اللہ پاک کی طرف سے فرض کردہ پانچ نمازیں ہیں  جن کو ادا کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے نمازوں میں سے ایک نماز، عشا کی نماز ہے۔ عشا کے لغوی معنی رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں چونکہ یہ نماز اندھیرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے اس لئے اس نماز کو عشا کی نماز کہا جاتا ہے ۔

نماز عشا کی اہمیت و فضیلت احادیث مبارک کی روشنی میں درجہ ذیل ہیں:۔

(1) حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : سب نمازوں میں زیادہ گراں (یعنی بوجھ والی) منافقوں پر نمازِ عشا و فجر ہے۔(2) تابعی بزرگ حضرتِ سیِّدُنا سعید بن مسیَّب رحمۃُ اللہِ علیہ سے مروی ہے کہ سرورِ دوجہان صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:ہمارے اور منافِقین کے درمِیان علامت (یعنی پہچان) عشا و فجر کی نماز میں حاضِر ہونا ہے کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔(3) حضور اکرم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : جو نمازِ عشا سے پہلے سوئے اللہ پاک اُس کی آنکھ کو نہ سلائے۔

(4) حضرتِ سیِّدُناعثمان غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ا رشاد فرمایا: جو نمازِعشا جماعت سے پڑھے گویا(یعنی جیسے)اُس نے آدھی رات قیام کیا اور جو فجر جماعت سے پڑھے گویا (یعنی جیسے) اس نے پوری رات قیام کیا۔(5) حضرتِ اَنَس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جس نے چالیس دن فجر و عشا باجماعت پڑھی اُس کو اللہ پاک دو آزادیاں عطا فرمائے گا۔ ایک نَار(یعنی آگ) سے ،دوسری نفاق (یعنی مُنافقت) سے۔

مندرجہ بالا احادیث مبارکہ سے نماز عشا کے اہمیت و فضیلت واضح ہے۔ اللہ پاک ان فضیلتوں کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


کسی بھی چیز کے اختتام کی بہت اہمیت ہے۔ بالفرض کام میں کسی قسم کی کوتاہی بھی ہو جائے لیکن اگر اس کا خاتمہ اچھا ہو جائے تو وہ کام اچھا شمار کیا جاتا ہے۔ جیسے اگر کوئی شخص معاذاللہ عزوجل ساری عمر کفر کے اندھیروں میں رہا اور عمر کے آخری حصے میں اسے دولت ایمان نصیب ہوگئی۔ اور اس کو جنتی ہی کہا جائے گا۔ اسی مضمون کو حدیث مبارکہ میں یوں بیان کیا گیا ہے: اِنّمَا الْاَعمالُ بِالْخَوَاتِیْم یعنی اعمال کا دارومدار خاتمے پر ہے۔ (بُخاری ج حدیث:6607)اسی طرح پانچ نمازوں میں عشا کی نماز کی بہت اہمیت بیان کی گئی ہے کہ یہ دن کی آخری نماز ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: سب نمازوں میں زیادہ گراں (یعنی بوجھ والی) منافقوں پر نمازِ عشا و فجر ہے، اور جو اِن میں فضیلت ہے اگر جانتے توضرور حاضر ہوتے اگرچِہ سرین (یعنی بیٹھنے میں بدن کاجو حصّہ زمین پر لگتا ہے اُس) کے بل گھسٹتے ہوئے یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔ (ابن ماجہ، 1/437، حدیث :797)

حضرتِ سیِّدُنا سعید بن مسیَّب رحمۃُ اللہِ علیہ سے مروی ہے:ہمارے اور منافِقین کے درمِیان علامت (یعنی پہچان) عشا و فجر کی نماز میں حاضِر ہونا ہے کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (فیضان نما،ص112) اس حدیث مبارکہ میں منافقین سے مراد منافق اصلی ہے جو کہ حقیقت مسلمان نہیں ۔

بعض عارِفین (یعنی اللہ پاک کی پہچان رکھنے والوں ) کاقول ہے: نمازِفجر باجماعت پابندی سے پڑھنے سے دنیا کے مشکل کام آسان ہوجاتے ہیں ، نمازِ عصرو عشا میں جماعت کی پابندی سے زُہد پیدا ہوتا(یعنی دنیا سے بے رغبتی نصیب ہوتی) ہے ، ’’خواہِشات‘‘ کی پیروی سے نفس باز رہتا ہے۔(فیضان نما،ص113)

ہاں عشا کی نماز سے قبل سونا نہیں چاہیے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرمایا: جو نمازِ عشا سے پہلے سوئے اللہ پاک اُس کی آنکھ کو نہ سلائے۔ ’’بہارِ شریعت‘‘ میں ہے: مغرب و عشا کے درمیان میں سونا مکروہ ہے۔ (فیضان نما،ص113)

ہم اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں ہمیں ہر نماز باجماعت تکبیر اولیٰ کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جس طرح ہم دن کا خاتمہ اللہ کے ذکر سے کریں اسی طرح ہماری زندگی کا خاتمہ بھی ذکرِ الٰہی سے ہو۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


بیشک نماز دین کا ستون ہے۔ اعلیٰ و ارفع عبادت ہے۔ بلاشبہ نمازِ پنجگانہ مؤمنین پر فرض ہے۔ اللہ پاک نے نماز فرض کر کے ہم پر یقیناً احسان عظیم فرمایا ہے۔ نماز پنجگانہ اللہ پاک  کی بہت بڑی نعمت ہے اور وہ نعمت عظمیٰ ہے جو اللہ پاک نے کرم عظیم سے اسے خاص ہم کو عطا فرمائی۔ ہم سے پہلے کسی امت کو نہ ملی۔ یوں تو نمازِ پنجگانہ پڑھنے کے بے شمار فضائل برکات ہیں لیکن اس کے ساتھ ہر نماز کے جدا گانہ بھی بے شمار فضائل ہیں۔ اسی طرح نماز عشا بھی اپنے پڑھنے والوں کے لئے برکتوں اور فضیلتوں کی بشارت لئے ہوئے ہیں۔

عشا کے لغوی معنٰی ”رات کی ابتدائی تاریکی“ کے ہیں، چونکہ یہ نماز اندیھرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے اس لئے اس نماز کو ”عشا“ کہتے ہیں۔ (شرح مشکل الآثار،3/34) نماز عشا کے وقت عام طور پر خواتین سارا دن گھر کا کام کاج کر کے اور مرد حضرات اپنے دفاتر اور کاروبار کے کام سے تھکے ہوتے ہیں اسی وجہ سے عشا کی نماز میں سستی کر جاتے ہیں۔ ایسا کرنا بالکل درست نہیں بلکہ اس وقت تھکاوٹ اور دوسرے کام کاج وغیرہ بھول کر نماز ادا کرنی چاہیے۔ چنانچہ عشا کی اہمیت پر پانچ فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ملاحظہ ہوں۔

(1) حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : سب نمازوں میں زیادہ گراں (یعنی بوجھ والی) منافقوں پر نمازِ عشا و فجر ہے، اور جو اِن میں فضیلت ہے اگر جانتے توضرور حاضر ہوتے اگرچِہ سرین (یعنی بیٹھنے میں بدن کاجو حصّہ زمین پر لگتا ہے اُس) کے بل گھسٹتے ہوئے یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔ (ابن ماجہ، 1/437، حدیث :797) (2) تابعی بزرگ حضرتِ سیِّدُنا سعید بن مسیَّب رحمۃُ اللہِ علیہ سے مروی ہے کہ سرورِ دوجہان صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:ہمارے اور منافِقین کے درمِیان علامت (یعنی پہچان) عشا و فجر کی نماز میں حاضِر ہونا ہے کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (مؤطا امام مالک ،1/133،حدیث :298)

(3) حضرتِ سَیِّدُنا عثمان غنی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سُنا : جس نے عشا کی نماز باجماعت ادا کی گویا اس نے آدھی رات قیام کیا اور جس نے فجر کی نماز باجماعت ادا کی گویا اس نے ساری رات قیام کیا ۔ (مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب فضل صلاة العشا...الخ، ص258، حدیث : 1491) (4) ایک روایت میں ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بعض لوگوں کو بعض نمازوں میں نہ پایا تو فرمایا: بےشک میں نے ارادہ کیا کہ نماز قائم کرنے کا حکم دوں پھر کسی کو حکم فرماؤں کہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں اپنے ہمراہ کچھ لوگوں کو جن کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوں ،ان کے پاس لے کر جاؤں ، جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھر اُن پر آگ سے جلا دوں۔(مسلم،ص256،حدیث:1482) (5) امیر المؤمنین حضرتِ سیدُنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالی شان ہے: جو چالیس راتیں مسجد میں باجماعت نمازِعشا پڑھے کہ پہلی رَکعت فوت نہ ہو ، اللہ پاک اس کے لئے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے۔ (ابن ماجہ، 1/437،حدیث:798)

سبحان اللہ اسی طرح پنجگانہ نمازوں کے فضائل و برکات ہیں اور ان کو ادا کرنے میں ہماری دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔ اللہ پاک ہم کو پانچ وقت کی نماز باجماعت پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


پیارے اسلامی بھائیوں !  نماز اللہ پاک کی بہت بڑی اعلیٰ و عرفان عبادت اور نعمت ہے۔ کیونکہ نماز دین کا ستون، یقین کا وسیلہ، عبادت کی اصل، طاعت کی چمک ہے۔ وہ نعمت عظمیٰ ہے جو ہمارے آقا معراج کے دولہا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو معراج کی رات اللہ پاک نے تحفے میں عطا فرمائی اور یہ ایسا کمال و جمال کا تحفہ ہے جو نہ کسی بھی امت کو ملا ہے اور نہ ہی رہتی دنیا تک کسی کو ملے گا۔ یہ بھی یاد رہے کہ یقیناً ہر مسلمان سے نماز کے متعلق سوال ہونا ہے۔ نماز ہر مکلف یعنی عاقل بالغ پر فرض عین ہے۔ اس کی فرضیت کا منکر کافی ہے۔ اور جس نے قصداً نماز چھوڑی جہنم کے دروازے پر اس کا نام لکھ دیا جاتا ہے ۔(کنز العمال،7/132،حدیث:19582) لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم اس نعمت عظمیٰ کی قدر کرتے ہوئے پانچوں نمازوں کی حفاظت اور پابندی کرے۔

آیئے نماز عشا کے متعلق پانچ فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پڑھتے ہیں:۔

(1) حضرت سیدنا عبدالرحمٰن بن ابو عمرہ انصاری رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نماز عشا کے لئے تشریف لائے تو مسجد میں تھوڑے آدمی دیکھے، تو مسجد کے آخر میں لیٹ کر لوگوں کا انتظار کرنے لگے۔ تو ابو عمرہ انصاری ان کے پاس آ کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے پوچھا کہ کون ہے؟ تو آپ ابو عمرہ نے کہا: میں ہو۔ عثمان غنی نے فرمایا: آپ کو قرآن کتنا آتا ہے؟ ابو عمرہ نے انہیں بتایا۔ تو حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جو عشا کی جماعت میں شامل ہوا گویا اس نے آدھی رات قیام کیا اور نماز فجر میں شامل ہوا تو گویا اس نے ساری رات قیام کیا۔ موطا امام مالک ،1/139)

(2) حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : سب نمازوں میں زیادہ گراں (یعنی بوجھ والی) منافقوں پر نمازِ عشا و فجر ہے، اور جو اِن میں فضیلت ہے اگر جانتے توضرور حاضر ہوتے اگرچِہ سرین (یعنی بیٹھنے میں بدن کاجو حصّہ زمین پر لگتا ہے اُس) کے بل گھسٹتے ہوئے یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔

حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں : کیونکہ منافق صر ف دکھلاوے کے لئے نماز پڑھتے ہیں ، اور وقتوں میں تو خیر جیسے تیسے پڑھ لیتے ہیں مگر عشاکے وَقت نیند کاغلبہ، فجر کے وَقت نیند کی لذت انہیں مست کردیتی ہے ۔ اخلاص و عشق تمام مشکلوں کو حل کرتے ہیں وہ ان میں ہے نہیں ، لہٰذا یہ دو نمازیں انہیں بہت گراں (یعنی بہت بڑا بوجھ معلوم ہوتی) ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ جو مسلمان ان دو نمازوں میں سُستی کرے وہ منافِقوں کے سے کام کرتا ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، 1/396)

(3) حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اعظم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اگر لوگوں کو معلوم ہو جائے کہ نماز عشا میں شرکت کا ثواب کیا رکھا گیا ہے تو وہ ضرور گھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے آئیں گے۔(المعجم الاوسط لطبرانی،1/462،حدیث:805)

(4) حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو دو ٹھنڈی نمازیں پڑھا کرے وہ جنت میں جائے گا۔( مشکاۃ المصابیح،1/116،حدیث:325) اس حدیث پاک کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی نے لکھا ہے: ٹھنڈی نمازوں سے مراد فجر اور عشا ہے یا فجر و عصر۔ (مراٰۃ المناجیح،1/462)

(5) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے چالیس دن فجر اور عشا باجماعت پڑھی، اس کو اللہ پاک دو برائتیں عطا فرمائے گا۔ ایک نار سے دوسری نفاق سے۔( تاریخ بغداد،11/374،حدیث:6431)

اللہ پاک ہمیں عشا کی نماز کے ساتھ باقی نمازوں کی بھی پابندی عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


نماز کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں سینکڑوں جگہ اس کا حکم ارشاد فرمایا۔ نماز ایک اعلیٰ عبادت ہے اور اللہ پاک کی خوشنودی حاصل کرنے  کا بہترین ذریعہ ہے۔چنانچہ پارہ 21 سورۃ الروم آیت نمبر 17 میں ارشاد باری ہے: فَسُبْحٰنَ اللّٰهِ حِیْنَ تُمْسُوْنَ وَ حِیْنَ تُصْبِحُوْنَ(۱۷) ترجَمۂ کنزُالعرفان: تو الله کی پاکی بیان کرو جب شام کرو اور جب صبح کرو۔(پ 21،الروم:17) تفسیر خازن میں ہے کہ یہاں تین نمازوں کا بیان ہوا، شام میں مغرب اور عشاء کی نمازیں آگئیں جبکہ صبح میں نمازِ فجر آ گئی۔( خازن، الروم، تحت الآیۃ: 17، 3 / 460)

آئیے اب احادیث مبارکہ سے نماز عشا کے بارے میں چند فضائل سننے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ ابوبکر کے پانچ حروف کی نسبت سے نماز عشا کے پانچ فضائل:

(1) پوری رات عبادتوں کا ثواب: حضرتِ سَیِّدُنا عثمان غنی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سُنا : جس نے عشا کی نماز باجماعت ادا کی گویا اس نے آدھی رات قیام کیا اور جس نے فجر کی نماز باجماعت ادا کی گویا اس نے ساری رات قیام کیا ۔ (مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب فضل صلاة العشا...الخ، ص258، حدیث : 1491)

(2) مُنافِقین عشا و فَجر میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے:تابعی بزرگ حضرتِ سیِّدُنا سعید بن مسیَّب رحمۃُ اللہِ علیہ سے مروی ہے کہ سرورِ دوجہان صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:ہمارے اور منافِقین کے درمِیان علامت (یعنی پہچان) عشا و فجر کی نماز میں حاضِر ہونا ہے کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (مؤطا امام مالک ،1/133،حدیث :298)

(3) شبِ براءت سے حصہ: حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ارشاد فرمایا : جس نے عشاء کی نماز با جماعت ادا کی تو تحقیق اس نے لیلۃ القدر (شب براءت) سے اپنا حصہ لے لیا ۔

(4) چالیس دن نماز پڑھی: حضرتِ سیدُنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالی شان ہے: جو چالیس راتیں مسجد میں باجماعت نمازِعشا پڑھے کہ پہلی رَکعت فوت نہ ہو ، اللہ پاک اس کے لئے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے۔ (ابن ماجہ، 1/437،حدیث:798)

(5) جہنم و نفاق سے آزادی: جس نے فجر اور عشا کی نماز باجماعت پڑھی اور جماعت سے کوئی بھی رکعت فوت نہ ہوئی تو اس کے لئے جہنم و نفاق سے آزادی لکھ دی جاتی ہے۔

مدنی پھول: عشا کے معنی ہیں ”رات کی ابتدائی تاریکی“ کے ہیں، چونکہ یہ نماز اندیھرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے اس لئے اس نماز کو عشا“ کہتے ہیں۔

دعا ہے کہ اللہ پاک ہم سب کو پانچوں نمازوں کی پابندی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


نماز دین کا ایک اہم رکن ہے۔ پانچ وقت کی نماز ہر مسلمان، عاقل، بالغ، مرد، عورت پر فرض ہے۔ نمازِ عشا کو اور بھی بہت فضیلت حاصل ہے۔ آئیے نماز کی اہمیت و فضیلت کے بارے میں پانچ فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سنتے ہیں:۔

(1) سرکار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے عشا کی نماز باجماعت ادا کی گویا اس نے آدھی رات قیام کیا اور جس نے فجر کی نماز باجماعت ادا کی گویا اس نے ساری رات قیام کیا ۔ (مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب فضل صلاة العشا...الخ، ص258، حدیث : 1491) حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : اس کے دومطلب ہوسکتے ہیں : ایک یہ کہ عشا کی باجماعت نماز کا ثواب آدھی رات کی عبادت کے برابر ہے ۔(مراٰۃ المناجیح، 1/396)

(2) حضرتِ سیِّدُنا اَنَس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جس نے چالیس دن فجر و عشا باجماعت پڑھی اُس کو اللہ پاک دو آزادیاں عطا فرمائے گا۔ ایک نَار(یعنی آگ) سے ،دوسری نفاق (یعنی مُنافقت) سے۔ (ابن عساکر ،52/338)

(3) حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : سب نمازوں میں زیادہ گراں (یعنی بوجھ والی) منافقوں پر نمازِ عشا و فجر ہے، اور جو اِن میں فضیلت ہے اگر جانتے توضرور حاضر ہوتے اگرچِہ سرین (یعنی بیٹھنے میں بدن کاجو حصّہ زمین پر لگتا ہے اُس) کے بل گھسٹتے ہوئے یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔ (ابن ماجہ، 1/437، حدیث :797)

(4) حضرتِ سیِّدُنا سعید بن مسیَّب رحمۃُ اللہِ علیہ سے مروی ہے کہ سرورِ دوجہان صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ’’ہمارے اور منافِقین کے درمِیان علامت (یعنی پہچان) عشا و فجر کی نماز میں حاضِر ہونا ہے کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (مؤطا امام مالک ،1/133،حدیث :298)

(5) حضور اکرم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : جو نمازِ عشا سے پہلے سوئے اللہ پاک اُس کی آنکھ کو نہ سلائے۔ (جمع الجوامع، 7/289،حدیث:23192)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! آپ نے جانا کہ نماز عشا کی اسلام میں اہمیت و فضیلت ہے۔ ہمیں نمازوں کی پابندی کرنی چاہیے خاص کر کے فجر اور عشا کی پابندی کرنی چاہیے کہ بعض عارِفین (یعنی اللہ پاک کی پہچان رکھنے والوں ) کاقول ہے: نمازِفجر باجماعت پابندی سے پڑھنے سے دنیا کے مشکل کام آسان ہو جاتے ہیں ، نمازِ عصرو عشا میں جماعت کی پابندی سے زُہد پیدا ہوتا(یعنی دنیا سے بے رغبتی نصیب ہوتی) ہے ، ’’خواہِشات‘‘ کی پیروی سے نفس باز رہتا ہے۔

اللہ پاک ہمیں پنجگانہ نمازوں کو پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ان کی برکتوں سے مالا مال فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


لَیْسُوْا سَوَآءًؕمِنْ  اَهْلِ  الْكِتٰبِ  اُمَّةٌ  قَآىٕمَةٌ  یَّتْلُوْنَ  اٰیٰتِ  اللّٰهِ  اٰنَآءَ  الَّیْلِ  وَ  هُمْ  یَسْجُدُوْنَ(۱۱۳) ترجَمۂ کنزُالعرفان: یہ سب ایک جیسے نہیں ، اہلِ کتاب میں کچھ وہ لوگ بھی ہیں جو حق پر قائم ہیں ، وہ رات کے لمحات میں اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتے ہیں اور سجدہ کرتے ہیں ۔(پ 04،اٰل عمران:113) تفسیر صراط الجنان میں ہے اس سے نمازِ عشا و تہجد دونوں ہی مراد ہو سکتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ نماز کے ارکان میں سجدہ بہت افضل ہے کہ سجدے کا بھی بطورِ خاص تذکرہ کیا گیا ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا کہ رات کی عبادت ، نماز اور تلاوت دن کی اِن عبادات سے افضل ہے۔(تفسیر صراط الجنان پارہ 4 تحت الآیۃ: 113)

احادیث مبارکہ: (1) حضرت عثمان غنی رَضِیَ اللہ عنہ سے روایت ہے، حضورِ علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: جس نے عشا کی نماز باجماعت ادا کی اُس نے آدھی رات کے قیام کا ثواب پایا اور جس نے نمازِفجر بھی باجماعت ادا کی وہ ساری رات عبادت کرنے والے کی مثل ہے۔( مسلم،کتاب المساجدومواضع الصلاۃ،باب فضل صلاۃ العشا والصبح فی جماعۃ)

(2) ابن ماجہ ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے راوی، کہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں :جو مسجد جماعت میں چالیس راتیں نماز عشا پڑھے، کہ رکعت اولیٰ فوت نہ ہو، اللہ پاک اس کے لئے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے۔(سنن ابن ماجہ ، أبواب المساجد باب صلاۃ العشا و الفجر في جماعۃ)

(3)طَبَرانی نے عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ سے روایت کی کہ حضور علیہ السلام فرماتے ہیں : سب نمازوں میں زیادہ گراں منافقین پر نماز عشا و فجر ہے اور جو ان میں فضیلت ہے، اگر جانتے تو ضرور حاضر ہوتے اگرچہ سرین کے بل گھسٹتے ہوئے۔(المعجم الکبیر،10/99، حدیث:10082)

(4)امام احمد و ابو داود و نَسائی و حاکم اور ابن خزیمہ و ابن حبان اپنی صحیح میں ابی بن کعب رضی اﷲ عنہ سے راوی، کہ ایک دن صبح کی نماز پڑھ کر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: آیا فلاں حاضر ہے؟ لوگوں نے عرض کی نہیں فرمایا: فلاں حاضر ہے؟ لوگوں نے عرض کی نہیں فرمایا: یہ دونوں نمازیں منافقین پر بہت گراں ہیں ، اگر جانتے کہ ان میں کیا (ثواب) ہے تو گھٹنوں کے بل گِھسٹتے آتے اور بے شک پہلی صف فرشتوں کی صف کے مثل ہے اور اگر تم جانتے کہ اس کی فضیلت کیا ہے تو اس کی طرف سبقت کرتے مرد کی ایک مرد کے ساتھ نماز بہ نسبت تنہا کے زیادہ پاکیزہ ہے اور دو کے ساتھ بہ نسبت ایک کے زیادہ اچھی اور جتنے زیادہ ہوں ، اﷲ پاک کے نزدیک زیادہ محبوب ہیں ۔(سنن أبي داود ، کتاب الصلاۃ، باب في فضل صلاۃ الجماعۃ،1/230، حدیث : 554)

(5)حضرت عبد الرحمٰن بن حرملہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے،حضور علیہ السلام نے ارشاد فرمایا: ہمارے اور منافقوں کے درمیان فرق عشا اور صبح کی نماز میں حاضر ہونا ہے ،منافقین ان دونوں نمازوں (میں حاضر ہونے ) کی اِستطاعت نہیں رکھتے ۔ ( سنن الکبری للبیہقی،کتاب الصلاۃ،باب ما جاء من التشدید فی ترک الجماعۃ )


حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : سب نمازوں میں زیادہ گراں (یعنی بوجھ والی) منافقوں پر نمازِ عشا و فجر ہے، اور جو اِن میں فضیلت ہے اگر جانتے توضرور حاضر ہوتے اگرچِہ سرین (یعنی بیٹھنے میں بدن کاجو حصّہ زمین پر لگتا ہے اُس) کے بل گھسٹتے ہوئے یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔ (ابن ماجہ، 1/437، حدیث :797)

شرح حدیث: حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں : کیونکہ منافق صر ف دکھلاوے کے لئے نماز پڑھتے ہیں ، اور وقتوں میں تو خیر جیسے تیسے پڑھ لیتے ہیں مگر عشاکے وَقت نیند کاغلبہ، فجر کے وَقت نیند کی لذت انہیں مست کردیتی ہے ۔ اخلاص و عشق تمام مشکلوں کو حل کرتے ہیں وہ ان میں ہے نہیں ، لہٰذا یہ دو نمازیں انہیں بہت گراں (یعنی بہت بڑا بوجھ معلوم ہوتی) ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ جو مسلمان ان دو نمازوں میں سُستی کرے وہ منافِقوں کے سے کام کرتا ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، 1/396)

مُنافِقین عشا و فَجر میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے:تابعی بزرگ حضرتِ سیِّدُنا سعید بن مسیَّب رحمۃُ اللہِ علیہ سے مروی ہے کہ سرورِ دوجہان صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ’’ہمارے اور منافِقین کے درمِیان علامت (یعنی پہچان) عشا و فجر کی نماز میں حاضِر ہونا ہے کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (مؤطا امام مالک ،1/133،حدیث :298)

نماز عشا سے پہلے سونا:حضور اکرم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : جو نمازِ عشا سے پہلے سوئے اللہ پاک اُس کی آنکھ کو نہ سلائے۔ (جمع الجوامع، 7/289،حدیث:23192)

امیر المؤمنین حضرت عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے حکام کو ایک فرمان لکھا جس میں یہ بھی ہے کہ جوعشا سے پہلے سوجائے خدا کرے اس کی آنکھیں نہ سوئیں ، جو سو جائے اس کی آنکھیں نہ سوئیں ، جو سو جائے اس کی آنکھیں نہ سوئیں ۔ (مؤطا امام مالک ،1/35،حدیث :06)

سیِّدُنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے فرمان کے متعلق مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں : جنابِ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی یہ دعائے ضرر اظہارِ غضب (یعنی ناراضی ظاہر کرنے )کے لئے ہے۔ خیال رہے کہ نماز عشا سے پہلے سو جانا اور عشا کے بعد بلاضرورت جاگتے رہنا (یہ دونوں ہی کام )سنّت کے خلاف اورنبی صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کوناپسندہے لیکن نماز سے پہلے سو کر نماز ہی نہ پڑھنا اور ایسے ہی عشا کے بعدجاگ کر فجر قضا کر دینا حرام ہے کیونکہ حرام کا ذریعہ بھی حرا م ہوتا ہے۔ (مراٰۃ المناجیح ،1/377)

عشا سے قبل سونا مکروہ ہے:’’بہارِ شریعت‘‘ میں ہے: دن کے ابتدائی حصے میں سونا یا مغرب و عشا کے درمیان میں سونا مکروہ ہے۔ (بہارِ شریعت، 3/436)

عشا کے بعد گفتگو کرنے کی تین صورتیں:(1) علمی گفتگو، کسی سے مسئلہ پوچھنا یااس کا جواب دینا یا اس کی تحقیق و تفتیش کرنا اس قسم کی گفتگو سونے سے افضل ہے۔ (2) جھوٹے قصے کہانی کہنا مسخرہ پن اور ہنسی مذاق کی باتیں کرنا یہ مکروہ ہے۔ (3) موانست کی بات چیت کرنا جیسے میاں بیوی میں یا مہمان سے اس کے انس کے لئے کلام کرنا یہ جائز ہے اس قسم کی باتیں کرے تو آخر میں ذکر الٰہی میں مشغول ہوجائے اور تسبیح و استغفار پر کلام کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ (بہارِ شریعت، 3/436)


نماز وہ عظیم الشان عبادت ہے جو اللہ پاک نے معراج کی رات اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم    کی امت کو عطا فرمائی۔ نماز ہی وہ عظیم عبادت ہے جس کو نبی مکرم نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا۔ یاد رہے!پانچ وقت کی نماز باجماعت ادا کرنا ہر مسلمان مردو عورت پر فرض ہیں،انہی پانچ نمازوں میں سے ایک نماز”عشا“ہے۔ جس کی اہمیت پر پانچ فرامین مصطفےٰ درج ذیل ہیں:

مؤمن کی علامت: تابعی بزرگ حضرتِ سیِّدُنا سعید بن مسیَّب رحمۃُ اللہِ علیہ سے مروی ہے کہ سرورِ دوجہان صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:ہمارے اور منافِقین کے درمِیان علامت (یعنی پہچان) عشا و فجر کی نماز میں حاضِر ہونا ہے کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (مؤطا امام مالک ،1/133،حدیث :298)

آدھی رات عبادت کا ثواب: حضرتِ سیِّدُناعثمان غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ا رشاد فرمایا: جو نمازِ عشا جماعت سے پڑھے گویا(یعنی جیسے)اُس نے آدھی رات قیام کیا اور جو فجر جماعت سے پڑھے گویا (یعنی جیسے) اس نے پوری رات قیام کیا۔ (مسلم ،ص258، حدیث:1491)

منافقت سے آزادی:جو خوش نصیب مسلسل چالیس دن تک فجرو عشا باجماعت ادا کرتا ہے وہ جہنَّم اور مُنافَقَت سے آزاد کردیا جاتا ہے جیسا کہ خادمِ نبی، حضرتِ سیِّدُنا اَنَس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جس نے چالیس دن فجر و عشا باجماعت پڑھی اُس کو اللہ پاک دو آزادیاں عطا فرمائے گا۔ ایک نَار(یعنی آگ) سے ،دوسری نفاق (یعنی مُنافقت) سے۔ (ابن عساکر ،52/338)

دوزخ سے آزادی : امیر المؤمنین حضرتِ سیدُنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالی شان ہے: ’’جو چالیس راتیں مسجد میں باجماعت نمازِعشا پڑھے کہ پہلی رَکعت فوت نہ ہو ، اللہ پاک اس کے لئے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے۔ (ابن ماجہ، 1/437،حدیث:798)

منافق پر بھاری: حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : سب نمازوں میں زیادہ گراں (یعنی بوجھ والی) منافقوں پر نمازِ عشا و فجر ہے، اور جو اِن میں فضیلت ہے اگر جانتے توضرور حاضر ہوتے اگرچِہ سرین (یعنی بیٹھنے میں بدن کاجو حصّہ زمین پر لگتا ہے اُس) کے بل گھسٹتے ہوئے یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔ (ابن ماجہ، 1/437، حدیث :797)

حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں : کیونکہ منافق صر ف دکھلاوے کے لئے نماز پڑھتے ہیں ، اور وقتوں میں تو خیر جیسے تیسے پڑھ لیتے ہیں مگر عشاکے وَقت نیند کاغلبہ، فجر کے وَقت نیند کی لذت انہیں مست کردیتی ہے ۔ اخلاص و عشق تمام مشکلوں کو حل کرتے ہیں وہ ان میں ہے نہیں ، لہٰذا یہ دو نمازیں انہیں بہت گراں (یعنی بہت بڑا بوجھ معلوم ہوتی) ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ جو مسلمان ان دو نمازوں میں سُستی کرے وہ منافِقوں کے سے کام کرتا ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، 1/396)


(1) حضرتِ سیدنا براء بن عازب رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے ظہر سے قبل چار رکعتیں ادا کیں گویا اس نے وہ رکعتیں تہجد میں ادا کیں اور جس نے عشا کے بعد چار رکعتیں ادا کیں گویا کہ اس نے شب قدر میں چار رکعتیں (نفل)ادا کیں ۔ (طبرانی اوسط ،4/386، حدیث:6332)

(2) حضرتِ سیدنا اَنس رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے کہ شہنشاہِ مدینہ،قرارِ قلب و سینہ، صاحبِ معطر پسینہ، باعثِ نُزولِ سکینہ، فیض گنجینہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:ظہر سے پہلے چار رکعتیں عشا کے بعد چار رکعتیں ادا کرنے کی طرح ہے اور عشاء کے بعد چار رکعتیں ادا کرناشب قدر میں چار رکعتیں ادا کرنے کے برابر ہے۔(طبرانی اوسط ،2/121، حدیث : 2733)

(3) حضرتِ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَر صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:جس نے عشا کی نماز باجماعت ادا کی اور مسجد سے نکلنے سے پہلے چار رکعتیں (نفل)ادا کرلیں تو اس کی یہ رکعتیں شب قدر میں ادا کی جانے والی رکعتوں کے برابر ہيں۔(طبرانی اوسط ،4/68،حدیث:5239)

(4) حضرتِ سَیِّدُنا عثمان غنی رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسولِ اکرم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے ہوئے سُنا : جس نے عشا کی نماز باجماعت ادا کی گویا اس نے آدھی رات قیام کیا اور جس نے فجر کی نماز باجماعت ادا کی گویا اس نے ساری رات قیام کیا ۔ (مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاة، باب فضل صلاة العشا...الخ، ص258، حدیث : 1491)


عشا کے لغوی معنی رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں چونکہ یہ نماز اندھیرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے اس لئے اس نماز کو عشا کی نماز کہا جاتا ہے ۔(1) حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے تاجدار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: سب نمازوں میں زیادہ گراں (یعنی بوجھ والی) منافقوں پر نمازِ عشا و فجر ہے، اور جو اِن میں فضیلت ہے اگر جانتے توضرور حاضر ہوتے اگرچِہ سرین (یعنی بیٹھنے میں بدن کاجو حصّہ زمین پر لگتا ہے اُس) کے بل گھسٹتے ہوئے یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔ (ابن ماجہ، 1/437، حدیث :797)

(2) تابعی بزرگ حضرتِ سیِّدُنا سعید بن مسیَّب رحمۃُ اللہِ علیہ سے مروی ہے کہ سرورِ دوجہان صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ہمارے اور منافِقین کے درمِیان علامت (یعنی پہچان) عشا و فجر کی نماز میں حاضِر ہونا ہے کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (مؤطا امام مالک ،1/133،حدیث :298)

(3) حضور اکرم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : جو نمازِ عشا سے پہلے سوئے اللہ پاک اُس کی آنکھ کو نہ سلائے۔ (جمع الجوامع، 7/289،حدیث:23192)

(4) امیر المؤمنین حضرت عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے حکام کو ایک فرمان لکھا جس میں یہ بھی ہے کہ جوعشا سے پہلے سوجائے خدا کرے اس کی آنکھیں نہ سوئیں ، جو سو جائے اس کی آنکھیں نہ سوئیں ، جو سوجائے اس کی آنکھیں نہ سوئیں ۔ (مؤطا امام مالک ،1/35،حدیث :06)

(5) سیِّدُنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے فرمان کے متعلق مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں : جنابِ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی یہ دعائے ضرر اظہارِ غضب (یعنی ناراضی ظاہر کرنے )کے لئے ہے۔ خیال رہے کہ نماز عشا سے پہلے سو جانا اور عشا کے بعد بلاضرورت جاگتے رہنا (یہ دونوں ہی کام )سنّت کے خلاف اورنبی صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کوناپسندہے لیکن نماز سے پہلے سو کر نماز ہی نہ پڑھنا اور ایسے ہی عشا کے بعدجاگ کر فجر قضا کر دینا حرام ہے کیونکہ حرام کا ذریعہ بھی حرا م ہوتا ہے۔ (مراٰۃ المناجیح ،1/377)


اللہ پاک کا کڑوڑ ہا کڑوڑ احسان ہے ، جس نے ہمیں ایمان کی دولت سے نوازا اور ایک اعلٰی و معیاری زندگی گزارنے کے لئے  قرآن و سنت کے روشن اصول عطا کیے جس میں عقائد، عبادات، معاشیات، معاملات، اخلاقیات اور ہر طرح کے معاشرتی اصول شامل ہیں۔ اور یہی دینِ اسلام کی خوبصورتی ہے کہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ہر شعبے میں بندے کی رہنمائی خوب خوب کرتا ہے جبکہ باقی کسی ادیان میں اس طرح کی بہترین و نفیس رہنمائی نہیں ملتی۔

جس خالقِ باری نے ہمیں یہ زندگی عطا کی ہے اور اسلام کی دولت سے نوازا تو پھر کچھ عبادات و معاملات ہمارے ذمہ کیے جن پر عمل بحیثیتِ مسلمان ہم پر لازم ہے۔ اسلام میں داخل ہونے کے بعد سب سے پہلا فرض نماز ہے۔ جو مسلمان پر دن بھر کے پانچ عظیم اوقات میں لازم ہے۔ ان پانچ نمازوں میں دو نمازیں ایسی ہیں جن کو احایثِ مبارکہ میں منافقوں پر سب سے زیادہ بھاری کہا گیا ہے۔ ان میں سے ایک عشا کی نماز ہے۔

عشا کے لغوی معنٰی ”رات کی ابتدائی تاریکی“ کے ہیں، چونکہ یہ نماز اندیھرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے اس لئے اس نماز کو ”عشا“ کہتے ہیں۔ اور منافقین پر بھاری ہونے کی وجہ بھی یہی ہے کہ عشا کے وقت نیند کا غلبہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے منافقین کو اپنی جانوں پر بہت گراں گزرتا ہے۔ اسی سے معلوم ہوا کہ عشا کی نماز ترک کرنا منافقین کا سا کام ہے۔

احادیثِ مبارکہ میں نمازِ عشا کی اہمیت و فضیلت پر کئی احادیثِ وارد ہیں۔ فرامینِ مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پہلے یہ جان لیتے ہیں کہ نمازِ عشا کی ابتدا کس پیغمبرِ اسلام نے فرمائی۔ سبحان اللہ! ہمارے پیارے آقا مدینے والے مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سب سے پہلے عشا کی نماز ادا فرمائی۔ (شرح معانی الآثار، 1/226، حدیث :1014)

گویا کہ نمازِ عشا بھی امتِ مصطفٰے صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا خاصہ ہے کہ اسی امت میں پڑھی جاتی ہے۔ اب نمازِ عشا کی اہمیت و فضیلت کے متعلق 5 فرامینِ مصطفٰےصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی طرف بڑھتے ہیں :

(1) روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ اگر یہ خیال نہ ہوتا کہ میں اپنی امت پر مشقت ڈال دوں گا تو انہیں حکم دیتا کہ عشا کو تہائی یا آدھی رات تک پیچھے کریں۔ (مشکوٰة المصابیح، باب نماز پڑھنے کا بیان، ج1، حدیث:611)

(2) روایت ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ منافقوں پر فجر اور عشا سے زیادہ کوئی نماز بھاری نہیں اور اگر جانتے کہ ان دونوں میں کیا ثواب ہے تو گھسیٹ کر بھی ان میں پہنچتے۔(مشکوٰة المصابیح، باب نمازکے فضائل کا بیان، ج1، حدیث629)

(3) روایت ہے حضرتِ عثمان رضی اللہُ عنہ سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کہ جو نماز عشا جماعت سے پڑھے تو گویا وہ آدھی رات عبادت میں کھڑا رہا اور جو فجر جماعت میں پڑھے گویا اس نے ساری رات نماز پڑھی۔(مشکوٰة المصابیح، باب نمازکے فضائل کا بیان، ج1، حدیث:630)

(4) نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اندھیرے میں چل کر مسجد آنے والوں کو قیامت کے دن کامل نور ( بھر پور اجالے ) کی بشارت دے دو۔ (جامع ترمذی، باب عشا اور فجر جماعت سے پڑھنے کی فضیلت کا بیان، ج1، حدیث: 223)

(5) حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : جو نمازِ عشا سے پہلے سوئے، اللہ پاک اس کی آنکھ کو نہ سلائے۔(جمع الجوامع، 7/289، حدیث :23192)

مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں: خیال رہے کہ نمازِ عشا سے پہلے سو جانا اور عشا کے بعد بلا ضرورت جاگتے رہنا (یہ دونوں ہی کام) سنت کے خلاف اور نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ناپسند ہیں لیکن نماز سے پہلے سو کر نماز ہی نہ پڑھنا اور ایسے ہی عشا کو بعد جاگ کر فجر قضا کر دینا حرام ہے کیونکہ حرام کا ذریعہ بھی حرام ہوتا ہے۔ (مراٰةالمناجیح)

اللہ پاک ہمیں پانچ وقت کی نماز با جماعت تکبیرِ اولٰی کے ساتھ مسجد کی پہلی صف میں اد کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم