یتیم کی تعریف
یہ ہے کہ وہ نابالغ بچہ جس کا باپ انتقال کرجائے۔ اسلام نے یتیم کے ساتھ حسن سلوک
کو ایمان کا جزو قرار دیا ہے اور نبی کریم ﷺ نے یتیموں کی کفالت کو جنت میں اپنی
قربت کا ذریعہ قرار دیا ہے۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر یتیموں کے حقوق کا ذکر
آیا ہے، جیسا کہ فرمایا گیا: وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ
هِیَ اَحْسَنُ حَتّٰى یَبْلُغَ اَشُدَّهٗۚ- (پ 8،
الانعام: 152)ترجمہ: اور یتیم کے مال کے قریب نہ جاؤ، مگر بہتر طریقے سے، یہاں تک
کہ وہ بلوغت کو پہنچ جائے۔
لیکن افسوس!
آج کے معاشرے میں یتیموں سے جو سلوک روا رکھا جاتا ہے وہ نہایت افسوسناک ہے۔ ان سے
ان کا حق چھین لیا جاتا ہے، وراثت میں دھوکا دیا جاتا ہے، ان کے ساتھ ظلم اور
زیادتی کی جاتی ہے، حتیٰ کہ بعض اوقات انہیں نوکر یا بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ یہ عمل
نہ صرف اخلاقی پستی کی علامت ہے بلکہ رب کریم کے غضب کو دعوت دینے کا سبب بھی ہے۔ ہمیں
یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ یتیم بچے صرف کسی اور کے بچے نہیں، بلکہ وہ ہماری
اجتماعی ذمہ داری ہیں۔ ان کے چہروں پر خوشی لانا، ان کو تعلیم دینا، ان کے خوابوں
کو سہارا دینا یہ سب ہمارے فرض میں شامل ہے۔
اگر ہم چاہتے
ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہم پر رحم کرے، تو ہمیں بھی دوسروں پر رحم کرنا ہوگا، خاص طور
پر ان پر جو بے سہارا اور یتیم ہیں۔ آیئے! آج سے یہ عہد کریں کہ نہ صرف خود یتیموں
سے حسن سلوک کریں گے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین کریں گے، کیونکہ ایک مہذب،
اسلامی معاشرہ وہی ہے جہاں یتیم محفوظ، خوش اور باوقار زندگی گزار سکیں۔
یتیموں سے
بدسلوکی کے متعلق درج ذیل آیات و احادیث نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات کا مظہر ہیں جو
ہمیں یتیموں سے حسن سلوک اور شفقت کا درس دیتی ہیں، چنانچہ
ارشادِ باری
تعالیٰ ہے: فَاَمَّا الْیَتِیْمَ
فَلَا تَقْهَرْؕ(۹) (پ 30، الضحی: 9) ترجمہ کنز الایمان: تو یتیم پر
دباؤ نہ ڈالو۔ اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ یتیم کو جھڑکنا نہیں، نہ اس پر ظلم کرنا۔
اسی طرح نبی کریم
ﷺ نے فرمایا: رحم کرو تاکہ تم پر رحم کیا جائے، معاف کرو تاکہ تمہیں معاف کیا
جائے، تم میں سے ان لوگوں کے لیے خرابی ہے جو یتیموں پر ظلم کرتے ہیں۔
یتیموں سے
بدسلوکی کا انجام نہایت سنگین اور دردناک ہوتا ہے، جو دنیا و آخرت دونوں میں نظر آ
سکتا ہے۔ احادیث، قرآن اور اسلامی تعلیمات کی روشنی میں یتیموں سے بدسلوکی کا
نتیجہ درج ذیل ہو سکتا ہے:
1۔
اللہ کی ناراضگی: یتیموں
سے بدسلوکی اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتی ہے، کیونکہ قرآن مجید میں واضح حکم
ہے کہ یتیموں سے حسن سلوک کیا جائے۔
2۔
دوزخ کی وعید: جو
لوگ یتیموں کے مال میں خیانت یا ان پر ظلم کرتے ہیں، ان کے لیے سخت وعید آئی ہے، ارشاد
باری تعالیٰ ہے:
اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ
اَمْوَالَ الْیَتٰمٰى ظُلْمًا اِنَّمَا
یَاْكُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِهِمْ نَارًاؕ-وَ سَیَصْلَوْنَ
سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق
ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم
جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔
3۔
رسول ﷺ کی ناراضی: نبی کریم ﷺ نے بھی یتیموں پر ظلم اور بدسلوکی کرنے
والوں کو سخت الفاظ میں تنبیہ فرمائی ہے۔ ایسے لوگ رسول اللہ ﷺ کی قربت سے محروم
ہو سکتے ہیں۔
4۔
معاشرتی نفرت اور ذلت: ایسے افراد جو یتیموں سے بدسلوکی کرتے ہیں، معاشرے
عزت نہیں پاتے، بلکہ لوگ ان سے نفرت کرتے ہیں۔ یہ دنیا میں بھی ذلت کا باعث بنتی
ہے۔
آخر میں اللہ
پاک سے دعا ہے کہ اللہ پاک ہمیں یتیموں سے حسن سلوک سے پیش آنے کی توفیق عطا
فرمائے۔ آمین