محمد احمد رضا( درجہ اولیٰ،جامعۃ المدینہ خلفائے راشدین
بحریہ ٹاؤن راولپنڈی،پاکستان)
حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: تاجدارِ
مدینہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : سب نمازوں میں زیادہ
گراں (یعنی بوجھ والی) منافقوں پر نمازِ عشا و فجر ہے، اور جو اِن میں فضیلت ہے
اگر جانتے توضرور حاضر ہوتے اگرچِہ سرین (یعنی بیٹھنے میں بدن کاجو حصّہ زمین پر
لگتا ہے اُس) کے بل گھسٹتے ہوئے یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔ (ابن ماجہ، 1/437،
حدیث :797)
شرح حدیث: حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کی شرح میں
لکھتے ہیں : کیونکہ منافق صر ف دکھلاوے کے لئے نماز پڑھتے ہیں ، اور وقتوں میں تو
خیر جیسے تیسے پڑھ لیتے ہیں مگر عشاکے وَقت نیند کاغلبہ، فجر کے وَقت نیند کی لذت
انہیں مست کردیتی ہے ۔ اخلاص و عشق تمام مشکلوں کو حل کرتے ہیں وہ ان میں ہے نہیں
، لہٰذا یہ دو نمازیں انہیں بہت گراں (یعنی بہت بڑا بوجھ معلوم ہوتی) ہیں ، اس سے
معلوم ہوا کہ جو مسلمان ان دو نمازوں میں سُستی کرے وہ منافِقوں کے سے کام کرتا
ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، 1/396)
مُنافِقین عشا و فَجر
میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے:تابعی بزرگ حضرتِ
سیِّدُنا سعید بن مسیَّب رحمۃُ اللہِ
علیہ سے مروی ہے کہ سرورِ دوجہان صَلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ’’ہمارے اور منافِقین کے درمِیان
علامت (یعنی پہچان) عشا و فجر کی نماز میں حاضِر ہونا ہے کیونکہ منافقین ان نمازوں
میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (مؤطا امام مالک ،1/133،حدیث :298)
نماز عشا سے پہلے
سونا:حضور اکرم صَلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : جو نمازِ عشا سے پہلے سوئے اللہ پاک اُس کی
آنکھ کو نہ سلائے۔ (جمع الجوامع، 7/289،حدیث:23192)
سیِّدُنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کے فرمان کے متعلق مفتی
احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں
: جنابِ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی یہ دعائے ضرر اظہارِ غضب (یعنی ناراضی ظاہر
کرنے )کے لئے ہے۔ خیال رہے کہ نماز عشا سے پہلے سو جانا اور عشا کے بعد بلاضرورت
جاگتے رہنا (یہ دونوں ہی کام )سنّت کے خلاف اورنبی صَلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کوناپسندہے لیکن نماز سے پہلے سو کر نماز ہی نہ پڑھنا اور ایسے
ہی عشا کے بعدجاگ کر فجر قضا کر دینا حرام
ہے کیونکہ حرام کا ذریعہ بھی حرا م ہوتا ہے۔ (مراٰۃ المناجیح ،1/377)
عشا سے قبل سونا
مکروہ ہے:’’بہارِ شریعت‘‘ میں ہے: دن
کے ابتدائی حصے میں سونا یا مغرب و عشا کے درمیان میں سونا مکروہ ہے۔ (بہارِ شریعت، 3/436)
عشا کے بعد گفتگو
کرنے کی تین صورتیں:(1) علمی گفتگو، کسی سے مسئلہ پوچھنا یااس کا جواب دینا یا اس کی
تحقیق و تفتیش کرنا اس قسم کی گفتگو سونے سے افضل ہے۔ (2) جھوٹے قصے کہانی کہنا
مسخرہ پن اور ہنسی مذاق کی باتیں کرنا یہ مکروہ ہے۔ (3) موانست کی بات چیت کرنا جیسے میاں بیوی میں یا مہمان سے اس
کے انس کے لئے کلام کرنا یہ جائز ہے اس قسم کی باتیں کرے تو آخر میں ذکر الٰہی میں
مشغول ہوجائے اور تسبیح و استغفار پر کلام کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ (بہارِ شریعت، 3/436)