دنیا کا یہ دستو رہے کہ جو جس سے محبت کرتا ہے تواسی کی ہی اتباع ہوتی ہے کہ میں اس کی ہر ہر ادا کو اپناؤں اور
حضور صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محبت ایما ن کے کامل ہونے کا سبب ہے اور
محبت کا تقاضاتو یہ تھا کہ ہم حضور علیہ السلام کے ہر قو ل و فعل پر عمل کرتے مگر آج کل بے
باکی کا دور دورہ ہے جہالت دن بدن فروغ پارہی ہے فرائض وسنن کی پابندی تو کجا ان کے بارے میں علم تک حاصل نہیں کیا
جاتا، حالانکہ اسلام میں سنت کی اہمیت ایسے ہے جیسے ستون کی اہمیت عمارت میں سنت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا
جاسکتا ہے کہ قرآن پاک میں سنت پر عمل کرنے والوں کو بڑی کامیابی کا مژدہ (خوش
خبری) سنائی گئی ہے، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ
فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا(۷۱) تَرجَمۂ کنز الایمان: اور جو اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری
کرے اس نے بڑی کامیابی پائی۔ (سورہ احزاب آیت 71)
اور ایک مقام پر ارشاد رب العباد ہے : قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ
فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ
تَرجَمۂ کنز الایمان: اے محبوب تم فرمادو
کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو
تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے
گا ۔
یہ تو تھا قرآن سے سنت کا بیان آئیےاب احادیثِ طیبہ سے سنت کی اہمیت کو
جانتے ہیں۔
۔ حضرت سیدعبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ پاک
کے محبوب صلی
اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا فرمان عالی شان ہے ہر عمل میں ایک رغبت ہوتی ہے اور ہر رغبت کے لیے سکون ہوتا ہے
تو جس کا سکون میری سنت میں ہو وہ ہدایت
پا گیا اور جس کا سکون میری سنت کے غیر میں ہو تو وہ ہلا ک ہوگیا۔( الاحسان بترتیب
صحیح ابن حبان بالسنة الحدیث ۱۱)
دنیا وآخرت
کی سعادت:
حدیث پاک کے حصے( جس کا سکون میری
سنت میں ہو وہ ہدایت پا گیا)، اس کے تحت علامہ عبدالغنی نابلسی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ ہر
وہ شے جس کی طرف وہ متوجہ تھا اور ہر وہ
معاملہ جس میں وہ منہمک تھا اسے ترک کردیا اور سنت نبوی اور طریقہ محمدی میں مشغول ہو گیا تو وہ دنیا اور آخرت میں سعادت مند ہو گیا ۔ (اصلاح
اعمال ص ۴۲ مطبوعہ مکتبہ المدینہ )
دنیا و
آخرت کی ہلاکت :
حدیث پاک کے حصے(جس کا سکون میری سنت کے غیر میں ہو تو وہ ہلا ک ہوگیا) س
کے تحت علامہ عبدالغنی نابلسی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں : یعنی وہ سنت کی چھوڑ دیتا ہے اور
بدعت (سیئہ ) یا کسی دوسرے کام میں مشغول
ہوجاتا ہے اور وہ یوں راہ رسنت سے منہ موڑنے والا بن جاتا
ہے اور جو ایسا کرتا ہے وہ گمراہی
کےسبب ہلاکت میں پڑ جاتا ہے ۔(ایضاً)
۲۔ حضرت ابوہریرہرہرضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : فساد کے وقت میری سنت پر عمل کرنے والے کے لیے
سوشہیدوں کا اجر ہے۔( شفا شریف ج ۲، ص ۱۲ مرکز اہل سنت برکات رضا)
بزرگان دین کے نزدیک
سنت کی اہمیت :
1۔حضرت
صدیق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اپنے پہلے خطبے میں یہ بھی ارشاد فرمایا کہ جب تک میں اللہ اور اس کے رسول صلَّی
اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت کرتا رہوں تو تم بھی میری اطاعت کرتے رہو اور
جب میں اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرنے لگوں تو اس وقت تم پر میری اطاعت کی کوئی پابندی نہیں (فیضان صدیق اکبر 326)
2۔
حضرت امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
سنت پر عمل کے علاوہ کوئی چارہ نہیں (شفا شریف
،15)
3۔
حضرت عثمان حیری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
جس نے اپنے آپ پر سنتِ قولی و فعلی کو حاکم بنایا اس نے حکمت کی باتیں کیں ۔ (ایضا ً)
سنت پر عمل کے فوائد
:
1۔جنت
میں داخلے کے اسباب میں سے ایک سبب سنت پر عمل کرنا بھی بیان کیا گیا ہے ۔
2۔
سنت پر عمل کرنے پر اللہ پاک نے
ثواب عظیم کا وعدہ فرمایا ہے ۔
3
۔ سنت پر عمل کرنا اللہ پاک کی رضا کا بہترین ذریعہ ہے
4۔ ایک مرتبہ
سفر میں آنکھوں کے ایک ڈاکٹر کی ملاقات
حضور حافظ ملت علیہ الرحمہ سے ہوئی اور اس وقت حضور حافظ
ملت کی عمر شریف 70 سال سے اوپر ہو چکی
تھی ڈاکٹر صاحب باربار آپ کو حیرت سے
دیکھتے رہے دوران ِ گفتگو ڈاکٹر صاحب نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہ مولانا
صاحب اس عمر میں بھی آپ کی بینائی میں کوئی فرق نہیں بلکہ آپ کی آنکھوں میں
بچوں کی آنکھوں جیسی چمک ہے ۔ مجھے بتائے
اس کے لیے آخر کیا چیز استعمال کرتے ہیں
۔فرمایا ڈاکٹر صاحب میں کوئی خاص دوا تو استعمال نہیں کرتا ہاں ایک عمل ہے جسے میں
بلا ناغہ کرتا ہوں رات کو سوتے وقت سنت کے مطابق سرمہ استعمال کرتا ہوں اور میرا
یقین ہے اس عمل سے بہتر آنکھوں کے لئے
دنیا کی کوئی دوا نہیں ہو سکتی ۔ (نیکی کی
دعوت ، 214)