اسلام میں جو اہمیت نماز کو حاصل ہے وہ کسی اور عبادت کو حاصل نہیں۔ نماز ارکانِ اسلام میں سے ایک اہم ترین رکن ہے۔روزِ قیامت تمام حقوق اللہ میں سب سے پہلے اسی کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ایک حدیثِ پاک میں ہے:جو اللہ پاک سے اس حال میں ملا کہ اس نے نماز ضائع کی ہو تو اللہ پاک اس کی کسی نیکی کی پروا نہ کرے گا۔ (کتاب الکبائر، الکبیرۃ الرابعۃ فی ترک الصلوۃ، ص 22)عشا کے لغوی معنی رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں۔ چونکہ یہ نماز اندھیرا ہوجانے کے بعد ادا کی جاتی ہے، اس لئے اس نماز کو عشا کی نماز کہا جاتا ہے۔(فیضان نماز، ص 114 بحوالہ شرح مشکل الآثار للطحاوی، ج 3، ص 34، 31 ملخصا)نمازِ عشا کی اہمیت و فضیلت پر مشتمل پانچ احادیثِ مبارکہ درج ذیل ہیں:1:تم کو اس نماز (عشا) کی وجہ سے پچھلی تمام امتوں پر فضیلت دی گئی ہے اور تم سے پہلے کسی امت نے یہ نماز نہیں پڑھی۔(سنن ابو داؤد ج 1 ص 61)اس حدیثِ پاک کے تحت مرآۃ المناجیح، جلد 1، صفحہ 376 پر ہے: نمازِ عشا ہم سے پہلے کسی امت پر فرض نہ تھی، ہاں! بعض نبی بطورِ نفل اسے پڑھتے رہے ہیں۔2:جو شخص چالیس راتیں مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھے کہ عشا کی تکبیرِ اُولیٰ(پہلی تکبیر) فوت نہ ہو، اﷲ کریم اس کے لیے دوزخ سے آزادی لکھ دے گا۔(سنن ابن ماجہ، أبواب المساجد۔۔۔إلخ، باب صلاۃ العشا و الفجر فی جماعۃ، الحدیث: 798، ج 1، ص 437)3: جس نے عشا کی نماز جماعت سے پڑھی گویا وہ آدھی رات عبادت میں کھڑا رہا اور جس نے فجر کی نماز جماعت سے ادا کی تو گویا وہ پوری رات عبادت میں کھڑا رہا۔(مسلم شریف، کتاب المساجد۔۔۔الخ، باب فضل صلوۃ الجماعۃ۔۔۔الخ، ص 329، الحدیث 260)4:ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت (یعنی پہچان) عشا و فجر کی نماز میں حاضر ہونا ہے کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔(موطا امام مالک ج 1 ص 133 حدیث 298)اس حدیث میں ذکر کردہ منافق سے مراد(دورِ رسالت کے بدترین کفار نہیں ہیں جو خود کو جھوٹ موٹ مسلمان ظاہر کرتے تھے مگر دل سے کافر تھے بلکہ یہاں مراد)منافقِ عملی ہے۔(جو کہ حقیقت میں مسلمان ہے)۔(فیضان نماز ص 112 بحوالہ فیض القدیر ج 1 ص 84)5: سب نمازوں میں زیادہ گراں(یعنی بوجھ والی) منافقوں پر نمازِ عشا و فجر ہے، اور جو ان میں فضیلت ہے اگر جانتے تو ضرور حاضر ہوتے اگرچہ سُرین (یعنی بیٹھنے میں بدن کا جو حصہ زمین پر لگتا ہے اس) کے بل گھسٹتے ہوئے یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔(ابن ماجہ، ج 1، ص 437، حدیث 797)معلوم ہوا!جو مسلمان ان دو نمازوں میں سستی کرے،وہ منافقوں کے سے کام کرتا ہے۔ (مرآۃ المناجیح، جلد 1، صفحہ 396)افسوس! فی زمانہ بہت سے لوگ رات گئے تک جاگتے رہنے کے باوجود نمازِ عشا قضا کردیتے ہیں، تو کچھ لوگ نیند اور سستی جیسے بہانوں کے سبب نماز جیسی اہم عبادت کو ترک کربیٹھتے ہیں۔ حالانکہ پانچوں نمازوں میں سے کسی بھی نماز کا بلاعذرِ شرعی چھوڑدینا گناہ کبیرہ، حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے۔ اس کے برعکس مشقت کے باوجود پابندی کے ساتھ نماز ادا کرنا اللہ پاک کی خوشنودی کا سبب اور بہت زیادہ اجر و ثواب کا باعث ہے۔ہمیں چاہئے کہ نفس و شیطان کے سستی دلانے یا محض دنیاوی مصروفیات کے سبب اللہ کریم میں بارگاہ میں حاضری سے محروم نہ رہیں بلکہ پانچوں نمازیں پابندیِ وقت کے ساتھ ادا کرنے کی عادت بنائیں۔ اللہ پاک عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم