کسی بھی چیز کے اختتام کی بہت اہمیت ہے۔ بالفرض کام میں کسی قسم کی کوتاہی بھی ہو جائے لیکن اگر اس کا خاتمہ اچھا ہو جائے تو وہ کام اچھا شمار کیا جاتا ہے۔ جیسے اگر کوئی شخص معاذاللہ عزوجل ساری عمر کفر کے اندھیروں میں رہا اور عمر کے آخری حصے میں اسے دولت ایمان نصیب ہوگئی۔ اور اس کو جنتی ہی کہا جائے گا۔ اسی مضمون کو حدیث مبارکہ میں یوں بیان کیا گیا ہے: اِنّمَا الْاَعمالُ بِالْخَوَاتِیْم یعنی اعمال کا دارومدار خاتمے پر ہے۔ (بُخاری ج حدیث:6607)اسی طرح پانچ نمازوں میں عشا کی نماز کی بہت اہمیت بیان کی گئی ہے کہ یہ دن کی آخری نماز ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ تاجدار رسالت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: سب نمازوں میں زیادہ گراں (یعنی بوجھ والی) منافقوں پر نمازِ عشا و فجر ہے، اور جو اِن میں فضیلت ہے اگر جانتے توضرور حاضر ہوتے اگرچِہ سرین (یعنی بیٹھنے میں بدن کاجو حصّہ زمین پر لگتا ہے اُس) کے بل گھسٹتے ہوئے یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔ (ابن ماجہ، 1/437، حدیث :797)

حضرتِ سیِّدُنا سعید بن مسیَّب رحمۃُ اللہِ علیہ سے مروی ہے:ہمارے اور منافِقین کے درمِیان علامت (یعنی پہچان) عشا و فجر کی نماز میں حاضِر ہونا ہے کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (فیضان نما،ص112) اس حدیث مبارکہ میں منافقین سے مراد منافق اصلی ہے جو کہ حقیقت مسلمان نہیں ۔

بعض عارِفین (یعنی اللہ پاک کی پہچان رکھنے والوں ) کاقول ہے: نمازِفجر باجماعت پابندی سے پڑھنے سے دنیا کے مشکل کام آسان ہوجاتے ہیں ، نمازِ عصرو عشا میں جماعت کی پابندی سے زُہد پیدا ہوتا(یعنی دنیا سے بے رغبتی نصیب ہوتی) ہے ، ’’خواہِشات‘‘ کی پیروی سے نفس باز رہتا ہے۔(فیضان نما،ص113)

ہاں عشا کی نماز سے قبل سونا نہیں چاہیے کہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرمایا: جو نمازِ عشا سے پہلے سوئے اللہ پاک اُس کی آنکھ کو نہ سلائے۔ ’’بہارِ شریعت‘‘ میں ہے: مغرب و عشا کے درمیان میں سونا مکروہ ہے۔ (فیضان نما،ص113)

ہم اللہ پاک سے دعا کرتے ہیں ہمیں ہر نماز باجماعت تکبیر اولیٰ کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور جس طرح ہم دن کا خاتمہ اللہ کے ذکر سے کریں اسی طرح ہماری زندگی کا خاتمہ بھی ذکرِ الٰہی سے ہو۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم