علّامہ عبدُالرَّءُوف مُنادی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : پانچوں نمازوں میں سب سے افضل نمازِ عصر ہے،پھر نمازِ فجر، پھر عشا، پھر مغرب، پھر ظہر اور پانچوں نمازوں کی جماعتوں میں افضل جماعت نمازِ جمعہ کی جماعت ہے، پھر فجر کی، پھر عشا کی۔ جمعہ کی جماعت اس لیے افضل ہے کہ اس میں کچھ خصوصیات ہیں جو اسے دیگر نمازوں سے ممتاز کرتی ہیں جبکہ فجر و عشا کی جماعت اس لیے فضیلت والی ہیں کہ ان میں مشقت (یعنی محنت) زیادہ ہے۔ (فیض القدیر ج 2 ص 53 )مشکل کام کا ثواب زیادہ ہے۔مگر نفس بہت آرام طلب ہے کہ اسے اس کام میں لذت محسوس ہوتی ہے جس میں اسے محنت نہیں کر نی پڑتی اور چونکہ عشا کی نماز رات کے وقت پڑھی جاتی ہے اور اس وقت نیند کا غلبہ زیادہ ہوتا ہے ۔ اسی لیے نفس فجر و عشا کی نماز میں زیادہ سستی کرتا ہے۔ چنانچہ عشا کے لغوی معنی : رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں، چونکہ یہ نماز اندھیرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے اس لیے اس نماز کو عشا کی نماز کہا جاتا ہے۔ بعض انبیائے کرام علیہم السلام نے مختلف اوقات کی نمازیں جدا جدا مواقع پر ادا فرمائیں۔ اللہ پاک نے اپنے ان پیاروں کی پیاری پیاری اداؤں کو ہم غلامانِ مصطفٰی پر فرض کر دیا۔چنانچہ اعلٰی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے چند روایات بیان کرنے کے بعد جس روایت کو بہتر قرار دیا اس کے مطابق نمازِ عشا حضرت یونس علیہ السلام نے سب سے پہلے ادا فرمائی۔ (فتاوی رضویہ ج 5 ص 43 تا 73 ملخصا ) اب یہاں نمازِ عشا کے فضائل و وعید پر مشتمل 5 احادیث ذکرکی جاتی ہیں تاکہ نفس کی سستی کو ختم کر کے وقت پر نماز پڑھنے کا ذہن بنے۔ (1) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے : تاجدارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : سب نمازوں میں زیادہ گراں( یعنی بوجھ والی)منافقوں پر نمازِ عشا و فجر ہے اور جو ان میں فضیلت ہے اگر جانتے تو ضرور حاضر ہوتے اگرچہ سرین (یعنی بیٹھنے میں بدن کا جو حصہ زمین پر لگتا ہے اس ) کے بل گھسٹتے ہوے یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔(ابن ماجہ ج 1 ص 437 حديث 797 )(2) تابعی بزرگ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے کہ سرورِ دو جہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت (یعنی پہچان) عشا و فجر کی نماز میں حاضر ہونا ہے کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔(مؤطا امام مالك ج 1 ص 133 حديث 298 )حضرت علامہ عبد الرءوف مناوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں :اس حديث میں بیان کردہ منافق سے مراد منافق عملی ہے۔(فیض القدیر ج 1 ص 84 )(3)خادمِ نبی حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے چالیس دن فجر و عشا باجماعت پڑھی اس کو اللہ پاک دو آزادیاں عطا فرمائے گا۔ ایک نار (یعنی آگ )سے،دوسری نفاق (یعنی منافقت )سے۔(ابن عساکر ج 52 ص 338 )(4)امیر المومنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،سرکارِ دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے: جو چالیس راتیں مسجد میں باجماعت نمازِ عشا پڑھے کہ پہلی رکعت فوت نہ ہو،اللہ پاک اس کے لیے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے ۔ (ابن ماجہ ج 1 ص437 حديث 798)(5)حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :جو نمازِ عشا جماعت سے پڑھے گویا (یعنی جیسے )اس نے آدھی رات قیام کیا اور جو فجر جماعت سے پڑھے گویا (یعنی جیسے ) اس نے پوری رات قیام کیا ۔ (مسلم ص 258 حديث 1491 ) اے ہمارے پیارے اللہ! ہمیں ہر نماز خشوع و خضوع کے ساتھ ، وقت پر پڑھنے کی سعادت عنایت فرما۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم

تو پانچوں نمازوں کی پابند کر دے پئے مصطفٰی ہم کو جنت میں گھر دے

صلوا علی الحبیب صلی اللہ علی محمد