عبد الرحمن بن امجد عطاری ( درجہ
خامسہ جامعۃ المدینہ فیضان فاروق اعظم سادھوکی لاہور ، پاکستان)
رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرامین مبارکہ ہر انسان کے لیے مشعلِ راہ ہیں اور ان فرامین کو اپنا کر انسان اپنی
زندگی کو بدل سکتا ہے اور حضور نے انسان کی ہر معاملے میں تربیت فرمائی اس میں ایک
لفظ جو احادیث طیبہ میں ملتا ہے وہ لفظ اتانی بھی ہے تو اس کے متعلق حضور صلی اللہ
علیہ وآلہ وسلم کے فرامین کو سنتے ہیں:
(1)
اللہ عزوجل کی بندوں سے محبت: عَنْ اَنَسٍ رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُ عَنِ النَّبِیِّ صَلَّی
اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَرْوِیہِ عَنْ رَبِّہِ قَالَ:اِذَا تَقَرَّبَ
الْعَبْدُ اِلَیَّ شِبْرًا تَقَرَّبْتُ اِلَیْہِ ذِرَاعًا، وَاِذَا تَقَرَّبَ
مِنِّی ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ مِنْہُ بَاعًا، وَاِذَا اَتَانِیْ مَشْیًا اَتَیْتُہُ
ہَرْوَلَۃً.
ترجمہ: حضرت
سَیِّدُنااَنَس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ حضور نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے روایت کرتے ہیں اور آپ صَلَّی اللہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ سے روایت کرتے ہیں کہ
ربّ عَزَّوَجَلَّ نے ارشاد فرمایا :جب بندہ مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو میں
اس سے ایک گز قریب ہوتا ہوں اور جب وہ مجھ سے ایک گز قریب ہوتا ہے تو میں اس سے دو
گز قریب ہو جاتا ہوں اور جب وہ میرے پاس چل کر آتا ہے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا
ہوں ۔
حدیث
کی شرح: حدیث کے ظاہری معنی کی
وضاحت:علامہ اَبُو زَکَرِیَّا یَحْیٰ بِن شرف
نووی فرماتے ہیں : ’’ اس حدیث کا ظاہری معنی لینا محال ہے (کیونکہ اللہ
عَزَّوَجَلَّ چلنے یا دوڑنے سے پاک ہے) ۔حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جو شخص عبادت کے ذریعے
میرا قرب حاصل کرتا ہے تو میں اپنی توفیق، رحمت اور اعانت اس کے قریب کر دیتا ہوں ۔بندہ جتنی زیادہ عبادت کرتا ہے
میں اتنا ہی زیادہ اس کی طرف متوجہ ہوتا ہوں اور اس پراپنی رحمت نچھاور کرتا ہوں ۔
‘‘(فیضان ریاض الصالحین جلد:2،صفحہ :164،حدیث نمبر:96 )
(2)
نبی ہونا معلوم ہوا:وَعَنْ أَبِي ذَرٍّ الْغِفَارِيِّ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللّٰهِ
كَيْفَ عَلِمْتَ أَنَّكَ نَبِيٌّ حَتّٰى اسْتَيْقَنْتَ فَقَالَ: يَا أَبَا ذَرٍّ!
أَتَانِي مَلَكَانِ وَأَنَا بِبَعْضِ بَطْحَاءِ مَكَّةَ، فَوَقَعَ أَحَدُهُمَا
عَلَى الأَرْضِ وَكَانَ الْآخَرُ بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ فَقَالَ
أَحَدُهُمَا لِصَاحِبِهٖ: أَهُوَ هُوَ قَالَ: نَعَمْ. قَالَ: فَزِنْهُ بِرَجُلٍ
فَوُزِنْتُ بِهٖ فَوَزَنْتُهٗ ثُمَّ قَالَ: زِنْهُ بِعَشَرَةٍ فَوُزِنْتُ بِهِمْ
فَرَجَحْتُهُمْ ثُمَّ قَالَ: زِنْهُ بِمِئَةٍ فَوُزِنْتُ بِهِمْ فَرَجَحْتُهُمْ
كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِمْ يَنْتَثِرُونَ عَلَيَّ مِنْ خِفَّةِ الْمِيزَانِ.
قَالَ: فَقَالَ أَحَدُهُمَا لصَاحبه: لَوْ وَزَنتُهٗ بِأُمَّتِهٖ لَرَجَحَهَا
ترجمہ: روایت
ہے حضرت ابو ذر غفاری سے فرماتے ہیں میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی الله علیہ
وسلم آپ نے کیسے جانا کہ آپ اللہ کے نبی ہیں حتی کہ آپ نے یقین کرلیا تو فرمایا
اے ابو ذر میرے پاس دو فرشتے آئے جب کہ میں مکہ کے بعض پتھریلے علاقہ میں تھا تو
ان میں سے ایک تو زمین کی طرف آگیا اور دوسرا آسمان و زمین کے درمیان رہا تو ان میں
سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کیا یہ وہ ہی ہیں اس نے کہا ہاں اس نے کہا کہ انہیں ایک
شخص سے تولو میں اس سے تولا گیا تو میں وزنی ہوا پھر اس نے کہا کہ انہیں دس سے
تولو تو میں ان سے تولا گیا میں ان پر وزنی ہوا،پھر اس نے کہا کہ انہیں سو سے تولو
میں ان سے تولا گیا
میں ان پر بھاری ہوا گویا میں انہیں دیکھ رہا ہوں کہ وہ پلہ ہلکا ہونے کی وجہ سے
مجھ پر گرے پڑتے ہیں تو ان میں سے ایک نے اپنے ساتھی سے کہا کہ اگر تم انہیں ان کی
پوری امت سے تولو تو بھی یہ سب پر بھاری ہوں گے۔ (مشکوٰۃ المصابیح ، باب فضائل سید
المرسلین ،جلد:2، فصل ثالث،صفحہ: 524،حدیث نمبر: 5523)
اللہ عزوجل سے
دعا ہے کہ وہ ہم سب کو اپنی اور اپنے رسول کی محبت عطا فرمائے ۔ آمین بجاہ خاتم
النبیین صلی اللہ علیہ وسلم