قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ
فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ
رَّحِیْمٌ(۳۱)
تَرجَمۂ
کنز الایمان: اے محبوب تم فرمادو
کہ لوگو اگر تم اللہ
کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ آل
عمران ،31)
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ
اللّٰهَۚ- تَرجَمۂ کنز الایمان: جس نے رسول کا حکم مانا بے شک اُس نے اللہ کا حکم مانا ۔(النساء 80)
انسان کے زندگی گزارنے کے بہت سے طریقے ہیں ہر مذہب کا اپنا طریقہ ہے مگر
مسلمانوں کے لیے زندگی گزارنے کا بہترین طریقہ کیا ہے اس کی رہنمائی ہمیں قرآن
عظیم نے فرمادیا:لَقَدْ
كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ تَرجَمۂ کنز الایمان: بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے (احزاب ،21)
معلوم ہوا کہ سرکار دوعالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہر ہر ادا زندگی گزارنے کے سنہری اصول ہیں، آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ
وسلَّم کی زندگی سارے عالم کے لیے عملی نمونہ
ہے، دنیا میں کوئی ایسی ہستی نہیں جن کے اقوال و اطوار ہر ہر لمحہ قلم بند ہوں ،
یہ شان صرف تاجدار رسالت صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ہے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہر ہر
اد ابے مثال ہے ہر ادا میں فائدہ اور سارے
عالم کے لیے حکمتوں کا خزینہ ہے۔
آقا صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیاری اداؤں کو نہ صرف صحابہ کرام لکھ لیتے بلکہ اس پر کمال یہ تھا کہ پیارے آقا صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کی ہر ادا کو اپنانے کی کوشش فرماتے۔سرکار صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کی سنت فلاح کا راستہ ہے ، ہدایت
کانور ہے کامیابی اورکامرانی کی طرف جانے کا راستہ ہے ، قربِ رسول صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کاذریعہ ہے دعویٰ محبت کی دلیل ہے۔
آپ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے سنت پر عمل کرنے کے خود بے شمارفضائل بیان
فرمائے ہیں۔
مثلاآپ صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے فرمانِ عالیشان کا مفہوم ہے جس نےمیری سنت سے
محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔(مشکوة المصابیح ، کتاب
الایمان باب الاعتصام بالکتاب والسنہ) اسی
طرح درس سنت دینا بھی بہت فضیلت کا باعث ہے۔
سرکار مدینہ ، راحت ِ قلب و سینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، جو شخص میری امت
تک کوئی اسلامی بات پہنچائے تاکہ اس سے
سنت قائم کی جائے، یا اس سے بدمذہبی دور کی جائے تو وہ جنتی ہے۔(حلیۃ الاولیا1436 )
اسی طرح ایک حدیث پاک میں ارشاد فرمایا جس کا مفہوم ہے : فساد امت کے وقت
جس نے میری ایک سنت کو زندہ کیا اسے سوشہیدوں کا ثواب ملے گا۔
حضرت بلال بن حارث مزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے سرکار اعظم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس نے میری کسی سنت کورواج
دیاجو میرے بعد متروک ہوگئی تھی تو اس کو سنت پر عمل کرنے والوں کے برابر ثواب ملے
گا، عمل کرنے والوں کے ثواب میں کسی قسم کی کمی کیے بغیر اور کسی نے کوئی گمراہی
میں ڈالنے والی چیز گڑھی جس سے نہ اللہ راضی ہو اور نہ اس کا رسول تو اس
کو عمل کرنے والوں کے مجموعی گناہوں کے برابر گناہ ملے گا، ان کے گناہوں میں کسی قسم کی کمی کیے بغیر ۔(ترمذی شریف، ابن
ماجہ شریف)
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ سرکار ِ اعظم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: میری سنت اور خلفائے راشدین کی سنت کو مضبوطی سے
تھامے رہنا اور سختی سے اس پر کاربند رہنا اور نئی گڑھی باتوں سے بچتے رہنا کیونکہ ہر نئی گڑھی ہوئی بات بدعت ہے
اوربدعت گمراہی،(ترمذی ، ابن ماجہ)
یہاں ایک نکتہ یاد رہے کہ بدعت
سے مراد بدعت سیئہ ہے بدعت حسنہ کی ممانعت نہیں ہے۔جیساکہ دوسری روایت میں بدعت حسنہ
یعنی اچھا طریقہ ایجاد کرنے والے کو عمل کرنے والوں کی مثل ثواب ملتا ہے،اسی طرح بخاری شریف کی حدیث مبارکہ 2179 ہے:
عبدالعزیز بن عبداللہ لیث، حضرت ابولیث سعید حضرت ابوہریرہ نبی اکرم صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہر
نبی کو جس قدر آیات دی گئی ہیں اسی قدر ان
پر ایمان لایا گیا اور مجھے تو وحی دی گئی ہے، جو اللہ تعالیٰ نے میری طرف بھیجی ہے اس لیے مجھے
امید ہے کہ قیامت کے دن میری پیروی کرنے والے لوگ بہت زیادہ ہوں گے۔
بخاری شریف کی ایک اور حدیث پاک کا مفہوم ہے حدیث نمبر 2177:اسماعیل مالک
عبداللہ
بن دینار سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے عبدالملک بن مروان کے پاس بیعت
کا خط بھیجا کہ جس قدر مجھ سے ہوگا اللہ او اس کے رسول کی سنت پرسننے اور اطاعت کرنے کا ا قرار کرتا
ہوں۔
اسی لیے صحابہ کرام سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ہرہر ادا کو اپنانے کی کوشش کیا کرتے تھے اور
ہمارے اسلاف کا یہی طریقہ کار رہا ہے کہ وہ اپنی زندگی کے ہر کا م کوسرکار صلی اللہ علیہ
وسلم کی سنت کے
مطابق گزارنے کی کوشش کیا کرتے۔ انسان کو
روزمرہ زندگی میں بہت سے کام کرنے ہوتے ہیں جیسے کھانا پینا سونا جاگنا میل جول ،
شادی ، غمی لباس پہننا اتارنا سفر کرنا، اور دیگربے شمار کام اگر ایک مسلمان ہر کام سنت کے مطابق کرے گا اس کا وہ کام بھی ہوجائے گا اور سنت پر عمل کرنے
کا ثواب بھی حاصل ہوگا، اور جو بھی کام سنت کے مطابق کیا جائے اس کام میں برکت
ہوتی ہے۔ ہمارے صحابہ کرام علیہم الرضوان اور اسلاف کرا م تو سنت پر عمل
کرتے ہی آئے ہیں، مگر میرے آقا و مولی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے آج سے چودہ سو سال پہلے جو فرمایا اب جا کر اس پر تحقیق ہورہی ہے اور
سائنس اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ مسلمانوں کے نبی کی ہر ادا میں کمال اور حکمت ہے۔
ایک سائنس دان نے یہاں تک لکھ دیا کہ مسلمانوں کو علاج کی کوئی ضرورت نہیں کیوں کہ ان کے نبی کی
تعلیمات پر عمل ان کے لیے بیماری سے شفا ہے پریشانیوں سے رہائی اور حکمتوں کا چشمہ ہے۔
آج کے اس پرفتن دور میں دعوت اسلامی کے مدنی ماحول میں بکثرت سنتیں سیکھی اور سکھائی جاتی ہیں، عشقِ رسول صلی اللہ تعالیٰ
علیہ وسلم کے جام پلائے جاتے ہیں، بلاشبہ بانی دعوت اسلامی شیخ
طریقت امیر اہلسنت کی ذاتِ مبارکہ سنت مصطفی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ایک جیتی جاگتی تصویر ہے آپ نے
نہ صرف خود سنت پر عمل کیا بلکہ لاکھوں مسلمانوں کو سنت کا پیکر بنادیا اللہ تعالیٰ آپ کا سایہ ہم پر سلامت رکھے اور
ہمیں سنتو ں کا حقیقی پیکر بنائے۔ آمین
امیر اہلسنت اپنے مشہور زمانہ نعتیہ کلام کے ایک شعر میں بارگاہِ رسالت میں
عرض کرتے ہیں:
تیری سنتوں پر چل کر میری روح جب نکل
کر
چلے تم گلے لگانا
مدنی مدینے والے
نوٹ:یہ مضامین تحریری مقابلہ کے تحت لکھے گئے ہیں، تاکہ طلبہ و طالبات میں
تحریر کا شوق و جذبہ پیدا ہوا، کسی بھی خاص عمل کو سنّت قرار دینے کے لئے علمائے
اہل سنت سے رابطہ کیا جائے نیز مکتبۃ المدینہ کی کتاب”سنتیں اور آداب“ کا مطالعہ
کیا جائے۔