یوں تو نمازِ پنجگانہ کے بے شمار فضائل و برکات ہیں، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ہر نماز کی اپنی الگ حیثیت ہے، اسی طرح نمازِ عشا پڑھنے والوں کے لئے برکتوں اور فضیلتوں کی نویدہوتی ہے۔عشا کے لغوی معنی رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں، چونکہ یہ نماز اندھیرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے، اس لئے اس نماز کو نمازِ عشا کہا جاتا ہے۔نمازِ عشا کی فضیلت پر چند فرامینِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم :1۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:سب نمازوں میں زیادہ گراں یعنی بوجھ والی منافقوں پر نمازِ عشا اور فجر ہے اور جو ان میں فضیلت ہے اگر جانتے تو ضرور ضرور حاضر ہوتے، اگرچہ سرین(یعنی بیٹھنے میں بدن کا جو حصہ زمین پر لگتا ہے اس) کے بل گھسٹتے ہوئے، یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔(ابن ماجہ، جلد 1، صفحہ437، حدیث797)2۔ تابعی بزرگ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ سرورِ دوجہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت (یعنی پہچان)عشا اور فجر کی نماز میں حاضر ہونا ہے، کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔(مؤطا امام مالک، جلد 1، صفحہ 133،حدیث 298) حضرت علامہ عبدالرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:اس حدیثِ مبارکہ میں بیان کردہ منافقت سے مراد نفاق عملی ہے۔3۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے چالیس دن فجرو عشا باجماعت پڑھی،اس کو اللہ پاک دو آزادیاں عطا فرمائے گا،ایک نار(یعنی آگ) سے، دوسری نفاق(یعنی منافقت) سے۔(ابن عساکر، جلد 52، صفحہ 338)4۔ امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے:جو چالیس راتیں مسجد میں باجماعت نمازِ عشا پڑھےکہ پہلی رکعت فوت نہ ہو، اللہ پاک اس کے لئے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے۔(ابن ماجہ، ج1، صفحہ 931،حدیث798)5۔ امیر المؤمنین حضرت عثمان ِغنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو نمازِ عشا جماعت سے پڑھے، گویا(یعنی جیسے) اس نے آدھی رات قیام کیا اور جو فجر جماعت سے پڑھے گویا(جیسے) اس نے پوری رات قیام کیا۔( مسلم،صفحہ258،حدیث:1491)سبحان اللہ!ہر نماز ہمارے لئے اللہ پاک کا تحفہ اور نعمت ہے، جس میں ہمارے لئے دنیا و آخرت کی بھلائی ہے، اللہ پاک ہمیں پابندی کے ساتھ نماز پنجگانہ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین

تو پانچوں نمازوں کی پابند کردے پئے مصطفی ہم کو جنت میں گھر دے


عشا کے لغوی معنیٰ:رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں،چونکہ یہ نماز اندھیرا ہوجانے کے بعد ادا کی جاتی ہے، اس لئے اِس نماز کو عشا کی نماز کہا جاتا ہے۔(شرح مشکل الآثار للطعاوی، ج3، ص 34، 31ملخصاً)سب سے پہلے نمازِ عشا پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ادا فرمائی۔ (شرح معانی الآثار رضویہ، ج7، ص 402 تا 408)، نمازِ عشا حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی امت کی خصوصیت ہے اور نمازِ پنجگانہ (یعنی 5وقت کی نمازیں) بھی۔ حضرت کعب الاحبار رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: میں نے توریت کے کسی مقام پر پڑھا جس کا جز یہ ہے کہ اے موسیٰ! شفق ڈوب جانے کے وقت یعنی عشا کی چار رکعتیں ہیں، پڑھیں گے انہیں احمد اور ان کی امت، وہ دنیا و مافیہا (یعنی دنیا اور اس کی ہر چیز ) سے ان کے لئے بہتر ہے، وہ انہیں گناہوں سے ایسا نکال دیں گی جیسے اپنی ماؤں کے پیٹ سے پیدا ہوئے۔(حاشیہ فتاویٰ رضویہ، مخرجہ، ج5، ص 52 تا 54)حضرت عثمانِ غنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو نمازِ عشا جماعت سے پڑھے گویا(یعنی جیسے)اُس نے آدھی رات قیام کیا۔(مسلم، ص 258، حدیث 1491)حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے،سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے 40 دن فجر و عشا باجماعت پڑھی، اس کو اللہ پاک 2 آزادیاں عطا فرمائے گا، ایک نار(یعنی آگ)سے دوسری نفاق(یعنی منافقت سے)۔ (ابن عساکر 52، ص 338)امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی الله عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے:جو چالیس راتیں مسجد میں باجماعت نمازِ عشا پڑھے کہ پہلی رکعت فوت نہ ہو،اللہ پاک اس کے لئے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے۔ (ابن ماجہ، ج1، ص437، حدیث 798)جو عشا کی نماز میں سستی کرتا ہے، وہ منافقوں کے سے کام کرتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ صرف سستی کرنا منافق کا عمل ہے، تو جو سِرے سے نماز ہی نہیں پڑھتا، اس کے لئے کیا کیا وعید ہیں!نماز جنت میں لے جانے کا ذریعہ، عذاب سے حفاظت کا ذریعہ، دنیا و مافیہا سے بہتر اور دونوں جہاں کی رحمتیں و برکتیں نازل ہونے کا سبب بنتا ہے، تو نیت کرتی ہیں کہ عشا کے ساتھ ساتھ دیگر 4 نمازوں کی پابندی بالخصوص کریں گی۔اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق نصیب کرے۔آمین

تو پانچوں نمازوں کی پابند کردے پئے مصطفیٰ ہم کو جنت میں گھر دے


العشاوالعشیُّ:رات کی تاریکی بقول ِبعض :مغرب سے عشا کی اندھیری یا دن کا آخری حصّہ۔العشاانِ مغرب اور عشا بعد عشیٌّ رات کو دیر تک چلنے والا۔ادائیگی عشا:ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نمازِ عشا ادا فرمائی، نمازِ عشا حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی امت کی خصوصیت ہے اور نماز پنجگانہ(یعنی پانچ وقت کی نمازیں) بھی۔وجہ ِتسمیہ:عشا کے لغوی معنی رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں، چونکہ یہ نماز اندھیرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے، اس لئے اس نماز کو نمازِ عشا کہا جاتا ہے۔فضیلت:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:سب نمازوں میں زیادہ گراں یعنی بوجھ والی منافقوں پر نمازِ عشا اور فجر ہے اور جو ان میں فضیلت ہے اگر جانتے تو ضرور حاضر ہوتے، اگرچہ سرین(یعنی بیٹھنے میں بدن کا جو حصہ زمین پر لگتا ہے اس) کے بل گھسٹتے ہوئے، یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔(ابن ماجہ)تابعی بزرگ حضرت مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے، سرکارِدوجہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت (یعنی پہچان)عشا اور فجر کی نماز میں حاضر ہونا ہے،کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (مؤطا امام مالک)(یہاں منافقِ عملی مراد ہے)حضرت ابو موسٰی اشعری رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے عشا اور فجر کی نماز پڑھی، وہ جنت میں داخل ہو گا۔ان احادیث ِمبارکہ کی روشنی میں نمازِ عشا کے مخصوص فضائل و اہمیت معلوم ہوئے، اس سے بڑھ کر عشا کی فضیلت کیا ہو سکتی ہے کہ اس نماز کی فرضیت کا سبب ہی آقا علیہ الصلوۃ والسلام کا ادا کرنا ٹھہرا اور عشا کے پڑھنے والے کے لئے نمازِ عشا کو ہی اس کے مسلمان ہونے کی پہچان قرار دے دے کر منافقین سے امتیاز کر دیا،صرف اتنا ہی نہیں، یہ جنت میں داخلے کا سبب بھی بنے گی۔اگر عمومی فضائل کی بات کریں تو حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جنت کی چابی نماز ہے اور نماز کی چابی وضو۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں:ایک بار میں نماز پڑھ کر سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس بیٹھ گیا، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:کیا تجھے پیٹ میں درد ہے؟ میں نے عرض کی:جی ہاں۔آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قم فصل فان فی الصلاۃ شفاءاٹھواور نماز پڑھو، کیوں کہ نماز میں شفا ہے۔ان احادیثِ مبارکہ کی روشنی میں مطلقاً نماز کی فضیلت اُجاگر ہوتی ہے کہ نماز ہی ہے گویا جس کے سبب ہم جنت میں داخل ہو سکتی ہیں اور نماز ہی ہے جو ہمیں در در بھٹکنے، ڈاکٹروں کے خرچوں اور ان کی پکڑسے بھی بچا سکتی ہے۔ جب نماز دنیوی اور اخروی فوائد سے مالا مال و نجات کا ذریعہ ہے تو کیوں نہ عہد کر لیں نماز نہ چھوڑنے، بلکہ اہتمام کریں وقت کی پابندی اور خشوع و خضوع سے پڑھنے کا۔اللہ پاک ہمیں اخلاص کے ساتھ اور اہتمام کے ساتھ نماز کی ادائیگی کی توفیق عطا فرمائے۔ یاد رہے!ہر تصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں، جہاں پر احادیثِ مبارکہ فضیلت و اہمیت ظاہر کرتی ہے، وہیں ان کے نہ کرنے والوں کے لئے بھی بہت سی باتیں واضح ہو جاتیں جیسے نہ پڑھنے والوں کے لئے نفاق کی نشانی، جنت میں داخلے سے رُکاوٹ اور مزید۔


نیکیاں کرنا اور نیکی کے راستے پر چلنا انتہائی دشوار  لیکن اس کی منزل روشن ہے اور وہ جنت ہے، جبکہ گناہوں کا راستہ نہایت آسان لیکن اس کا ٹھکانہ بہت بُرا ہے اور وہ جہنم ہے۔عبادت کی مشقت اٹھانا اگرچہ نفس پر گِراں ہے لیکن انہیں ترک کر کے ملنے والا عذاب اس مشقت سے کئی گنا بڑھ کر ہے۔ انہیں مشقت والی عبادتوں میں سے ایک اہم عبادت جسے اسلام کا اہم رکن قرار دیا گیا ہے وہ ہےنماز۔ہر مسلمان، عاقل، بالغ پر پانچ وقت کی نماز فرض ہےجو جان بوجھ کر ایک نماز ترک کرے وہ فاسق، سخت گناہگار اور عذاب ِنار کی حق دار ہے۔ بعض انبیائے کرام علیہ السلام نے مختلف اوقات کی نمازیں جدا جدا مواقع پر ادا فرمائیں۔اللہ پاک نے اپنے پیاروں کی پیاری پیاری اداؤں کو ہم غلامانِ مصطفیٰ پر فرض کر دیا۔نماز ِفجر حضرت آدم،نمازِ ظہر حضرت داؤد، نماز ِعصر حضرت سلیمان، نماز ِمغرب حضرت یعقوب اور نمازِ عشا حضرت یونس علیہم السلام نے سب سے پہلے ادا فرمائیں۔(فتاویٰ رضویہ5/43،47 ملخصاً)عشا کا لغوی معنیٰ رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں۔(نزھۃ القاری،2/245) چونکہ یہ نماز اندھیرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے اس لئے اس نمازکو عشا کی نماز کہا جاتا ہے۔(شرح مشکل الآثار للطحاوی 3/34)نمازِ عشا کی اہمیت و فضیلت:پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے نمازِ عشا کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:(1)ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت(یعنی پہچان) عشا و فجر کی نماز میں حاضر ہونا ہے کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔(مؤطا امام مالک، 1/133،ح 298)(2) جودوٹھنڈی نمازیں پڑھا کرے جنت میں جائے گا۔ ٹھنڈی نمازوں سے مرادیافجروعشاہے یا فجروعصر۔ (مراٰۃ المناجیح،1/؟، ح 587) (3) اگر لوگ جانتے کہ عشااورفجر میں کیا ثواب ہے تو ان میں گھسٹتے ہوئے بھی پہنچتے۔(مراٰۃ المناجیح،1/؟، ح 590) (4) جو نمازِ عشا جماعت سے پڑھے توگویا وہ آدھی رات عبادت میں کھڑا رہا اورجوفجرجماعت میں پڑھے توگویا اس نے ساری رات نماز پڑھی۔(مراٰۃ المناجیح،1/ ح 592) (5)جس نے چالیس دن نماز فجر و عشا باجماعت پڑھی، اس کو اﷲ پاک دو برائتیں عطا فرمائے گا، ایک نار سے دوسری نفاق سے۔(تاريخ بغداد 11/374، رقم: 6231)نمازِ عشا قضا کرنے پر وعید: ایک طویل حدیثِ پاک میں ہے:سستی کی وجہ سے نماز چھوڑنے والے کی قبر میں ایک اژدھا مسلط کر ديا جائے گا جس کا نام اَلشُّجَاعُ الْاَقْرَع ہے، اس کی آنکھیں آگ کی ہوں گی جبکہ ناخن لوہے کے ہوں گے، ہر ناخن کی لمبائی ايک دن کی مسافت تک ہو گی، وہ ميت سے کلام کرتے ہوئے کہے گا:ميں اَلشُّجَاعُ الْاَقْرَع یعنی گنجا سانپ ہوں۔اس کی آواز کڑک دار بجلی کی سی ہو گی، وہ کہے گا :ميرے رب کریم نے مجھے حکم ديا ہے کہ نمازِ عشا ضائع کرنے پر فجر تک مارتا رہوں۔ جب بھی وہ اسے مارے گا تو وہ 70ہاتھ تک زمين ميں دھنس جائے گا اور وہ قيامت تک اس عذاب ميں مبتلا رہے گا۔ (کتاب الکبائرللامام الحافظ الذہبی ،ص24)اللہ پاک ہمیں نمازوں کی پابندی نصیب فرمائے بالخصوص نماز ِفجر اور عشا چونکہ منافقین کو بوجھ محسوس ہوتی ہے۔ اللہ پاک ہمیں دلجمعی کے ساتھ ان نمازوں کو پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


جو کام نفس پر بهاری ہوتا ہے ۔اس کا اجر بھی زیادہ ملتا ہے۔ نیک کام میں جتنی زیادہ زحمت  اٹھانی پڑے گی اس کا ثواب بھی زیادہ ملے گا ۔منقو ل ہے:اَفضَلُ العِبَادَاتِ اَحمَزُھَا یعنی افضل عبادت وه ہے جس میں زحمت ( تکلیف) زیادہ ہے ۔(آ سان نیکياں* ص 10) (کَشفُ الخفَاء وَمُزِیلُ الاِ لبَاس ج 1،ص 141 حدیث 459 )حضرت ابراہیم بن ادهم رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا : جو بھی نیک کام جس قدر مشکل ہو گا بروز ِ حشر نیکیوں کے پلڑ ے میں اسی قدر وزنی ہوگا۔ نمازِ فجر اور عشا دونوں مشقت والی نماز یں ہیں اس لیے ان کا ثواب بھی زیادہ ہے۔آئیے :نمازِ عشا سے متعلق تفصیل سے جانتی ہیں۔عشا کے لغو ی معنی :عشا کے لغو ی معنی ہیں :رات کی ابتدا ئی تاریکی۔ (نزہۃ القاری ج 2 ص 245)عشا کے اصطلاحی معنی:یہ نماز اندھیرا ہوجانے کے بعد پڑھی جاتی ہے اس لیے اسے نمازِ عشا کہتے ہیں۔ (شرح مُشکِل الآ ثَار للِطحَا و ی ج 3 ص 34 ، 31 ملخصا)(فیضانِ نماز* ص 114)سب سے پہلے نمازِ عشا ادا فرمائی:نمازِ عشا سب سے پہلے حضرت یُونُس علیہ السلام نے ادا فرمائی ۔(فیضانِ نماز ص 29) نمازِ عشا کی اہمیت،فضیلت اور وعید کے متعلق 5 احادیثِ مبارکہ :جہنم سے آزادی : خلیفۂ دوم،امیر المومنین حضرت عُمر فاروق رضی الله عنہ پیارے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اِرشاد فرماتے ہیں :جس نے چالیس راتیں مسجد میں جماعت کے ساتھ عشا کی نماز پڑھی یہاں تک کے پہلی رکعت فوت نہ ہوئی تو اللہ پاک اسے جہنم سے آزاد لکھ دیتا ہے ۔(فیضانِ نماز 97 ،ابنِ ماجہ ج 1 ص 437 ،حدیث 798 ) ساری رات عبادت :جامِعُ القرآن خلیفہ سِوُم حضرت عثمانِ غنی رضی الله عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمايا: جس نے عشا کی نماز جماعت سے پڑھی تو ایسے ہے جیسے نصف رات کھڑا رہا اور جس نے فجر کی نماز جماعت سے پڑھی تو ایسے ہے جیسے پوری رات کھڑا رہا ۔ (فیضانِ نماز ص 93 مُسلم ص 258 ،حدیث 1491 )نمازِ عشا منافقین پر بوجھ : صحابیِ رسول حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان روایت فرماتے ہیں:تمام نمازو ں میں سے منافقو ں پر زیادہ بوجھ والی نمازِ عشا و فجر ہے ۔اگر یہ لوگ ان کی فضیلت جانتے ضرور سُرِین (بیٹھنے میں بدن کا جو حصہ زمین پر لگتا ہے )کے بل گِهسَٹتے ہوئےحاضر ہو جاتے۔مطلب یہ ہے جس طرح بھی ممکن ہوتا یہ لوگ حاضر ہوجاتے۔ (فیضا نِ نماز ص 112-111 ،ابنِ ماجہ ج 1 ،ص 437 ، حدیث 797 )نمازِ عشا میں مُنافقین کو شرکت کی طاقت نہیں:حضرت سعید بن مُسیب رحمۃ اللہ علیہ پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان روایت فرماتے ہیں:ہمارے اور منافقو ں کے بیچ پہچان نمازِ عشا و فجرمیں حاضری ہے کیونکہ ان نمازوں میں مُنافقین کو طاقت نہیں۔ (فیضانِ نماز ص 112 ، مؤطا اِمام مَالک ج 1 ،ص 133 ،حدیث 298)آنکھ کو نہ سُلائے:پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان ہے :جو عشا کی نماز سے پہلے سوئے اللہ پاک اس کی آنکھ کو نہ سُلاۓ۔(فیضانِ نماز ص 113 جمع الجو امع :ج 7 ،ص 289، حدیث 23192 )بزرگانِ دین کا اَنداز:خلیفۂ دوُم امیرُ المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ پر جب قاتلانہ حملہ ہوا تو آ پ شدید زخمی تھے ، آ پ سے عر ض کی گئی:ا ے امیرُ المؤمنین ! نماز کا وقت ہے تو آپ رضی الله عنہ فرما نے لگے: جو نماز کو ضائع کرتا ہے، اس کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں ۔اور آپ رضی الله عنہ نے نماز ادا فرمائی ۔(نماز کے احکام* ص 176)میرے پیارے پیر و مُرشِد سلطانُ العارفین حضرت سُلطان مُحمد باہو رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: میں ہر حال میں اِس قدر خبر دار اور ہوشیار رہتا ہوں کہ کبھی کوئی فرضِ خُدا مجھ سے نہیں چھوٹا اور نہ کبھی نمازِ باجماعت کی سنت مجھ سے قضا ہوئی کیونکہ خدا اور رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رضا مندی پنجگانہ نماز میں پائی جاتی ہے۔ (نُورُ الہُد یٰ ص ۔ 341)مُحترم بہنو!سبحان اللہ!ہمارے اسلاف نمازوں کا کِس قَدر اِہتمام فرمایا کرتے تھے! ہمیں بھی چاہیے کہ نمازوں کی پابندی کریں ،تاکہ اللہ پاک اور نبی پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رضا حاصل ہو جائے۔

تُو پانچو ں نمازوں کی پابند کر دے پَئے مُصطَفے ہم کو جنت میں گھر دے

اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

(آسان نیکیاں، مکتبۃ المدینہ کراچی)(فیضانِ نماز مکتبۃ المدینہ کراچی)( نماز کے احکام ، مکتبۃ المدینہ کراچی)( فیس بک پیج (Sultan Bahoo) سلطان باھو رحمۃ اللہ علیہ)


علّامہ عبدُالرَّءُوف مُنادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : پانچوں نمازوں میں سب سے افضل نمازِ عصر ہے،پھر نمازِ فجر، پھر عشا، پھر مغرب، پھر ظہر اور پانچوں نمازوں کی جماعتوں میں افضل جماعت نمازِ جمعہ کی جماعت ہے، پھر فجر کی، پھر عشا کی۔ جمعہ کی جماعت اس لیے افضل ہے کہ اس میں کچھ خصوصیات ہیں جو اسے دیگر نمازوں سے ممتاز کرتی ہیں جبکہ فجر و عشا کی جماعت اس لیے فضیلت والی ہیں کہ ان میں مشقت (یعنی محنت) زیادہ ہے۔ (فیض القدیر ج 2 ص 53 )مشکل کام کا ثواب زیادہ ہے۔مگر نفس بہت آرام طلب ہے کہ اسے اس کام میں لذت محسوس ہوتی ہے جس میں اسے محنت نہیں کر نی پڑتی اور چونکہ عشا کی نماز رات کے وقت پڑھی جاتی ہے اور اس وقت نیند کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے ۔ اسی لیے نفس فجر و عشا کی نماز میں زیادہ سستی کرتا ہے۔ چنانچہ عشا کے لغوی معنی : رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں، چونکہ یہ نماز اندھیرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے اس لیے اس نماز کو عشا کی نماز کہا جاتا ہے۔ بعض انبیائے کرام علیہم السلام نے مختلف اوقات کی نمازیں جدا جدا مواقع پر ادا فرمائیں۔ اللہ پاک نے اپنے ان پیاروں کی پیاری پیاری اداؤں کو ہم غلامانِ مصطفٰی پر فرض کر دیا۔چنانچہ اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے چند روایات بیان کرنے کے بعد جس روایت کو بہتر قرار دیا اس کے مطابق نمازِ عشا حضرت یونس علیہ السلام نے سب سے پہلے ادا فرمائی۔ (فتاوی رضویہ ج 5 ص 43 تا 73 ملخصا ) اب یہاں نمازِ عشا کے فضائل و وعید پر مشتمل 5 احادیث ذکرکی جاتی ہیں تاکہ نفس کی سستی کو ختم کر کے وقت پر نماز پڑھنے کا ذہن بنے۔ (1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : تاجدارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : سب نمازوں میں زیادہ گراں( یعنی بوجھ والی)منافقوں پر نمازِ عشا و فجر ہے اور جو ان میں فضیلت ہے اگر جانتے تو ضرور حاضر ہوتے اگرچہ سرین (یعنی بیٹھنے میں بدن کا جو حصہ زمین پر لگتا ہے اس ) کے بل گھسٹتے ہوے یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔(ابن ماجہ ج 1 ص 437 حديث 797 )(2) تابعی بزرگ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ سرورِ دو جہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت (یعنی پہچان) عشا و فجر کی نماز میں حاضر ہونا ہے کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔(مؤطا امام مالك ج 1 ص 133 حديث 298 )حضرت علامہ عبد الرءوف مناوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :اس حديث میں بیان کردہ منافق سے مراد منافق عملی ہے۔(فیض القدیر ج 1 ص 84 )(3)خادمِ نبی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے چالیس دن فجر و عشا باجماعت پڑھی اس کو اللہ پاک دو آزادیاں عطا فرمائے گا۔ ایک نار (یعنی آگ )سے،دوسری نفاق (یعنی منافقت )سے۔(ابن عساکر ج 52 ص 338 )(4)امیر المومنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے: جو چالیس راتیں مسجد میں باجماعت نمازِ عشا پڑھے کہ پہلی رکعت فوت نہ ہو،اللہ پاک اس کے لیے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے ۔ (ابن ماجہ ج 1 ص437 حديث 798)(5)حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :جو نمازِ عشا جماعت سے پڑھے گویا (یعنی جیسے )اس نے آدھی رات قیام کیا اور جو فجر جماعت سے پڑھے گویا (یعنی جیسے ) اس نے پوری رات قیام کیا ۔ (مسلم ص 258 حديث 1491 ) اے ہمارے پیارے اللہ! ہمیں ہر نماز خشوع و خضوع کے ساتھ ، وقت پر پڑھنے کی سعادت عنایت فرما۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

تو پانچوں نمازوں کی پابند کر دے پئے مصطفٰی ہم کو جنت میں گھر دے

صلوا علی الحبیب صلی اللہ علی محمد


ہمارا پیارا دین ِاسلام ہمیں پانچ وقت کی نماز پڑھنے کا درس دیتا ہے۔پانچوں نمازوں کی فضیلت و اہمیت کا بغور مطالعہ کیا جائے تو ہر مسلمان کو پانچوں نمازیں پڑھنے کا جذبہ پیدا ہو گا۔مگر افسوس! مسلمانوں کی ایک تعداد ہے جو نمازوں سے دور ہے کچھ تو ایسے بھی مسلمان پائے جاتے ہیں جو نماز تو ادا کرتے ہیں مگر جلدی میں یہاں تک کہ رکوع و سجود پورے نہیں کرتے اور ایسے بھی مسلمان ہیں جنہیں نماز صحیح ادا کرنا نہیں آتی۔ لوگ  مشکل سے مشکل کام بھی کر لیتے ہیں لیکن نماز کا وقت ہوتا ہے تو سستی کرتے ہیں یہاں تک کے نماز قضا ہو جاتی ہے۔ اس کی ایک وجہ علم کی کمی بھی ہے۔اگر نماز کی اہمیت کا اندازہ لگایا جائے تو بہت سے لوگ جو نماز ادا نہیں کرتے ان کے اندر نماز پڑھنے کا جذبہ پیدا ہو گا اور ایسے ہی نماز نہ پڑھنے کے عذاب پر توجہ دی جائے تو اللہ پاک کا ڈر نصیب ہو گا اور نماز چھوڑنے سے بچیں گے۔ کتاب الکبائر میں منقول ہے : جہنم کی ایک وادی ہے جس کا نام ویل ہے۔ اگر اس میں دنیا کے پہاڑ ڈالے جائیں تو وہ بھی اس کی گرمی سے پگھل جائیں اور یہ ان لوگوں کا ٹھکانا ہے جو نماز میں سستی کرتے اور وقت کے بعد قضا کر کے پڑھتے ہیں مگر یہ کہ وہ اپنی کوتاہی (یعنی خطا) پر نادم ہوں اور بارگاہِ خداوندی میں توبہ کریں۔(الکبائر للذھبی ص19) اللہ پاک سے ہم عافیت کا سوال کرتی ہیں۔

بے نمازی کی نحوست ہے بڑی مر کے پائے گی سزا بے حد کڑی

ہمیں نماز میں سستی نہیں کرنی چاہیے اور جن کی نمازیں پہلے چھوٹی ہوں وہ سچے دل سے توبہ کریں۔ یاد رہے! فقط توبہ کرنے سے توبہ مقبول نہیں ہو گی توبہ کے ساتھ ان تمام نمازوں کی قضا بھی پڑھنی ہو گی جو پہلے چھوڑیں۔یوں تو پانچوں نمازیں اپنی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں ابھی ہم نمازِ عشا کے بارے میں پڑھیں گی ۔ مشکل کام کا ثواب زیادہ ہے۔ نمازِ عشا میں مشقت زیادہ ہوتی ہے لیکن جسے جتنی مشقت و آزمائش کا سامنا زیادہ ہو گا وہ اللہ پاک کی رحمت سے ثواب بھی زیادہ ہی پائے گی۔نمازِ عشا کے لغوی و اصطلاحی معنی:عشا کے لغوی معنی: رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں، چونکہ یہ نماز اندھیرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے اس لئے اس نماز کو نمازِ عشا کہتے ہیں۔(شرح مشکل الآثار للطحاوی ج 3 ص 34، 31 ملخصا)نمازِ عشا سب سے پہلے کس نے ادا فرمائی؟ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نمازِ عشا ادا فرمائی۔(شرح معانی الآثار ج 1 ص 226 حدیث 1514)نمازِ عشا پر 5 فرامینِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پڑھئے۔1۔حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہسے روایت ہے: تاجدارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: سب نمازوں میں زیادہ گراں(یعنی بوجھ والی)منافقوں پر نمازِ عشا و فجر ہے اور جو ان میں فضیلت ہے اگر جانتے تو ضرور حاضر ہوتے اگرچہ سرین( یعنی بیٹھنے میں بدن کا جو حصہ زمین پر لگتا ہے اس) کے بل گھسٹتے ہوئے یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔(ابن ماجہ ج1 ص437 حدیث797)2۔ تابعی بزرگ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت (یعنی پہچان) عشا و فجر کی نماز میں حاضر ہونا ہے کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔(موطا امام مالک ج1 ص133 حدیث298)3۔ حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: جو نمازِ عشا سے پہلے سوئے اللہ پاک اس کی آنکھ کو نہ سلائے۔(جمع الجوامع ج7 ص289 حدیث23192)4۔ حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو نمازِ عشا جماعت سے پڑھے گویا(یعنی جیسے)اس نے آدھی رات قیام کیا اور جو فجر جماعت سے پڑھے گویا (یعنی جیسے) اس نے پوری رات قیام کیا۔(مسلم ص258 حدیث 1491)5۔خادمِ نبی، حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبیِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے چالیس دن فجر و عشا باجماعت پڑھی اس کو اللہ پاک دو آزادیاں عطا فرمائے گا۔ایک نار(یعنی آگ)سے،دوسری نفاق(یعنی منافقت) سے۔(ابن عساکر ج52 ص 338)

پڑھتی رہو نماز تو جنت کو پاؤگی چھوڑو گی گر نماز تو جہنم میں جاؤ گی

اللہ پاک ہمیں پانچوں نمازیں خود بھی ادا کرنے اور جو نہیں ادا کرتیں انہیں بھی نرمی کے ساتھ نماز کی دعوت دینے، اس کی ترغیب دلانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


اسلام میں جو اہمیت نماز کو حاصل ہے وہ کسی اور عبادت کو حاصل نہیں۔ نماز ارکانِ اسلام میں سے ایک اہم ترین رکن ہے۔روزِ قیامت تمام حقوق اللہ میں سب سے پہلے اسی کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ایک حدیثِ پاک میں ہے:جو اللہ پاک سے اس حال میں ملا کہ اس نے نماز ضائع کی ہو تو اللہ پاک اس کی کسی نیکی کی پروا نہ کرے گا۔ (کتاب الکبائر، الکبیرۃ الرابعۃ فی ترک الصلوۃ، ص 22)عشا کے لغوی معنی رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں۔ چونکہ یہ نماز اندھیرا ہوجانے کے بعد ادا کی جاتی ہے، اس لئے اس نماز کو عشا کی نماز کہا جاتا ہے۔(فیضان نماز، ص 114 بحوالہ شرح مشکل الآثار للطحاوی، ج 3، ص 34، 31 ملخصا)نمازِ عشا کی اہمیت و فضیلت پر مشتمل پانچ احادیثِ مبارکہ درج ذیل ہیں:1:تم کو اس نماز (عشا) کی وجہ سے پچھلی تمام امتوں پر فضیلت دی گئی ہے اور تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔(سنن ابو داؤد ج 1 ص 61)اس حدیثِ پاک کے تحت مرآۃ المناجیح، جلد 1، صفحہ 376 پر ہے: نمازِ عشا ہم سے پہلے کسی امت پر فرض نہ تھی، ہاں! بعض نبی بطورِ نفل اسے پڑھتے رہے ہیں۔2:جو شخص چالیس راتیں مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھے کہ عشا کی تکبیرِ اُولیٰ(پہلی تکبیر) فوت نہ ہو، اﷲ کریم اس کے لیے دوزخ سے آزادی لکھ دے گا۔(سنن ابن ماجہ، أبواب المساجد۔۔۔إلخ، باب صلاۃ العشا و الفجر فی جماعۃ، الحدیث: 798، ج 1، ص 437)3: جس نے عشا کی نماز جماعت سے پڑھی گویا وہ آدھی رات عبادت میں کھڑا رہا اور جس نے فجر کی نماز جماعت سے ادا کی تو گویا وہ پوری رات عبادت میں کھڑا رہا۔(مسلم شریف، کتاب المساجد۔۔۔الخ، باب فضل صلوۃ الجماعۃ۔۔۔الخ، ص 329، الحدیث 260)4:ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت (یعنی پہچان) عشا و فجر کی نماز میں حاضر ہونا ہے کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔(موطا امام مالک ج 1 ص 133 حدیث 298)اس حدیث میں ذکر کردہ منافق سے مراد(دورِ رسالت کے بدترین کفار نہیں ہیں جو خود کو جھوٹ موٹ مسلمان ظاہر کرتے تھے مگر دل سے کافر تھے بلکہ یہاں مراد)منافقِ عملی ہے۔(جو کہ حقیقت میں مسلمان ہے)۔(فیضان نماز ص 112 بحوالہ فیض القدیر ج 1 ص 84)5: سب نمازوں میں زیادہ گراں(یعنی بوجھ والی) منافقوں پر نمازِ عشا و فجر ہے، اور جو ان میں فضیلت ہے اگر جانتے تو ضرور حاضر ہوتے اگرچہ سُرین (یعنی بیٹھنے میں بدن کا جو حصہ زمین پر لگتا ہے اس) کے بل گھسٹتے ہوئے یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔(ابن ماجہ، ج 1، ص 437، حدیث 797)معلوم ہوا!جو مسلمان ان دو نمازوں میں سستی کرے،وہ منافقوں کے سے کام کرتا ہے۔ (مرآۃ المناجیح، جلد 1، صفحہ 396)افسوس! فی زمانہ بہت سے لوگ رات گئے تک جاگتے رہنے کے باوجود نمازِ عشا قضا کردیتے ہیں، تو کچھ لوگ نیند اور سستی جیسے بہانوں کے سبب نماز جیسی اہم عبادت کو ترک کربیٹھتے ہیں۔ حالانکہ پانچوں نمازوں میں سے کسی بھی نماز کا بلاعذرِ شرعی چھوڑدینا گناہ کبیرہ، حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ اس کے برعکس مشقت کے باوجود پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنا اللہ پاک کی خوشنودی کا سبب اور بہت زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔ہمیں چاہئے کہ نفس و شیطان کے سستی دلانے یا محض دنیاوی مصروفیات کے سبب اللہ کریم میں بارگاہ میں حاضری سے محروم نہ رہیں بلکہ پانچوں نمازیں پابندیِ وقت کے ساتھ ادا کرنے کی عادت بنائیں۔ اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


