عشا کے لغوی معنیٰ:رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں،چونکہ یہ نماز اندھیرا ہوجانے کے بعد ادا کی جاتی ہے، اس لئے اِس نماز کو عشا کی نماز کہا جاتا ہے۔(شرح مشکل الآثار للطعاوی، ج3، ص 34، 31ملخصاً)سب سے پہلے نمازِ عشا پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ادا فرمائی۔ (شرح معانی الآثار رضویہ، ج7، ص 402 تا 408)، نمازِ عشا حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی امت کی خصوصیت ہے اور نمازِ پنجگانہ (یعنی 5وقت کی نمازیں) بھی۔ حضرت کعب الاحبار رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: میں نے توریت کے کسی مقام پر پڑھا جس کا جز یہ ہے کہ اے موسیٰ! شفق ڈوب جانے کے وقت یعنی عشا کی چار رکعتیں ہیں، پڑھیں گے انہیں احمد اور ان کی امت، وہ دنیا و مافیہا (یعنی دنیا اور اس کی ہر چیز ) سے ان کے لئے بہتر ہے، وہ انہیں گناہوں سے ایسا نکال دیں گی جیسے اپنی ماؤں کے پیٹ سے پیدا ہوئے۔(حاشیہ فتاویٰ رضویہ، مخرجہ، ج5، ص 52 تا 54)حضرت عثمانِ غنی رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو نمازِ عشا جماعت سے پڑھے گویا(یعنی جیسے)اُس نے آدھی رات قیام کیا۔(مسلم، ص 258، حدیث 1491)حضرت انس رضی الله عنہ سے روایت ہے،سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس نے 40 دن فجر و عشا باجماعت پڑھی، اس کو اللہ پاک 2 آزادیاں عطا فرمائے گا، ایک نار(یعنی آگ)سے دوسری نفاق(یعنی منافقت سے)۔ (ابن عساکر 52، ص 338)امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی الله عنہ سے روایت ہے، سرکارِ دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے:جو چالیس راتیں مسجد میں باجماعت نمازِ عشا پڑھے کہ پہلی رکعت فوت نہ ہو،اللہ پاک اس کے لئے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے۔ (ابن ماجہ، ج1، ص437، حدیث 798)جو عشا کی نماز میں سستی کرتا ہے، وہ منافقوں کے سے کام کرتا ہے۔ اس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ صرف سستی کرنا منافق کا عمل ہے، تو جو سِرے سے نماز ہی نہیں پڑھتا، اس کے لئے کیا کیا وعید ہیں!نماز جنت میں لے جانے کا ذریعہ، عذاب سے حفاظت کا ذریعہ، دنیا و مافیہا سے بہتر اور دونوں جہاں کی رحمتیں و برکتیں نازل ہونے کا سبب بنتا ہے، تو نیت کرتی ہیں کہ عشا کے ساتھ ساتھ دیگر 4 نمازوں کی پابندی بالخصوص کریں گی۔اللہ پاک ہمیں عمل کی توفیق نصیب کرے۔آمین

تو پانچوں نمازوں کی پابند کردے پئے مصطفیٰ ہم کو جنت میں گھر دے