سنت دینِ اسلام کی بنیاد اور مصدر
کی حیثیت رکھتی ہے ۔
سنت کی تعریف:
نبیِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے قول ،فعل،تقریر اور خبروں کا نام ’’سنت‘‘ ہے ۔(نزھۃ النظر فی توضیح نخبۃ الفکر،صفحہ 41،مطبوعہ دارالمنھاج القویم،دمشق)
جس کے بارے
فرمانِ خدا ہے: تَرجَمۂ
کنز الایمان: ’’اور
جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو اور
جس سے منع فرمائیں باز رہو۔‘(تحت رقم الآیۃ،سورۃ
الحشر:آیۃ7)
سنت قرآن کی تشریح ہے:
قرآنِ مجید
نبیِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کاوہ عظیم معجزہ ہے،جو تمام عالَم میں ہدایتِ حق
کا اعلان کرتا ہے۔ اسی قرآن کی تفصیل و تشریح کے لیے آپ صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو سنت دی
گئی۔فرمانِ خداہے: تَرجَمۂ کنز الایمان: ’’اور ہم نے تم
پر یہ کتاب نہ اتاری مگر اس لیے کہ تم
لوگوں پر روشن کردو جس بات میں اختلاف کریں ۔(تحت رقم الآیۃ،سورۃ النحل:آیۃ64)
اس کے علاوہ کثیر آیاتِ سے واضح ہے کہ قرآن مجید کے
ساتھ سنتِ رسول کامقام ایک تفسیر و تشریح حیثیت رکھتا ہے۔
سنت کے بغیر قرآن پر عمل ممکن نہیں:
ان کے علاوہ کئی وجوہ ہیں جو قرآن پر مکمل عمل کرنے
کے لیےسنتِ رسول کی محتاجی کو واضح کرتی
ہیں۔چنانچہ حضرت خطیب بغدادی علیہ الرَّحمہ روایت فرماتے
ہیں:حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالٰی عنہ ،اپنے
اصحاب کے ساتھ تشریف فرماتھےکہ ایک شخص یوں عرض گزار ہواکہ ’’ہمیں فقط قرآن سنائیے۔‘‘آپ رضی
اللہ تعالٰی عنہ نے فرمایا:’’قریب آؤ‘‘،وہ قریب ہواتو
فرمایا:’’بتاؤ کہ اگر تمہیں اور تمہارے ساتھیوں کو قرآن دیا جائے تو کیا تم اس میں
ظہر وعصر کی چارچار رکعات پا لوگے؟کیامغرب کی تین رکعات اور ان میں سے دومیں قرأت (کی
مقدار) پالو گے؟کیا تم اس میں طوافِ کعبہ اورسعیِ صفاومروہ کے سات سات چکر پالو
گے؟‘‘،پھر فرمایا:’’اے قوم! ہم سے (احادیث) لے لو،اللہ کی قسم! اگر
تم نے ایسا نہ کیاتو ضرور گمراہ ہوجاؤ گے۔‘‘(
کتاب الکفایۃ فی علم الروایۃ،لخطیب بغدادی،صفحہ15،دارالمعارف،ھند۔)
سنت پر عمل حکمِ قرآنی ہے:
کثیر آیات صراحت سے سنت پر عمل کے وجوب کوبیان کرتی
ہیں۔قرآن میں ہے: تَرجَمۂ کنز الایمان: ’’اور حکم مانو
اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ہوشیار رہو۔‘‘ (تحت رقم الآیۃ،سورۃ المائدۃ:92)
سنت کی نافرمانی گمراہی ہے:
ایک گھرانے کی طرف رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک صحابی
کےلیے پیغامِ نکاح بھیجا،تو انہوں نے اس صحابی سے رشتے کرنے کو منظور نہ کیا،تب یہ
آیت نازل ہوئی ۔( صراط الجنان،جلد8،پارہ22،سورۃ الاحزاب،تحت رقم الآیۃ:36)
تَرجَمۂ کنز الایمان: ’’اور کسی مسلمان مرد نہ مسلمان عورت کو پہنچتا ہے
کہ جب اللہ و رسول کچھ حکم فرمادیں تو اُنہیں اپنے
معاملہ کا کچھ اختیار رہے اور جو حکم نہ مانے اللہ اور اس کے
رسول کا وہ بےشک صریح گمراہی بہکا۔‘‘ (تحت رقم الآیۃ،سورۃ
الاحزاب:آیۃ 36)
غور طلب امریہ ہے کہ یہ خالص ان کاگھریلو معاملہ
تھا،جو خود شریعت نے ان کے حوالے کیا تھا۔مگر جب نبیِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی رائے کے خلاف ہواتو قرآن نے اسے شدید مخالفت
اورنافرمانی تصور کیا،اور اس پر اس گھرانے کو عتاب کیا۔اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ان
امور کی اہمیت کا کیا عالَم ہوگا،جس میں آقا صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت واتباع واجب ہے؟
سنت ہدایت کارستہ ہے:کثیر احادیث میں زندگی کے
تمام امور میں ہر چھوٹے اوربڑے ،ادنیٰ اوراعلیٰ کو ہرحالت میں سنت سے ہدایت لینے
کو ضروری قرار دیا گیا ہے۔
حدیث میں ہے: ’’تم پر میری اور ہدایت یافتہ خلفاءِ راشدین کی سنت لازم ہے،اسے دانتوں سے
مضبوط پکڑلو،نئی بات سے دور رہو کہ ہر نئی چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔(‘‘
السنن لابی داؤد،باب فی لزوم السنۃ،صفحہ1169،حدیث4607،مطبوعہ دارِ ابنِ کثیربیروت)
سنت باعثِ اجر
ہے:
رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے خود سنت پر ابھارا ہے ؛کیونکہ یہ
اجر میں زیادتی کاباعث بنتی ہے۔حدیث میں ہے: ’’جس نے میری سنتوں میں سے کسی ایسی سنت کو زندہ کیا،جو میرے
بعد مٹ چکی ہو،تو اس کو اس سنت پر عمل کرنے والوں کا بھی اجر ملے گا،بغیر ان عمل
کرنے والوں کے اجر میں کسی کمی کے۔‘‘ (السنن للترمذی،کتاب العلم،باب ماجاء فی
الاخذ بالسنۃ واجتناب البدع،صفحہ 986،حدیث 2677،مطبوعہ دار ابن کثیربیروت،)
اور فرمایا: ’’فسادِ امت کے
وقت ،میری سنتوں کو مضبوطی سے تھامنے والے کے لیےسو شہیدوں کاثواب ہے۔(‘‘ المعجم
الاوسط للطبرانی،جلد5،صفحہ315،حدیث5414،مطبوعہ دار الحرمین،القاہرہ )
اللہ پاک ہمیں نبیِ کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنتوں پر عمل کا جذبہ عطا فرمائے۔آمین بجاہ
النبی الامین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم