فرمانِ
مصطفیصلَّی اللہ
تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم :
مجھ پر درود شریف پڑھو، اللہ پاک تم پررحمت بھیجے گا۔
ہمارے پیارے پیارے آقا، مدینہ والے
مصطفی صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی سنت ہمیں زندگی کا روشن اور پر کیف حصہ
دکھاتی ہے۔
سنت سے منہ پھیرنے والا ہم میں سے نہیں، تاجدارِ مدینہ قرار قلب وسینہ
سلطان دو جہاں
صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان
ہے۔جو میری سنت سے منہ پھیرے گا وہ میرے گروہ میں سے نہیں۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اس فرمانِ مصطفی سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ
سنت کی پابندی ہماری زندگی میں کتنی اہم ہے ہمارے پیارے آقا کے ہر ایک عمل میں
ہمارے لیے کوئی نہ کوئی سبق ہے، اگر ہم ان کے بتائے ہوئےطریقوں پر عمل پیرا ہوں تو دنیا و
آخرت میں سرخرو ہوجائیں گے، اپنی زندگی کو معطر بنانے کے لیے ہمیں اپنے آپ کو
سنتوں کے مطابق ڈھالنا ہوگا زندگی کے ہر ایک پہلو میں سنتوں کا عمل دخل ہے، سنتیں
درحقیقت یہ بتاتی ہیں کہ زندگی کیسے گزاری
جائے،یہ زندگی کےاصل مقصد سے آگاہ کرتی ہیں، اسلام کے مطابق زندگی سنتوں پر عمل
کرکے ہی گزاری جاسکتی ہے، سنتیں ہماری زندگی کو منور کرتی ہیں۔
سینہ تیری سنت کا مدینہ ہے آقا
جنت میں پڑوسی مجھے تم اپنا بنانا
یقینا ہر ایک سنت قابل ذکر ہے ان میں سے چند ایک مذکور ہیں: ۱۔ ہر کام کا
آغاز بسم
اللہ شریف سے
کرنا۔۲۔ ہر حال میں نیکی کی دعوت دیناْ۳۔ سلام و مصافحہ کرنا۴۔ عاجزی اختیار
کرنا۵۔ حسن اخلاق۶۔ جانوروں پر رحم کرنا۔۷۔ بچوں کے ساتھ شفقت اور بڑوں کا احترام
کرنا۸۔ صبر کرنا۹۔ پڑوسیوں کا خیال رکھنا۱۰۔ عدل و انصاف کرنا۔آئیے کچھ
سنتوں پر تفصیلاً بات کرتے ہیں :
عدل و انصاف:
سرکار عالی وقار
مدينے کے تاجدار کی عظيم سنت ہے آپ رنگ و نسل ، قبیلے ، فرقہ رتبے اور رشتہ داری سے بلا امتیاز ہو کر
معاملے عدل و انصاف سے حل فرماتے :
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ قبیلہ قریش کی ایک عورت چوری کرتے ہوئے پکڑی گئی، قبیلہ کے کچھ لوگ قریش خاندان کی عزت کو محفوظ
رکھنے کے لیے اس عورت کو سزا سے بچانا چاہتے تھے انہوں نے حضرت اسامہ بن زید سے اس
عورت کے حق میں سفارش کی، حضرت اسامہ بن زید نے حضرت محمد صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ اس عورت کو معاف
کردیا جائے۔ یہ سن کر آپ پر جلال کی کیفیت طاری ہوگئی، آپ نے فرمایا: بنی اسرائیل کی قوم اس وجہ سے تباہ ہوگئی کہ وہ
غریبوں پر قانون لاگو کرتے اور امیروں کو معاف کردیتے۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو اس ایمان افروز واقعہ سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ
ہمیں بھی رنگ و نسل اور فرقہ واریت سے بلا امتیاز ہو کر معاملہ انصاف سے طے کرنا
چاہیے۔ حالانکہ وہ عورت ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے قبیلے سے تھی پھر بھی آپ نے اس
کی طرف داری نہ کی، کیونکہ ان کے نزدیک ان کے قبیلے کی عزت سے زیادہ ان تعلیمات کی
اہمیت تھی جو اللہ
تعالیٰ نے انہیں عطا
فرمائی۔
بیٹھنے کی
چند سنتیں :
آقا صلی
اللہ علیہ وسلم کا بیٹھنے کا انداز کچھ یوں تھا کہ،۱۔ اکثر قبلہ
رو ہو کر بیٹھے۔
۲۔ چار زانوں (یعنی پالتی مار کر) بیٹھنا بھی آپ سے ثابت ہے۔
۳۔ ایسی جگہ پر نہ بیٹھتے جہاں جسم کا کچھ حصہ دھوپ میں اور کچھ چھاؤں میں
ہو۔
ہمیں بھی چاہیے کہ بیٹھتے وقت ان سنتوں کو اختیار کریں اورجہاں تک ہوسکے
دوسروں کو بھی ان کی ترغیب دلائیں۔
فرمانِ مصطفی صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم: مونچھیں تراشواؤ اور داڑھی بڑھاؤ
آج کل معاملہ برعکس ہے کہ داڑھی کا
نشان نہیں ہے، اور مونچھیں بڑھائی جارہی ہیں لیکن مغرب کے ڈاکٹر کا کہنا ہے
مونچھیں کم کرو اور یعنی تراشواؤ ورنہ نقصان اٹھاؤ گے۔ انسانی جسم کے بعض اعضا
ایسے ہیں جہاں سے غیرضروری بالوں کو صاف کرنا ضروری ہے اس سے گندگی دور کرنے اور
پاک صاف رہنے میں مدد ملتی ہے، مونچھوں کا تراشنا یا مونڈ نا بھی اسی مقصد کے لیے ہے بڑھی ہوئی
مونچھیں ہمارے اندر جانے والے غذا اور پانی کو آلوداہ کرتی ہیں جس کی وجہ سے ہمارے
پیٹ میں گندگی پہنچتی رہتی ہے۔
نقش قدم نبی کے ہیں جنت کے راستے
اللہ سے ملاتے ہیں سنت کے
راستے
اللہ عزوجل کوسب سے زیادہ محبوب حضرت محمد
آقائے دوجہاں صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ہیں اور وہی عمل ہمارے پیارے پیارے آقاکو عطا فرمائے جو محبوب
ترین تھے وہی اعلیٰ شرف اور اللہ عزوجل کے محبوب ترین عمل جو حضور سے ظاہر ہوئے ، سنت کہلاتے ہیں، کیا ہم اتنے
بدنصیب ہیں کہ اللہ
رب العزت کے محبوب
ترین عمل کو نہیں اپناتے، ہمیں اپنے نفس کو ملامت کرنی چاہیے۔
اللہ اوررسول صلی اللہ تعالیٰ سے محبت کا بثوت دیتے ہوئے ہمیں سنتوں پر عمل کرنا چاہیے۔
نوٹ:یہ مضامین تحریری مقابلہ کے تحت لکھے گئے ہیں، تاکہ طلبہ و طالبات میں
تحریر کا شوق و جذبہ پیدا ہوا، کسی بھی خاص عمل کو سنّت قرار دینے کے لئے علمائے
اہل سنت سے رابطہ کیا جائے نیز مکتبۃ المدینہ کی کتاب”سنتیں اور آداب“ کا مطالعہ
کیا جائے۔