وہ نابالغ بچہ یا بچی جس کا باپ فوت ہو گیا ہو وہ یتیم ہے۔ (در مختار، 10/416)

فرمانِ مصطفیٰ ﷺ: مسلمانوں کے گھروں میں بہترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور مسلمانوں کے گھروں میں بدترین گھر وہ ہے جس میں یتیم کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو۔ (ابن ماجہ، 4/193، حدیث: 3679)

اسلام کی آمد سے قبل دور جاہلیت میں دیگر کئی برائیوں کی طرح یتیموں کے حقوق دبانا اور ان پر ظلم و ستم کرنا بھی عام تھا ۔ دین اسلام نے نہ صرف یتیموں سے ہونے والے برے سلوک کی مذمت فرمائی بلکہ ان سے نرمی و شفقت سے پیش آنے،ان کی ضروریات کا خیال رکھنے،ان کی کفالت کرنے کا حکم ارشاد فرمایا،قرآن و حدیث میں متعدد مقامات پر یتیم کے حقوق کو واضح کیا گیا ہے مگر افسوس! آج ہمارا معاشرہ؟؟ گویا کہ مسلمان اسلامی تعلیمات کو اپنے اللہ اور رسول کے احکامات کو بھلا بیٹھے ہیں اور دور جاہلیت کی روش پر آکھڑے ہیں۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جب تک باپ سلامت رہتا ہے وہ اپنے بچوں کے لیے مضبوط محافظ،بہترین نگران،شفیق استاد اور ایک سایہ دار درخت ثابت ہوتا ہے جس وقت یہ سایہ رخصت ہوتا ہے اس وقت دنیا کی دھوپ معلوم ہوتی ہے گویا کہ سر سے ساری چھتیں گرا دی گئی ہوں جس وقت بچہ اس دنیا کی دھوپ کی تپش میں جل رہا ہوتا ہے چاہیے تو یہ کہ اسے اضافی پیار، محبت،انسیت، خلوص، نرمی، شفقت دی جائے لیکن ہمارے معاشرے میں اس کے برعکس اس تپش کو اور شدت سے محسوس کرایا جاتا ہے۔ نام نہاد ہمدردی کے نام پر بار بار اسے یہ جتایا جاتا ہے کہ اس کا باپ نہیں رہا، اب وہ یتیم ہے،اب اس کی زندگی پہلی جیسی نہیں اور کہیں اس نام نہاد ہمدردی کے بھی لالے پڑے ہوتے ہیں اور کھانے، پینے، پہننے یہاں تک کہ سر چھپانے کو چھت تک میسر نہیں ہوتی۔

یتیم کی کہانی یتیم کی زبانی: زید اپنی سالگرہ کے موقع پر اپنی تمام خواہشات کے پورا نہ ہونے کے افسوس میں اپنے باپ سے شکایتوں کے ڈھیر لگائے اداسی کا شکار اپنے پاس موجود بچے کو اپنا غم سنا رہا تھا اچانک وہ اس بچے سے دریافت کرتا ہے آپ کون ہیں؟ بچہ جواب دیتا ہے: میں یتیم ہوں پھر سوال کرتے ہوئے پوچھتا ہے: یہ یتیم کیا ہوتا ہے؟ بچہ جواب دیتے ہوئے کہتا: یتیم وہ ہوتا ہے جس کا میری طرح پیٹ خالی ہوتا ہے، یتیم وہ ہوتا ہے جس کے پاؤں میں چپل نہیں ہوتی لیکن وہ دوسروں کے جوتے پالش کرتا ہے، یتیم کے پاس خود پڑھنے کے لیے کتابیں نہیں ہوتی لیکن وہ دوسروں کی منتیں کر کے قلم بیچ رہا ہوتا ہے، یتیم اپنے تن پر کپڑا لانے کی لیے محنت و مزدوری کرتا ہے۔

زید پھر سے سوال کرتے ہوئے دریافت کرتا: میں سمجھا نہیں کیا غریب کو یتیم کہتے ہیں؟ بچہ کہتا: نہیں بھائی غریب کے پاس تو صرف پیسے نہیں ہوتے لیکن یتیم کی زندگی غریب سے کئی زیادہ مشکل ہوتی ہے،یتیم کو بچپن سے ہی بڑا ہونا پڑتا ہے کیونکہ اس کے سر پر ہاتھ رکھنے والا باپ نہیں ہوتا، یتیم وہ ہوتا ہے جیسے خود اپنی ساری خواہشات کا گلا گھوٹنا پڑتا ہے کیونکہ اس کی خواہشات سننے والا کوئی نہیں ہوتا، یتیم وہ ہوتا ہے جسے اپنی آنکھ سے نکلنے والے آنسو خود اپنے حلق میں اتارنے ہوتے ہیں، یتیم وہ ہوتا ہے کہ دنیا چاہے اس پر جتنا بھی ظلم کر لے اس کے لیے لڑنے والا کوئی نہیں ہوتا، یتیم کو ہر کوئی حقارت سے دیکھتا ہے، یتیم کو ہر کوئی دھتکارتا ہے، کچھ لوگ تو یتیم کو ایسے کوستے ہیں جیسے یتیم ہونے میں خود اس کا قصور ہو۔

بچہ زید سے مخاطب ہوتے ہوئے: آپ تو شکر کیجیے آپ کے والد موجود ہیں آپ کی خواہشات سننے کے لیے آپ کے سر پر ہاتھ رکھنے والے آپ میری طرح یتیم نہیں ورنہ دنیا یتیموں سے اچھا سلوک نہیں کرتی ہے۔

غور کیجئے! یہ کہانی ہمارے معاشرے میں یتیموں سے ہونے والی بدسلوکیوں کو واضح طور پر بیان کر رہی ہے۔ واقعی یتیم کو پیار دینے والا کوئی نہیں ہوتا باپ کی دنیا سے رخصت ہوتے ہی رشتوں کی حقیقت کھلنے لگتی ہے سب اپنے پرائے ظاہر ہو جاتے ہیں اگر باپ ورثے میں مال چھوڑ گیا ہے تو پھر کفالت کرنے والے تو پیدا ہو جاتے ہیں مگر صرف مال و دولت کے لالچ میں، یتیموں کو وراثت سے محروم کر دیتے ہیں ان کا مال ناحق کھانے والوں کے متعلق سخت وعید بیان کی گئی ہیں:

ارشاد باری تعالی ہے:

اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔

حدیث پاک میں ہے: چار قسم کے لوگ ایسے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نہ انہیں جنت میں داخل کرے گا اور نہ ہی اس کی نعمتیں چکھائے گا ان میں سے ایک یتیم کا مال ناحق کھانے والا بھی ہے۔ (مستدرک، 2/338، حدیث: 2307)

یتیم کا مال ناحق کھانا، اپنے مال کے ساتھ ملا لینا، مال پر قبضہ کرنا، اس سے برے طریقے سے بات کرنا، طعن و تشنیع کرنا، حقارت سے پیش آنا، کھانے پینے، پہننے اوڑھنے کا خیال نہ رکھنا، یہ تمام ہی بدسلوکیوں میں شامل ہے۔

یاد رکھیے! آج اگر ہم یتیموں کے دکھ درد کو ہلکا کرنے ان کی ضرورتوں کا خیال رکھ کر ان کی زندگیوں پر چھائی تاریکیاں مٹانے اور ان کے مرجھائے اور غمزدہ چہروں پر مسکراہٹیں بکھیرنے کی کوشش کریں گے تو اللہ کریم ہماری دنیا و آخرت کو روشن فرمائے گا۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں یتیموں سے اچھا سلوک کرنے اور ان کا سہارا بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین