمام معاملات زندگی میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی
کریں گے۔اور قرآن میں ارشاد فرمایا : اور جو رسول کی اطاعت کرتا ہے اس نے اللہ کی اطاعت کی ۔(نسا ۸۰)
حدیث :رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم
نے فرمایا:جس نے اچھا طریقہ رائج کیا تو اسے اس کا اجر ملے
گا اور لوگوں کا اجر جو قیامت تک اس پر عمل کریں گے اور جس نے برا طریقہ جاری کیا تو اس پر اس کا گناہ ہوگا اوران لوگوں کا
گناہ جو قیامت تک اس پر عمل کرتے رہیں گے۔(مسلم)
حدیث :اللہ عزوجل کے پیارے رسول ، رسول مقبول سیدہ آمنہ رضی اللہ عنہا کے گلشن کے مہکتے ہوئے پھول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمانِ جنت نشان ہے۔ جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے
محبت کی، وہ جنت میرے میرے ساتھ ہوگا۔ (ابن عساکر ج۹،ص ۳۴۳)
ایک دن پیغمبر اکرم صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے صحابہ
کرا م سے ارشاد فرمایا کہ پانی ہمیشہ دیکھ کر پینا چاہیے ، ایک یہودی اس وقت وہاں
موجود تھا اس نے بھی یہ ارشادِ عالی شان سن لیا اپنے گھر میں رات کو جب پانی پینے
لگا تو بیوی سے بولا چراغ لے کرآؤ، بیوی چراغ لے آئی تو روشنی میں دیکھا کہ پانی
کے پیالے کی تہہ میں ایک سیاہ بچھو تھا، صبح دربار رسالت صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر بولا آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایک سنت پر عمل کرنے سےجان کی حفاظت ہوگئی،
وہ دین کتنا پیارا ہوگا، کلمہ پڑھااور مسلمان ہوگیا۔سبحان اللہ
سنتوں سے بہن رشتہ جوڑ تو
نت نئے فیشن سے منہ کو موڑ تو
چھوڑ دے سارے غلط رسم و رواج
سنتوں پہ چلنے کا کر عہد آج
یا خدا ہے التجا عطار کی
سنتیں اپنائیں سب سرکار کی
تلمیذ و خلیفہ صدر الشریعہ حافظ ملت حضرت علامہ مولانا عبدالعزیز مبارک
پوری علیہ الرحم اللہ القوی بیان کرتے ہیں: حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم راستہ چلتے تورفتار سے عظمت و وقار کا ظہور ہوتا، دائیں بائیں نگاہ نہ فرماتے ہر قدم قوت کے ساتھ
اٹھاتے، چلتے وقت جسم مبارک آگے کی طرف قدرے جھکا ہوتا، ایسا لگتا گویا اونچائی سے
نیچے کی طرف اتررہے ہوں۔
ہمارے استاذ محترم صدر الشریعہ
علیہ الرحمہ سنت کے مطابق راستہ چلتے تھے ان سے ہم نے علم
بھی سیکھا اور عمل بھی،یہی حضرت حافظ ملت فرماتے ہیں۔ میں دس سال حضرت صدر الشریعہ
علیہ الرحمہ کی کفش
برادری ( یعنی خدمت) میں رہا، آپ کو ہمیشہ متبع سنت پایا۔
فرمانِ
مصطفیصلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم :
مجھ پر درود شریف پڑھو، اللہ پاک تم پررحمت بھیجے گا۔
ہمارے پیارے پیارے آقا، مدینہ والے
مصطفی صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنت ہمیں زندگی کا روشن اور پر کیف حصہ
دکھاتی ہے۔
سنت سے منہ پھیرنے والا ہم میں سے نہیں، تاجدارِ مدینہ قرار قلب وسینہ
سلطان دو جہاں
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان
ہے۔جو میری سنت سے منہ پھیرے گا وہ میرے گروہ میں سے نہیں۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس فرمانِ مصطفی سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ
سنت کی پابندی ہماری زندگی میں کتنی اہم ہے ہمارے پیارے آقا کے ہر ایک عمل میں
ہمارے لیے کوئی نہ کوئی سبق ہے، اگر ہم ان کے بتائے ہوئےطریقوں پر عمل پیرا ہوں تو دنیا و
آخرت میں سرخرو ہوجائیں گے، اپنی زندگی کو معطر بنانے کے لیے ہمیں اپنے آپ کو
سنتوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا زندگی کے ہر ایک پہلو میں سنتوں کا عمل دخل ہے، سنتیں
درحقیقت یہ بتاتی ہیں کہ زندگی کیسے گزاری
جائے،یہ زندگی کےاصل مقصد سے آگاہ کرتی ہیں، اسلام کے مطابق زندگی سنتوں پر عمل
کرکے ہی گزاری جاسکتی ہے، سنتیں ہماری زندگی کو منور کرتی ہیں۔
سینہ تیری سنت کا مدینہ ہے آقا
جنت میں پڑوسی مجھے تم اپنا بنانا
یقینا ہر ایک سنت قابل ذکر ہے ان میں سے چند ایک مذکور ہیں: ۱۔ ہر کام کا
آغاز بسم
اللہ شریف سے
کرنا۔۲۔ ہر حال میں نیکی کی دعوت دیناْ۳۔ سلام و مصافحہ کرنا۴۔ عاجزی اختیار
کرنا۵۔ حسن اخلاق۶۔ جانوروں پر رحم کرنا۔۷۔ بچوں کے ساتھ شفقت اور بڑوں کا احترام
کرنا۸۔ صبر کرنا۹۔ پڑوسیوں کا خیال رکھنا۱۰۔ عدل و انصاف کرنا۔آئیے کچھ
سنتوں پر تفصیلاً بات کرتے ہیں :
عدل و انصاف:
سرکار عالی وقار
مدينے کے تاجدار کی عظيم سنت ہے آپ رنگ و نسل ، قبیلے ، فرقہ رتبے اور رشتہ داری سے بلا امتیاز ہو کر
معاملے عدل و انصاف سے حل فرماتے :
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ قبیلہ قریش کی ایک عورت چوری کرتے ہوئے پکڑی گئی، قبیلہ کے کچھ لوگ قریش خاندان کی عزت کو محفوظ
رکھنے کے لیے اس عورت کو سزا سے بچانا چاہتے تھے انہوں نے حضرت اسامہ بن زید سے اس
عورت کے حق میں سفارش کی، حضرت اسامہ بن زید نے حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ اس عورت کو معاف
کردیا جائے۔ یہ سن کر آپ پر جلال کی کیفیت طاری ہوگئی، آپ نے فرمایا: بنی اسرائیل کی قوم اس وجہ سے تباہ ہوگئی کہ وہ
غریبوں پر قانون لاگو کرتے اور امیروں کو معاف کردیتے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو اس ایمان افروز واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ
ہمیں بھی رنگ و نسل اور فرقہ واریت سے بلا امتیاز ہو کر معاملہ انصاف سے طے کرنا
چاہیے۔ حالانکہ وہ عورت ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلے سے تھی پھر بھی آپ نے اس
کی طرف داری نہ کی، کیونکہ ان کے نزدیک ان کے قبیلے کی عزت سے زیادہ ان تعلیمات کی
اہمیت تھی جو اللہ
تعالیٰ نے انہیں عطا
فرمائی۔
بیٹھنے کی
چند سنتیں :
آقا صلی
اللہ علیہ وسلم کا بیٹھنے کا انداز کچھ یوں تھا کہ،۱۔ اکثر قبلہ
رو ہو کر بیٹھے۔
۲۔ چار زانوں (یعنی پالتی مار کر) بیٹھنا بھی آپ سے ثابت ہے۔
۳۔ ایسی جگہ پر نہ بیٹھتے جہاں جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں اور کچھ چھاؤں میں
ہو۔
ہمیں بھی چاہیے کہ بیٹھتے وقت ان سنتوں کو اختیار کریں اورجہاں تک ہوسکے
دوسروں کو بھی ان کی ترغیب دلائیں۔
فرمانِ مصطفی صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم: مونچھیں تراشواؤ اور داڑھی بڑھاؤ
آج کل معاملہ برعکس ہے کہ داڑھی کا
نشان نہیں ہے، اور مونچھیں بڑھائی جارہی ہیں لیکن مغرب کے ڈاکٹر کا کہنا ہے
مونچھیں کم کرو اور یعنی تراشواؤ ورنہ نقصان اٹھاؤ گے۔ انسانی جسم کے بعض اعضا
ایسے ہیں جہاں سے غیرضروری بالوں کو صاف کرنا ضروری ہے اس سے گندگی دور کرنے اور
پاک صاف رہنے میں مدد ملتی ہے، مونچھوں کا تراشنا یا مونڈ نا بھی اسی مقصد کے لیے ہے بڑھی ہوئی
مونچھیں ہمارے اندر جانے والے غذا اور پانی کو آلوداہ کرتی ہیں جس کی وجہ سے ہمارے
پیٹ میں گندگی پہنچتی رہتی ہے۔
نقش قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے
راستے
اللہ عزوجل کوسب سے زیادہ محبوب حضرت محمد
آقائے دوجہاں صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں اور وہی عمل ہمارے پیارے پیارے آقاکو عطا فرمائے جو محبوب
ترین تھے وہی اعلیٰ شرف اور اللہ عزوجل کے محبوب ترین عمل جو حضور سے ظاہر ہوئے ، سنت کہلاتے ہیں، کیا ہم اتنے
بدنصیب ہیں کہ اللہ
رب العزت کے محبوب
ترین عمل کو نہیں اپناتے، ہمیں اپنے نفس کو ملامت کرنی چاہیے۔
اللہ اوررسول صلی اللہ تعالیٰ سے محبت کا بثوت دیتے ہوئے ہمیں سنتوں پر عمل کرنا چاہیے۔
نوٹ:یہ مضامین تحریری مقابلہ کے تحت لکھے گئے ہیں، تاکہ طلبہ و طالبات میں
تحریر کا شوق و جذبہ پیدا ہوا، کسی بھی خاص عمل کو سنّت قرار دینے کے لئے علمائے
اہل سنت سے رابطہ کیا جائے نیز مکتبۃ المدینہ کی کتاب”سنتیں اور آداب“ کا مطالعہ
کیا جائے۔
اللہ کریم فرماتاہے:
اے محبوب آپ فرمائے (انہیں کہ) اگر تم واقعی محبت کرتے ہو اللہ سے تم میری میری پیروی کرو (تب) محبت فرمانے لگے گا تم سے اللہ (سورہ آلِ عمران آیت
31 )
حدیث پاک:
عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم
کی حدیث بالاسناد مروی ہے کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام نے فرمایا میری سنت اور میرے ہدایت یافتہ
خلفائے راشدین کی سنت لازم پکڑو اور اس کو دانتوں سے محفوظ پکڑو ۔(بحوالہ: سنن
ابوداؤد صفحہ، 3 ،سنن ترمذی جلد 4 صفحہ 151 150 ، کتاب العلم جلد 1 ص 97 95)
حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ انہوں نے فرمایا کہ طریقہ سنت کو لازم پکڑو کیونکہ
زمین میں کوئی ایسا نہیں کہ جو طریقہ سنت پر ہو وہ اپنے دل میں خدا کو یاد کرتا
ہوں اور اس کی آنکھوں سے آنسو خوف خدا سے جاری رہتے ہو پھر اس کو اللہ ابدی عذاب دے (یعنی سنت پر عمل کرنے والوں کو ہمیشہ کی جہنم
کا عذاب نہیں ہوگا ) اور زمین پر کوئی ایسا بندہ نہیں جو طریقہ سنت پر ہو اور جب
وہ اپنے دل میں خدا کو یاد کرے تو اس کا رواں رواں خشیت الہی سے کھڑا ہو جائے مگر
اس کی مثال اس درخت کی سی ہے جس کے پتے خشک ہو گئے ہوں پھر وہ اس حالت میں ہوں کہ
اچانک اس کو آندھی پہنچے تو اس کے پتے جھڑ کر گر جائیں (اسی طرح اس کے گناہ جھڑ
جائیں گے ) بلاشبہ سنت پر عمل کرنا بہتر ہے ۔ (اے مسلمانو !) تم غور کرو تمہارا
عمل اگر اجتہادی یا معتدل ہے تو یہ انبیاء کرام علیہم رضوان کے طریق و سنت پر ہے ۔ (الاصبہانی الترغیب السیوطی صفحہ 179
)
سلف صالحین رحمہم اللہ سے اتباع سنت کا وجود
:
سلف و ائمہ رحمہم اللہ سے آپ صلی
اللہ علیہ وسلم
کی سنت کے اتباع ،آپ صلی اللہ علیہ
وسلم کی ہدایت
و سیرت پاک کی اقتداء کا
ثبوت یہ ہے کہ
حضرت عمرو بن عوف مزنی رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے ایک شخص نے عبداللہ بن عمر رضی
اللہ عنہ سے دریافت
کیا کہ اے عبد الرحمن ہم قرآن میں صلاۃ الخوف اور صلاۃ الحضر تو پاتے ہیں مگر صلوۃ
السفر نہیں پاتے ؟ عبداللہ بن عمر رضی
اللہ عنہ نے
فرمایا اے ابن اخی بے شک اللہ
تعالی نے ہماری
طرف حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کو مبعوث
فرما کر بھیجا (اس سے زیادہ) ہم کچھ نہیں جانتے کہ ہم وہی کرتے ہیں جیسا ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا ۔(بحوالہ سنن نسائی
کتاب الصلاۃ صفحہ 226 )
حدیث:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ فتنہ و فساد کے زمانے میں میری سنت پر
(سختی سے) عمل کرنے والے کے لئے سو شہیدوں کا اجر ہے ۔(حوالہ طبرانی اوسط باحوالہ
مجمع الزوائد جلد 1 صفحہ 172 )
آیت مبارکہ کا
ترجمہ :
اور رسول کریم جو تمہیں عطا
فرما دیں وہ لے لو ۔ (سورہ حشر آیت نمبر 7
)
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا اپنے عمال کی طرف خط:
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے عمال کی طرف یہ خط لکھا کہ
سنت، فرائض اور لحن یعنی لغت کو سیکھو اور فرمایا کچھ لوگ تم سے قرآن کے بارے میں
جھگڑیں گے (تو خبردار) تم ان سے سنن سے مؤاخذہ کرنا بلاشبہ اصحاب سنن کتاب اللہ کو زیادہ جاننے والے ہیں (مقدمہ سنن دارمی جلد 1 صفحہ نمبر
49 )
آیت مبارکہ کا
ترجمہ :
پھر اگر جھگڑنے لگو تم کسی چیز
میں تو لوٹا دو اسے اللہ اور (اپنے) رسول (کے فرمان)
کی طرف۔(سورۃ النساء آیت نمبر 59 )
تفسیر :
اس
آیت مبارکہ کی تفسیر میں مروی ہے کہ (الی
اللہ ) سے مراد
کتاب اللہ اور (الرسول ) سے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔امام شافعی رحمۃ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں کہ سنت رسول پر
عمل کیا جائے (یعنی اس کا بنیادی مقصد ہی یہ ہے ) حضرت امیرالمومنین فاروق اعظم سیدنا
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا جب آپ کی نظر حجر
اسود پر پڑی، اے حجرے اسود تو ایک ایسا ہی
پتھر ہے جو ذاتی طور پر نہ نفع پہنچا سکے نہ ضرر(یعنی نقصان )اگر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ دیکھا ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجھ کو بوسہ (استلام) دیا ہے تو
ہرگز میں تجھ کو بوسہ (استلام) نہ دیتا اس کے بعد آپ نے (حجر اسود کو) بوسہ دیا۔ (صحیح
بخاری کتاب الحج جلد 3 صفحہ 127 )
زین :اپنے ذہن میں بہت
سے سوالات لیے اپنے بابا کا انتظار کررہا تھا، نظریں بار بار گھڑی کی طرف اٹھ رہی
تھیں جیسے ہی ڈور بیل ہوئی دوڑ کر دروازے کی طرف لپکا، ابو کو دیکھتے ہی خوشی سے
چہرہ چمک گیا۔
سلام کرنے کے بعد۔ محبت سے بابا کا ہاتھ پکڑ کر اپنے پاس بٹھالیا۔
بابا: خیریت بیٹا ! بڑے بے چین لگ
رہے ہو؟
زین :بابا ! آج میں نے
آپ سے بہت سے سوالات کرنے ہیں۔ْ
بابا : جی بیٹا لبیک۔ زین ، بابا آپ کو پتا ہے آج ہمارے استادTeacher نے ہميں
کيا بتايا؟
بابا، بڑی دلچسپی لیتے
ہوئے۔ کیا بتایا، آپ بتائیں گے تو پتا چلے گا؟
زین :وه بتارہے تھے کہ
جو ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی سنت
مبارکہ پر عمل کرے گا وہ جنت میں آقا کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ رہے گا۔
بابا:جی بیٹا! آپ کے
ٹیچر درست فرمارہے تھے۔
زین :بڑے
اداس لہجے میں ۔
بابا! مجھے بھی آقا کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ جنت میں رہنا ہے؟
آپ مجھے بتائیں ناں! سنت کسے کہتے ہیں؟
باباسنت کا مطلب طریقہ یا راستہ
ہوتا ہے بیٹا۔
جس کام کی نسبت ہمارے حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف کی گئی ہو اسے سنت کہتے ہیں۔چاہے وہ کام
کو خود کرکے دکھایا ہو یا حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے وہ کام کیا گیا ہو اور آپ نے اس سے منع
نہ فرمایا ہو۔
زین :بابا!
کیا اللہ پاک نے بھی حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی سنت پر عمل کرنے کا ارشاد فرمایا
ہے؟
بابا:جی بیٹا! اللہ پاک نے بھی اپنے محبوب کی اطاعت کا حکم ارشاد فرمایا ہے۔
تَرجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو
اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اور سن
سنا کر اسے نہ پھرو۔(سورہ انفال ، آیت۲۰)
جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اس نے اللہ کا حکم مانا۔ْ(سورہ النسا ،
آیت80)
زین :بابا
! کیا اللہ پاک ہمیں اطاعت کرنے کے لیے کوئی انعام بھی عطا
فرمائے گا۔
بابا:جی بیٹا! اللہ پاک حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی اطاعت
کرنے والوں کے گناہوں کو معاف فرمادے گا، ان کو قیامت کے دن انبیا ، صدیقین،
شہیدوں اور اپنے نیک بندوں کے گروہ میں شامل فرمائے گا۔
زین :زین
بڑی حیرانگی اور خوشی سے کہتا ہے۔ سچ بابا
!
بابا:جی بیٹا!
زین :ابو
کیا آقا کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے بھی اپنی
سنت پر عمل کرنے کی ترغیب ارشاد فرمائی ہے؟
بابا:جی بیٹا! آقا کریم
صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا۔
میری اُمت کے سارے لوگ جنت میں جائیں گے، سوائے اُن کے جنہوں نے انکار کیا۔
عرض کی گئی۔ حضور صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کاکس نے انکار کیا؟
آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم نے
فرمایا:جس نے میری اطاعت کی وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے میری نافرمانی کی ، اس
نے انکار کیا۔(بحوالہ بخاری شریف)
ایک اور جگہ ارشاد فرمایا: جس نے میری سنت سے محبت
کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔
زین :بابا!
مجھے بھی کوئی سنت سکھائیں نا؟؟
بابا:میں آپ کو ایک سنت
بتاتا ہوں اور اس سنت سے محبت کرنے والے
کا واقعہ بھی۔
زین :جی
ضرور ! جلدی سنائیں ۔
بابا:ہمارے بزرگ حضرت
ابوبکر شبلی بغدادی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ایک بار مسواک ، سونے کے ایک سکے (coin) کے بدلے خريدی
لوگوں نے کہا، آپ نے بھلا اتنی مہنگی مسواک کیوں خریدی؟
زین :بڑی
حیرانگی سے پوچھتے ہوئے، پھر آپ نے کیا فرمایا۔
بابا:تو آپ نے فرمایا ۔
یہ دنیا اور اس کی ہر چیز اللہ پاک کے نزدیک مچھر کے
پَر کے برابر بھی نہیں ہے، اگر قیامت والے دن اللہ پاک نے یہ پوچھ لیا کہ ، تو نے میرے محبوب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت کیوں ترک کی؟ میں نے جو مال
تجھے دیا تھا وہ تو میرے نزدیک مچھر کے پَر برابر بھی نہیں تھا تو آخر ایسی حقیر
دولت اس عظیم سنت( مسواک) کو حاصل کرنے پرخرچ کیوں نہیں کی ؟ تو کیا جواب دوں گا۔
(مسواک شریف کے فضائل ، صفحہ ۱۱۶)
زین :بابا
میں بھی اس سنت پر ضرور عمل کروں گا، اور جنت میں آقا کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ جاؤں گا ان شاءاللہ عَزَّ وَجَلَّ
زینب:جو کب سے صوفے کے
پیچھے بیٹھی ساری باتیں سن رہی تھی،
اچانک نکل کر بولی، آپ اکیلے نہیں بھائی ! میں بھی سنت پر عمل کرکے آقا
کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کے ساتھ جنت
میں جاؤں گی۔
زینب کی بات سن کر، بابا اور زین مسکرانے لگےْ۔
زینب ناراضگی سے ان کی طرف دیکھنے لگی، بابا نے جب پیار کیا تو وہ بھی مسکرادی۔
عامر اپنے بیٹے علی کے ساتھ بازار میں دستر خوان خریدنے گیا، وہاں
مختلف رنگوں کے خوبصورت دستر خوان تھے عامر اور علی دونوں دستر خوانوں کو پسند
کرنے لگے دکاندار نے کہا، بھائی کون سا دستر خوان چاہیے؟
علی نے ایک خوبصورت پھولوں والے دستر خوان کی طرف اشارہ کیا اور کہا ، یہ والا دستر خوان
عامر نے کہا، بیٹا یہ والا نہیں ہمیں سرخ رنگ کا دستر خوان چاہیے ۔
علی نے ایک خوبصورت پھولوں والے
دستر خوان کی طرف اشارہ کیااور کہا، یہ والا دستر خوان
عامر نے کہا، ابا جان یہ دستر خوان لیتے ہیں(اصرار
کرتے ہوئے) دیکھیں یہ کتنا خوبصورت ہے، دکاندار نے کہا،
بھائی آپ اس بچے کی بات مان جائیں یہ دستر
خوان کتنا خوبصورت ہے عامر نے کہا بھائی
بے شک یہ خوب صورت دستر خوان ہے ، لیکن اس میں وہ خاصیت نہیں ہے، جوسرخ دستر خوان کی ہے،
دکاندار (عامر سے )
:بھائی ایسی کون سی خاصیت ہے سرخ دستر خوان کی ہے؟
عامر (دکاندار سے): بھائی سرخ دستر خوان پر کھانا کھانا سنت ہے اور اس کی بہت
ہی پیاری فضلت بھی ہے روایت ہے کہ جو سرخ دستر خوان پر کھانا کھائے گااسے سیدنا
جبرائیل علیہ
السَّلام جنتی لباس
پہناکربرا ق پر سوار کرکے جنت میں لے جائیں گے نیز اسے ایک عمرہ او رایک ہزار
بھوکوں کو کھانا کھلانے کا ثواب ملے گا۔(فیضان سنت)
دکاندار ، سبحان
اللہ بے شک سرخ
دستر خوان کی خاصیت تو کسی اور میں نہیں،
عامر اپنے بیٹے کوسمجھانے کے بعد اس کی رضا مندی سے سرخ دستر خوان خرید لیا
اور دونوں گھر واپس لوٹے۔(چلتے ہوئے علی) نے کہا ابا جان میں سنت کے بارے میں مزید جاننا چاہتا ہوں کیا آپ اس بارے میں مجھے بتائیں گے؟
عمر۔ جی بیٹا پہلے آپ یہ بتائیں کہ سنت کسے کہتے ہیں؟
علی ۔ سنت اس راستے کو کہتے ہیں جس پر چلا جائے۔
عامر۔ ٹھیک کہا، سنت کے معنی طریقہ ،کے ہیں، رب کائنات فرماتا ہے: سُنَّةَ مَنْ قَدْ اَرْسَلْنَا قَبْلَكَ
مِنْ رُّسُلِنَا وَ لَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِیْلًا۠(۷۷)
تَرجَمۂ کنز الایمان: دستور ان کا جو ہم نے تم سے پہلے رسول بھیجے اور تم ہمارا قانون بدلتا نہ پاؤ گے
اور شریعت میں سنت حضور اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وہ فرمان ہیں جو کتاب اللہ میں مذکور نہیں اور حضور کے وہ اعمال جوامت کے
لیے لائق عمل ہیں (مراۃ المناجیح )
علی ! ابا جان لیکن سنت پر عمل کرنا کیوں ضروری ہے(سوچتے
ہوئے)؟
عامر! بیٹا سنت پر عمل کرنے کی بڑی اہمیت ہے (سمجھاتے
ہوئے) جن لوگوں نے سنت پر عمل کیا وہ دارین میں (دونوں جہانوں) میں سرخرو ہوئے، سنت کی اہمیت
پر چند مدنی پھولوں کے ذریعے سے میں آپ کو
سمجھاتا ہوں۔
ہدایت اور گمراہی سےنجات کا ذریعہ:
روایت ہے کہ حضرت مالک بن انس رضی اللہ عنہ سے مرسلاً فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے تم میں دو چیزیں چھوڑیں ہیں
جب تک انہیں مضبوط تھا مے رہو گے گمراہ نہ ہوگے اللہ کی
کتاب،اور پیغمبر کی سنت(مراۃ المناجیح)
اللہ عزوجل سے محبت کی دلیل :
سنت رسول صلی
اللہ علیہ وسلم پر عمل اللہ سے
محبت کی دلیل ہے، جیساکہ سہل بن عبداللہ فرماتے ہیں اللہ سے محبت کی علامت قرآن سے محبت ہے، قرآن سے محبت کی علامت نبی صلی اللہ علیہ
وسلم سے محبت ہے
اور نبی صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے محبت کی علامت سنت سے محبت کرنا ہے( قرطبی 60،61)
قرآن پاک سمجھنے کا ذریعہ:
سنت رسول صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم قرآن پاک کو سمجھنے کا ذریعہ ہے ۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا،
دیانتداری آسمان سے لوگوں کے دلوں میں اترتی ہے، قرآن بھی
(آسمان سے) نازل ہوا ہے جسے لوگوں نے پڑھا اور سنت کے ذریعے سمجھا، ( صحیح بخاری کتاب الاعتصام الکتاب والسنہ ، باب الافتراو سنن رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم رقم :۷۲۶۶)
نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا تم میری اور ( میرے )
خلفائے راشدین کی سنت واجب ہے( سنن ابی داؤد،
کتاب السنہ ، باب فی نزوم السنہ، رقم ۷۶)
صرف سنت پر قائم فرقہ ناجی ( جنتی) ہے رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم نے فرمایا
میری امت کے بہتر 72فرقے ہوجائیں گے ، ایک فرقہ جنتی ہوگا باقی سب جہنمی، صحابہ
کرام نے عرض کی : یارسول اللہ وہ ( ناجی) جنتی فرقہ کون
ہے؟(فرمایا) یعنی جس پر میں اور میرے صحابہ ہیں یعنی سنت کے پیرو کار ( سنی بہشت زیور ص۷۶)
بیماریوں اور پریشانیوں سے نجات :
اور سنت ہمیں کئی بیماریوں اور پریشانیوں تکلیفوں سے بچاتی ہے، جیسے عمامہ
شریف پہننا اور سر کے لیے بہت مفید ہے اس سے دماغ کو تقویت ملتی ہے اور حافظہ
مضبوط ہوتاہے، اس سے دائمی نزلہ نہیں ہوتا، عمامہ شریف کا شملہ حرام مغز کو موسمی اثرات مثلا سردی گرمی سے تحفظ
فراہم کرتا ہے،۔ سر سام یعنی دماغ کے ورم کے مرض کے خطرات میں کمی لاتا ہے(163 مدنی پھول ص 27)
داڑھی رکھنے سے (Follicvtitb borbane) نامی بیماری سے ( بچاتی) عافیت دیتی ہے،
چہرے کے بال جلد کوسورج کی الٹراوائلٹ شعاعوں اور دمہ کے جر ثوموں سے پھیھپڑوں کی
حفاظت کرتے ہیں، سفید لباس پہننے سے گرمی کی شدت میں کمی واقع ہوتی ہے۔(گرمی سے
حفاظت کےمدنی پھول ص 10ماخوذا )
مسواک سے قوتِ حافظہ بڑھتا ، درد سر دور ہوتا، سر کی رگوں کو سکون ملتا ،
نظر تیز ہوتی، معدہ درست اورکھانا ہضم ہوتا ، عقل بڑھتی،بچوں کی پیدائش میں اضافہ
ہوتا ، بڑھاپا دیر میں آتا اور پیٹھ مضبوط ہوتی( نماز کے احکام صف72 بتصرف)
سویڈن Sweden)) کے سائنسدانوں کی ایک تحقیق کے مطابق
مسواک کے ریشے بیکٹریا کو چھوئے بغیر براہ راست ختم کردیتے ہیں اور یہ دانتوں اور
منہ کی صفائی نیز مسوڑھوں کی صحت کابہترین
ذریعہ ہے۔(مدنی انعامات میں 32، بتصرف)
کھانے کے وقت سیدھا پاؤں کھڑا کرکے کھانے سے اپینڈیکس (Appendix) پيٹ کی خطرناک بیماری سے بچاجاسکتا ہے۔
جنت میں حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ساتھ :
فرمانِ مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہے جس نے میری سنت سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت
کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔(مشکوة،ص ۳)
ترک سنت دین کے خاتمہ کا سبب :
دین اسلام کے مٹنے کی ابتدا ترکِ سنت سے ہوگی (دارمی صفحہ۴۵)
سنت سے رو گردانی رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے لاتعلقی کا سبب :
جس نے میری سنت سے رو گردانی کی اس کا مجھ سے کچھ تعلق نہیں(مشکوة ص ۲۷)
سنتِ رسول صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہی سیدھی راہ ہے ، فرمانِ مصطفی صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم ہے کہ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر موسیٰ تمہارے سامنے تشریف لے
آتے اور تم ان کی پیروی کرکے مجھے چھوڑ دیتے تو تم سیدھے راستے ے بہک جاتے ( دارمی
114)
عامر (علی سے مخاطب ہوتے ہوئے): اب تو امید ہے کہ آپ جان گئے ہوں گے کہ
سنتِ رسول صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کیوں ضروری ہے، اور ساتھ ہی اس کی اہمیت
بھی سمجھ آچکی ہوگی ۔
علی: جی ہاں ابا جان میرے علم میں اضافہ کرنے کے لیے ، جزاک اللہ خیراً،
نوٹ:یہ مضامین تحریری مقابلہ کے تحت لکھے گئے ہیں، تاکہ طلبہ و طالبات میں
تحریر کا شوق و جذبہ پیدا ہوا، کسی بھی خاص عمل کو سنّت قرار دینے کے لئے علمائے
اہل سنت سے رابطہ کیا جائے نیز مکتبۃ المدینہ کی کتاب”سنتیں اور آداب“ کا مطالعہ
کیا جائے۔