نمازِ عشا کی فضیلت واہمیت!عشا کے لغوی!   رات کے ابتدائی تاریکی کے ہیں کیونکہ یہ نماز اندھیرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے اس لیے اس نماز کو عشا کی نماز کہا جاتا ہے۔( مکتبہ المدینہ کی کتاب فیضان نماز ص 114) سب سے پہلے نمازِ عشا کس نے ادا کی؟ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نمازِ عشا ادا فرمائی۔ہمارے سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر تہجد کی نماز بھی فرض تھی۔ نمازِ عشا حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی امت کی خصوصیت ہے اور نمازِ پنجگانہ یعنی پانچ وقت کی نمازیں بھی اور نمازِ تہجد کی فرضیت سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خصوصیت ہے۔نمازِ عشا کی فضیلت:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، تاجدارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:سب نمازوں میں زیادہ گِراں (یعنی بوجھ والی) منافقوں پر نمازِ عشا و فجر ہے اور جو اِن میں فضیلت ہے اگر جانتے تو ضرور حاضر ہوتے اگرچہ سُرِین(یعنی بیٹھنے میں بدن کا جو حصہ زمین پر لگتا ہے اس)کے بَل گِھسَٹتے ہوئے یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔( ص111)حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃاللہ علیہ اس حدیثِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں: کیونکہ منافق صرف دکھلاوے کے لیے نماز پڑھتے ہیں اور وقتوں میں تو خیر جیسے تَیسے پڑھ لیتے ہیں مگر عشا کے وقت نیند کا غلبہ، فجر کے وقت نیند کی لذَّت انہیں مَست کر دیتی ہے۔ اخلاص و عشق تمام مشکلوں کو حَل کرتے ہیں وہ ان میں ہے نہیں،لہٰذا یہ دو نمازیں انہی بہت گِراں(یعنی بہت بڑا بوجھ معلوم ہوتی) ہیں اس لیے جو مسلمان ان دو نمازوں میں سستی کرے وہ منافقوں سا کام کرتا ہے۔ (ص112)تابعی بزرگ حضرت سَعید بن مُسَیّب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے ،سرورِ دو جہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت وپہچان عشا و فجر کی نماز میں حاضر ہونا ہے کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔( ص112)حضرت علامہ عبد الرَّؤف مُناوی رحمۃ اللہ علیہلکھتے ہیں :اس حدیث میں ذکر کردہ منافق سے مراد دور رِسالت کے بد ترین کفار نہیں ہیں جو خود کو جھوٹ موٹ مسلمان ظاہر کرتے تھے مگر دل سے کافر تھے بلکہ مراد منافقِ عملی ہے جو حقیقت میں مسلمان ہیں۔ حدیث کے اس حصہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے سے مراد ہے کہ ہم ان نمازوں کو چُستی کے ساتھ اور خوشی خوشی ادا کرتے ہیں ہمیں ان دونوں نمازوں کو باجماعت ادا کرنے کے لیے مسجد آنے میں کوئی مشقت نہیں ہوتی جبکہ منافقین پر یہ نمازیں بھاری ہے اس لئے وہ انہیں بَشَّاشَت یعنی خوشی اور چستی کے ساتھ ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔(آگے چل کر فرماتے ہیں) واضح رہے! منافقِ عملی عبادت قائم کرنے کے لیے نہیں بلکہ عادت کی وجہ سے نماز پڑھتا ہے اور چونکہ اس کا نفس نماز پڑھنے کو ناپسند کرتا ہے اس لئے وہ سب کے ساتھ نہیں بلکہ اپنے گھر میں تنہا نماز پڑھتا رہا ہے۔( آگے مزید تحریر کرتے ہیں:) بعض عارفین(یعنی اللہ پاک کی پہچان رکھنے والوں) کا قول ہے:نماز ِفجر باجماعت پابندی سے پڑھنے سے دنیا کے مشکل کام آسان ہو جاتے ہیں، نماز ِعصر و عشا کی جماعت کی پابندی سے زُہد پیدا ہوتا ہے یعنی دنیا سے بے رغبتی نصیب ہوتی ہے خواہشات کی پیروی سے نفس باز رہتا ہے۔( ص112، 113)دوزخ سے آزادی: امیر المومنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ سے روایت ہے کہ سرکارِ دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے کہ جو چالیس رات مسجد میں باجماعت نمازِ عشا پڑھے کہ پہلی رکعت فوت نہ ہو۔ اللہ پاک اس کے لئے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے۔( ص97)

تو پانچوں نمازوں کی پابند کردے پئے مصطفٰی ہم کو جنت میں گھر دے

جہنم کے دروازے پر نام:حضور نبی پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : جو جان بوجھ کر ایک نماز چھوڑ دیتا ہے اس کا نام جہنم کے دروازے پر لکھ دیا جاتا ہے جس سے وہ داخل ہوگا۔( ص425)سرورِ کائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم معراج کی رات ایک ایسی قوم کے پاس تشریف لے گئے جن کے سر پتھر سے کچلےجا رہے تھے جب بھی انہیں کُچل دیا جاتا وہ پہلے کی طرح درست ہوجاتے اور یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہتا تو آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے پوچھا :اے جبرائیل! یہ کون ہیں؟ عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جن کے سر نماز پڑھنے سے بوجھل یعنی بھاری ہو جاتے اور فرض نماز چھوڑ دیتے تھے۔( ص432) ہمیں ضرور غور کرنا چاہیے کہ ہم عاجز اور ناتواں بندیاں، نازک جسم رکھنے والیاں، ہم دنیا کی معمولی سِی سختی بلکہ سَر کا ہلکہ درد برداشت کرنے کی طاقت نہیں رکھتیں تو جہنم کے اس درد بھرے ہولناک عذاب کو کیسے برداشت کر سکتی ہیں! اے کاش ! ہم جس طرح دنیا کے کاموں کے لیے وقت نکال کر حاضر ہو جاتی ہیں اسی طرح نماز میں بھی اپنے ربِّ کریم کے حضور وقت پر حاضر ہو جائیں۔ اے کاش! سب مسلمان سچے پکے نمازی بن جائیں۔ اللھم آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

پڑھتی رہو نماز تو جنت کو پاؤ گی چھوڑو گی گر نماز جہنم میں جاؤگی


نماز جنت میں دیدارِ الٰہی اور گناہوں کی بخشش کیلئے بہترین راستہ ہے۔نماز دینِ اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ہے۔ اﷲ  پاک اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر ایمان کے بعد اہم ترین رکن ہے۔نماز شر سے نجات اور باعثِ خیر ہے۔دنیاوی مشکلات سے نجات اور کامیابی کیلئے نماز کی بھی ایک عجیب تاثیر ہے، خاص طور جس وقت نماز کو ظاہری اور باطنی ہر لحاظ سے مکمل حق دیا جائے۔دنیاوی یا اخروی کسی بھی قسم کی مشکلات کیلئے نماز بے مثال ہتھیار ہے۔مجموعی طور پر صحتِ قلب وبدن کیلئے نماز انتہائی مؤثر ثابت ہوئی ہے۔ اگر دو آدمی کسی وبا میں مبتلا ہوجائیں تو نمازی پر اس کا اثر بہت کم ہوتا ہے۔ اس کی فرضیت قرآن و سنت اور اجماعِ امت سے ثابت ہے۔ یہ شبِ معراج کے موقع پر فرض کی گئی۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَۃ رضی الله عنه قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللہِ صلی اللّٰه عليه واله وسلم : إِنَّ أَوَّلَ مَا يُحَاسَبُ بِهِ الْعَبْدُ بِصَلَاتِهِ، فَإِنْ صَلَحَتْ فَقَدْ أَفْلَحَ وَأَنْجَحَ، وَإِنْ فَسَدَتْ فَقَدْ خَابَ وَخَسِرَ۔نسائی،السنن، کتاب الصلاۃ، باب المحاسبۃ علی الصلاۃ، 1 : 232، رقم : 465حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:قیامت کے روز سب سے پہلے نماز کا محاسبہ ہوگا۔ اگر نماز شرائط، اَرکان اور وقت کے مطابق ادا کی گئی ہوئی تو وہ شخص نجات اور چھٹکارا پائے گا اور مقصد حاصل کرے گا۔نماز ادا کرنے کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ قرآنِ مجید میں تقریبًا سات سو مقامات پر نماز کا ذکر آیا ہے۔ وَاَقِيْمُوا الصَّلٰوۃ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃ وَارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِيْنَo البقرۃ، 2 : 43ترجمہ: اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کیا کرو۔حضرت عبد اﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے عرض کیا گیا:اﷲ پاک کو کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے؟ حضور نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :الصَّلَاۃ لِوَقْتِهَانماز کو اس کے مقررہ وقت پر پڑھنا۔(مسلم، الصحيح، کتاب الإيمان، 1 : 89، رقم : 85)حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاروایت کرتی ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :إِنَّ أَفْضَلَ الصَّلوٰۃ عِنْدَ اللہ صَلوٰۃ الْمَغْرَبِ، وَ مَنْ صَلَّی بَعْدَهَا رَکْعَتَيْنِ بَنَی ﷲ لَه بَيْتاً فی الْجَنَّۃ، يَغْدُو فیهِ وَ يَروح(طبرانی،المعجم الأوسط،7: 230،رقم : 6445)اللہ پاک کے نزدیک سب سے افضل نماز، نماز ِمغرب ہے اور جو اس کے بعد دو رکعت پڑھے تو اس کے لئے اللہ پاک جنت میں ایک گھر بنا دے گا (جس میں) وہ صبح کرے گا اور راحت پائے گا۔1. عشا کی فضیلت کا ذکر کرتے ہوئےحضورصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مَنْ صَلَّی الْبَرْدَيْنِ دَخَلَ الْجَنَّۃبخاری، الصحيح، کتاب مواقيت الصلٰوۃ، باب فضل صلاۃ الفجر، 1 : 210، رقم : 548جس شخص نے ٹھنڈے وقت کی دو نمازیں ادا کیں وہ جنت میں داخل ہو گا۔ عشا کا وقت ہے جب انسان دن بھر کی تھکن سے چور، کھانا کھاتے ہی بستر راحت پر دراز ہونا چاہتا ہے اور شیطان حیلوں بہانوں سے اسے عشا کی نماز پڑھنے سے باز رکھنے کی کوشش کرتا ہے لیکن بندۃٔ خدا نفسانی خواہشات اور شیطان کے حربوں کے باوجود بارگاہِ ایزدی میں نماز کے لیے حاضر ہو کر شیطان کے سارے عزائم خاک میں ملا دیتا ہے۔حضور نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا ان دو اوقات کے عبادت گزار بندوں کو جنت کی بشارت دینا اس حکمت کی بناء پر ہے کہ جو انسان فجر اور عشا کی نمازوں کی ادائیگی کو اپنا معمول بنا لیتا ہے، اس کے لیے باقی تین نمازوں کو ادا کرنا گراں نہیں ہوتا۔2.حضرت عبدالرحمن بن ابی عمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: حضور نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :مَنْ صَلَّی الْعشا فِی جَمَاعَۃ فَکَأَنَّمَا قَامَ نِصْفَ اللَّيْلِجس نے عشا کی نماز باجماعت پڑھی تو گویا اس نے نصف رات قیام کیا۔(مسلم، الصحيح، کتاب المساجد و مواضع الصلاۃ، باب فضل صلاۃ العشا و الصبح فی جماعۃ، 1 : 454، رقم : 656)3.نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: منافق لوگوں پر فجر اور عشا کی نماز سے زیادہ کوئی نماز بھاری نہیں اور اگر یہ جانتے کہ ان نمازوں میں کیا ثواب ہے جو زمین پر گھسیٹتے ہوئے بھی پہنچتے ۔ عَنْ أَبِي هُرَيْرَۃ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْسَ صَلَاۃ أَثْقَلَ عَلَى الْمُنَافِقِينَ مِنْ الْفَجْرِ وَالْعشا وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فیهِمَا لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوًا ۔(صحيح بخاری: 657، بَاب فَضْلِ الْعشا فی الْجَمَاعَۃ)4.نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :اندھیرے (یعنی فجر اور عشا) میں چل کر مسجد آنے والوں کو قیامت کے دن کامل نور (بھرپور اجالے) کی بشارت دے دو۔(ترمذی: 223 ،صحيح الجامع: 2823 ،أبی داود :561 )5. عن عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللہ صَلَّى اللہ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ صَلَّى الْعشا فی جَمَاعَۃ فَكَأَنَّمَا قَامَ نِصْفَ اللَّيْلِ، وَمَنْ صَلَّى الصُّبْحَ فی جَمَاعَۃ فَكَأَنَّمَا صَلَّى اللَّيْلَ كُلَّهُ (رواه مسلم، حدیث نمبر:1491)ترجمہ:حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے ہیں:میں نے نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے سنا ، آپ نے فرمایا: جو شخص عشا کی نماز جماعت سے پڑھے وہ ایسا ہے کہ گویا اس نے نصف شب عبادت کی اور جو فجر کی نماز بھی جماعت سے پڑھے وہ ایسا ہے کہ گویا اس نے پوری رات نماز میں گزاری۔اے اللہ پاک! ہمیں بھی پانچ وقت کی نمازی بنا ۔ایسی نمازی کہ ہماری کوئی نماز بھی قضاء نہ ہو اور ہر نماز تیری بارگاہ میں مقبول ہو جائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


حضرت عقبہ بن نافع فہری  رحمۃ اللہ علیہ کا لشکر افریقہ کے جہادوں میں ایک بار کسی ایسے مقام پر پہنچ گیا، جہاں پانی کا دور دور تک نام و نشان نہیں تھااور اسلامی لشکر شدتِ پیاس سے بے تاب ہو گیا، حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ نے دو رکعت نماز پڑھ کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھا دیئے، ابھی دعا ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ آپ کا گھوڑا اپنے پاؤں سے زمین کریدنے لگا، آپ نے اٹھ کر دیکھا تو مٹی ہٹ چکی تھی، پتھر نظر آرہا تھا، پتھر ہٹایا تو اس کے نیچے سے پانی کا چشمہ ابلنے لگا، اس قدر پانی نکلا کہ سارا لشکر جانوروں سمیت سیراب ہو گیا اور سب نے اپنی اپنی مشکوں میں بھی بھر لیا، پھر اس چشمےکو بہتا چھوڑ کر لشکر آگے روانہ ہوگیا۔(فیضان نماز،ص24)

قطعئہ بے آب ہو ،بے چین ہو بے تاب ہو پیاس کی ہو دور شدت، تم پڑھو دل سے نماز

نماز اس قدر پیاری عبادت ہے کہ جب بھی کوئی مصیبت آجائے تو فوراً نماز کا سہارا لینا چاہئے، نماز مصیبتوں، بلاؤں کو دور کرتی ہے، ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اہم معاملہ درپیش آنے پر نماز میں مشغول ہو جاتے تھے۔حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے بارے میں منقول ہے:بصرہ میں زلزلہ آیا تو آپ نے نماز پڑھی۔کس نبی نے کون سی نماز ادا کی؟ انبیائےکرام علیہم السلام نے مختلف نمازیں مختلف مواقع پر ادا فرمائیں، نماز عشاہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے نماز عشا ادا فرمائی، ہمارےآقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر تہجد بھی فرض تھی،نماز عشا حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی امت کی خصوصیت ہے اور پانچ وقت کی نمازیں بھی۔عشاکے لغوی اور اصطلاحی معنی: عشاکےلغوی معنی رات کی تاریکی کے ہیں، چونکہ یہ نماز اندھیرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے، اس لئے اس نمازکو عشاکی نماز کہا جاتا ہے۔ نمازِ عشا کی اہمیت و فضیلت پر پانچ فرامینِ مصطفی:1۔بیہقی نے شعب الایمان میں عثمان رضی اللہ عنہ سے موقوفاً روایت کی ہے:جو نمازِ صبح کے لئے طالبِ ثواب ہوکرحاضر ہوا،گویا اس نے تمام رات قیام کیا اور جو نمازِ عشا کے لئے حاضر ہوا، گویا اس نے نصف شب قیام کیا۔( شعب الایمان، باب فی الصلٰوۃ، فصل فی الجماعۃ،الحدیث2852،ج3،ص55،بہار شریعت، حصہ 3)2۔خطیب نے انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے چالیس دن نماز فجر و عشاجماعت سے پڑھی، اس کو اللہ پاک دو برائتیں عطا فرمائے گا،ایک نار سے،دوسری نفاق سے۔(تاریخ بغداد، رقم 6231، ج11، ص374،بہار شریعت، حصہ تین)3۔حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان عبرت نشان ہے: سب نمازوں میں زیادہ گرا ں (یعنی بوجھ والی )منافقوں پر عشا و فجر ہے اور جوان میں فضیلت ہے، اگر جانتے تو ضرور حاضر ہوتے،اگرچے سرین (بیٹھنےمیں بدن کا وہ حصہ زمین پر لگتا ہے اس) کے بل گھسٹتے ہوئے، یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔شرحِ حدیث:حضرت مفتی احمد یارخان رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:منافقین صرف دکھاوے کے لئے نماز پڑھتے ہیں، لہٰذا یہ دو نمازیں ان کو بوجھ معلوم ہوتی ہیں، اس سے معلوم ہوا !جو مسلمان ان نماز وں میں سستی کرے،وہ منافقوں کے سے کام کرتا ہے۔(مراٰۃ المناجیح، ج1،ص396، فیضان نماز،ص112)4 ۔تابعی بزرگ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ سرورِدوجہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان عبرت نشان ہے: ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت( یعنی پہچان) عشا کی نماز میں حاضر ہونا ہے، کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔(مؤطا امام مالک، جلد 1، صفحہ 133،حدیث 298، فیضان نماز،ص 112)5۔بزار نے ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی کہ حضورپاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرماتے ہیں:جو نمازِ عشا سے پہلے سوئے، اللہ پاک اس کی آنکھ کو نہ سلائے۔(کنزالعمال، کتاب الصلٰوۃ ،الحدیث19497، ج7، ص165، بہار شریعت، ص441)نمازِ عشا سے پہلے سونا اور بعدِعشا دنیا کی باتیں کرنا، قصے کہانی کہنا،سننا مکروہ ہے۔امیر المومنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے حکام کو ایک فرمان لکھا:جس میں یہ بھی لکھا کہ جوعشا سے پہلے سو جائے،خدا کرے اس کی آنکھ نہ سو ئیں،جو سوجائے اس کی آنکھ نہ سوئیں، جوسو جائے اس کی آنکھیں نہ سوئیں۔(مؤ طاامام مالک، ج 1، ص35،ح6)وضاحت:عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے فرمان کے متعلق مفتی احمد یارخان رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی دعا ناراضی کو ظاہر کرنے کے لئے ہے، نمازِ عشا سے پہلے سو جانا اور عشا کے بعد بلا ضرورت جاگتے رہنا،دونوں کام خلافِ سنت ہیں اور نبی پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو ناپسند ہیں۔ (مرآۃ المناجیح ، ج1،ص377)اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں نماز ِپنجگانہ پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے، کیوں کہ نماز اپنے اوقات میں ادا کرنا، ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرنا، اللہ پاک کے نزدیک سب سے پیارا عمل ہے، اللہ پاک ہمیں اپنا قرب عطا فرمائے۔آمین

تو پانچوں نمازوں کی پابند کر دے پئےمصطفی ہم کو جنت میں گھر دے


لغوی و اصطلاحی معنی:لغوی معنی: اندھیری رات ، رات کا کھانا، ظلم ،کفر۔اصطلاحی معنی: رات کے وقت کا نماز جب اندھیرا چھا جاتا ہے تو اس وقت ادا کیا جاتا ہے،اس وجہ سے اس کو نماز عشاکہا جاتا ہے ۔سب سے پہلے نماز ِعشا کس نے پڑھی؟امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے: نماز ِعشاسب سے پہلے آقا علیہ السلام نے ادا فرمائی۔نمازِ عشا کی اہمیت،فضیلت اور وعید کے متعلق 5 احادیث اصل کتب سے حوالہ کے ساتھ:عشا اور فجر کی نماز باجماعت ادا کرنا: جس نے عشاکی نماز باجماعت ادا کی تو وہ نصف رات قیام کرنے کی طرح ہے اور جس نے عشا اور فجر دونوں باجماعت ادا کیں، تو وہ ساری رات قیام کرنے کی طرح ہے۔(ابوداؤد، ج 1،ص 230،حدیث 555)مزید اس نیک عمل میں تکبیر ِاولیٰ کا بھی ذکر ہے، اس کی فضیلت حدیثِ پاک میں یہ بیان کی گئی ہے کہ جو مسجد میں چالیس 40 راتیں باجماعت نمازِ عشا اس طرح پڑھے کہ پہلی رکعت فوت نہ ہو، اللہ پاک اس کے لئے جہنم سے آزادی لکھ دیتا ہے۔سبحن اللہ ! صرف چالیس 40 دن تک عشاکی نماز تکبیر اولیٰ کے ساتھ پڑھنے کی جب یہ فضیلت ہے، تو زندہ رہ جانے کی صورت میں زندگی بھر پانچوں نمازیں تکبیر اولیٰ کے ساتھ ادا کرنے کا کیا مقام ہوگا۔حضرت حارث رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ ایک دن تشریف فرما تھے اور ہم بھی بیٹھے تھے کہ مؤذن آگیا،حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے پانی منگوا کر وضو کیا، پھر فرمایا میں نے نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اسی طرح وضو کرتے دیکھا ہے، میں نے سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے بھی سنا :جو میرے اس وضو کی طرح وضو کرے، پھر ظہر کی نماز پڑھ لے تو اللہ پاک اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے، یعنی وہ گناہ جو فجر اور اس ظہر کی نماز کے درمیان ہوئے ہوں، پھر جب عصر کی نماز پڑھتا ہے تو ظہر اور عصر کے درمیان کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے، پھر جب مغرب کی نماز پڑھتا ہے تو عصر اور مغرب کے درمیان کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے، پھر عشا کی نماز پڑھتا ہے تو اس کے اور مغرب کے درمیان کے گناہوں کو معاف فرما دیتا ہے، پھر ہو سکتا ہے کہ رات بھر وہ لیٹ کر ہی گزار دے، پھر جب اٹھ کر وضو کرے اور فجر کی نماز پڑھے تو عشا اور فجر کے درمیان کے گناہوں کی بخشش ہو جاتی ہے اور یہی وہ نیکیاں ہیں جو برائیوں کو دور کر دیتی ہیں۔(الاحادیث المختارۃ 450/1،ح3440 ملتقظاً)منقول ہے:افضل عبادت وہ ہے ،جس میں تکلیف زیادہ ہے۔امام شریف الدین نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:عبادات میں مشقت اور خرچ زیادہ ہونے سے ثواب اور فضیلت زیادہ ہو جاتی ہے ۔حضرت ابراھیم بن ادھم رحمۃ اللہ علیہ کا فرمانِ معظم ہے:دنیا میں جو نیک عمل جتنا دشوار ہوگا، قیامت کے دن نیکیوں کے پلڑے میں اتنا ہی زیادہ وزن دار ہوگا۔رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا :منافقوں پر فجر اور عشا کی نماز سے زیادہ اور کوئی نماز بھاری نہیں۔(صحیح بخاری شریف)4۔آقا علیہ السلام کا فرمان مبارک:جس نے عشا کی نماز ترک کی، اس کی نیند سے راحت ختم کردی جاتی ہے ۔5۔نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: اندھیرے میں(فجر اور عشا) میں چل کر مسجد آنے والوں کو قیامت کے دن کامل نور کی بشارت دے دو۔ (ترمذی، ح 223)نماز نہ پڑھنے کی وعیدیں:اللہ پاک اس کی زندگی سے رحمتیں اٹھائے گا۔اس کی دعا قبول نہ کرے گا ۔اس کے چہرے سے اچھے لوگوں کی علامات مٹادے گا۔