تمام تعریفیں
اس ذات کے لیے ہیں جس نے آپ صلی علیہ وآلہ وسلم کے ذریعے لوگوں کی رہنمائی فرمائی
اور لوگوں کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کو بہترین نمونہ بنایا ، حضور نبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف انداز سے لوگوں کی تربیت فرمائی، رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کا کسی بات کو واضح کرنے کے لیے "اتانی" جیسے عربی
الفاظ کے ساتھ سمجھانے کا اسلوب بہت حکمت آمیز اور جامع تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم کی گفتگو ہمیشہ حکمت، اختصار اور تاثیر کا نمونہ ہوا کرتی تھی۔
رسولِ اکرم صلی
اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گفتگو فصاحت و بلاغت کا شاہکار ہوتی تھی، آپ کا ہر جملہ
حکمت سے بھرپور اور ہر لفظ سامع کے دل میں اتر جانے والا ہوتا تھا۔ آپ جب کسی بات
کو سمجھاتے، تو الفاظ کا ایسا انتخاب فرماتے جو نہ صرف مخاطب کی ذہنی سطح کے مطابق
ہوتا بلکہ اس میں تاثیر بھی نمایاں ہوتی۔ ایسے ہی ایک انداز میں، آپ صلی اللہ علیہ
وآلہ وسلم نے بعض مواقع پر لفظ ”اتانی“ استعمال فرما کر تربیت فرمائی۔ایسی چند
احادیث ملاحظہ کیجیے :
رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں لفظ "أتانی" (میرے پاس آیا) کا استعمال
اُن مواقع کی نشاندہی کرتا ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی یا ہدایت موصول
ہوئی۔
(1)
گندگی والے جوتوں میں نماز: إن الملك أتاني فأخبرني أن بنعلي أذى، فإذا جاء أحدكم إلى
باب المسجد فليقلب نعليه، فإن رأى فيهما شيئا فليمسحهما، ثم ليصل فيهما أو
ليخلعهما إن بدا له طس عن أبي هريرة
ترجمہ: فرشتہ
میرے پاس آیا تھا اور اس نے مجھے خبر دی تھی کہ میرے جوتے میں گندگی لگی ہوئی ہے،
پس جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں آیا کرے تو پہلے اپنے جوتوں کو الٹ پلٹ کر دیکھ
لیا کرے اگر ان میں کچھ لگا ہوا ہو تو اس کو صاف کردیا کرے پھر ان میں نماز پڑھ لے
یا اگر چاہے تو
نکال دے۔ (الاوسط للطبرانی عن ابو ہریرہ ۔ کنزالعمال ،کتاب: نماز کا بیان، باب الإکمال
، حدیث نمبر: 20130، جلد 7، صفحہ 534)
(2)
شفاعت کے بارے میں فرمان: عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ، قَالَ:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَتَانِي آتٍ مِنْ
عِنْدِ رَبِّي فَخَيَّرَنِي بَيْنَ أَنْ يُدْخِلَ نِصْفَ أُمَّتِي الْجَنَّةَ
وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ، فَاخْتَرْتُ الشَّفَاعَةَ، وَهِيَ لِمَنْ
مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا
ترجمہ: عوف بن
مالک اشجعی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میرے رب کی طرف سے ایک
آنے والا (جبرائیل علیہ السلام) میرے پاس آیا اور مجھے اختیار دیا کہ میری آدھی
امت جنت میں داخل ہو یا یہ کہ مجھے شفاعت کا حق حاصل ہو، چنانچہ میں نے شفاعت کو اختیار کیا، یہ شفاعت ہر
اس شخص کے لیے ہے جس کا خاتمہ شرک کی حالت پر نہیں ہوگا ۔ (جامع ترمذی، کتاب: قیامت
کا بیان، باب: اسی کے متعلق، حدیث نمبر: 2609، جلد 4، صفحہ 199، حدیث نمبر: 2449 )
(3)
درودشریف کی فضیلت: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ جَاءَ
النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا وَهُوَ يُرَى الْبِشْرُ فِي
وَجْهِهِ فَقِيلَ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا نَرَى فِي وَجْهِكَ بِشْرًا لَمْ
نَكُنْ نَرَاهُ قَالَ أَجَلْ إِنَّ مَلَكًا أَتَانِي فَقَالَ لِي يَا مُحَمَّدُ
إِنَّ رَبَّكَ يَقُولُ لَكَ أَمَا يُرْضِيكَ أَنْ لَا يُصَلِّيَ عَلَيْكَ أَحَدٌ
مِنْ أُمَّتِكَ إِلَّا صَلَّيْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا وَلَا يُسَلِّمَ عَلَيْكَ
إِلَّا سَلَّمْتُ عَلَيْهِ عَشْرًا قَالَ قُلْتُ بَلَى
ترجمہ: حضرت
عبداللہ بن ابوطلحہ اپنے والد کا یہ بیان نقل کرتے ہیں ایک مرتبہ نبی اکرم ﷺ تشریف
لائے آپ کے چہرے پر خوشی کے آثار تھے تو عرض کی گئی یا رسول اللہ آج ہم آپ کے چہرہ
مبارک پر ایسی خوشی دیکھ رہے ہیں جو ہم نے پہلے نہیں دیکھی نبی اکرم ﷺ نے جواب دیا
:ہاں !ابھی فرشتہ میرے پاس آیا تھا اور اس نے مجھ سے کہا اے محمد آپ کا پروردگار
آپ سے یہ فرما رہا ہے کہ کیا آپ اس بات سے راضی نہیں ہیں کہ جو شخص آپ پر درود بھیجے گا میں اس پردس رحمتیں
نازل کروں گا جو شخص آپ پر سلام بھیجے گا میں اس پردس مرتبہ سلام بھیجوں گا تو نبی
اکرم ﷺ فرماتے ہیں میں نے کہا ہاں۔ میں اس بات سے راضی ہوں۔(سنن دارمی، کتاب: دل
کو نرم کرنے والی باتوں کا بیان، باب: نبی اکرم ﷺ پر درود بھیجنے کی فضیلت، حدیث
نمبر: 2815، جلد: 3، صفحہ: 1825)
(4)
حضرت فاطمۃ الزہرا ، امام
حسن و حسین کی فضیلت:أتاني ملك فسلم علي، نزل من
السماء لم ينزل قبلها، فبشرني أن الحسن والحسين سيدا شباب أهل الجنة وأن فاطمة
سيدة نساء أهل الجنة. ابن عساكر - عن حذيفة
ترجمہ: رسول
اللہ ﷺ نے فرمایا: ایک فرشتہ میرے پاس آیا پس اس نے مجھے سلام کیا جو آسمان سے اترا اور اس سے پہلے
کبھی نہیں اترا اس نے مجھے خوشخبری دی
کہ حسن اور حسین رضى الله عنهما جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں اور بیشک فاطمہ رضى
الله عنها جنتیوں کے عورتوں کی سردار ہیں۔ (ابن عساکر بروایت حذیفہ۔کنزالعمال، کتاب: فضائل کا
بیان، باب: حضرت حسنین کا تذکرہ، حدیث نمبر: 34217 ، جلد:12، صفحہ:107)
یہی وہ اندازِ
بیان تھا جس نے عرب کے فصیح و بلیغ افراد کو بھی حیران کر دیا، اور یہی وہ حکمت تھی
جس کی بدولت اسلام کا پیغام عام فہم اور دل نشین ہو کر پھیلا۔ ہمیں بھی چاہیے کہ
ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اس اسلوبِ بیان سے راہنمائی لیتے ہوئے
بات کو واضح اور مؤثر انداز میں پیش کرنے کی کوشش کریں، تاکہ سننے والے کے دل میں
اثر پیدا ہو اور وہ حق کی طرف مائل ہو جائے۔