بخت زمان عطّاری( درجہ اولی جامعۃُ المدینہ خلفاء
راشدین بحریہ ٹاؤن روالپنڈی ،پاکستان)
عشا کے لغوی
معنی رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں چونکہ یہ
نماز اندھیرا ہو جانے کے بعد ادا کی جاتی ہے اس لئے اس نماز کو عشا کی نماز کہا جاتا ہے ۔(1) حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی
اللہُ عنہ سے روایت ہے تاجدار مدینہ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے: سب نمازوں میں زیادہ گراں (یعنی
بوجھ والی) منافقوں پر نمازِ عشا و فجر ہے، اور جو اِن میں فضیلت ہے اگر جانتے
توضرور حاضر ہوتے اگرچِہ سرین (یعنی بیٹھنے میں بدن کاجو حصّہ زمین پر لگتا ہے
اُس) کے بل گھسٹتے ہوئے یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔ (ابن ماجہ، 1/437،
حدیث :797)
(2) تابعی بزرگ حضرتِ سیِّدُنا سعید بن مسیَّب رحمۃُ اللہِ
علیہ سے مروی ہے کہ سرورِ دوجہان صَلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ہمارے اور منافِقین کے درمِیان
علامت (یعنی پہچان) عشا و فجر کی نماز میں حاضِر ہونا ہے کیونکہ منافقین ان نمازوں
میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (مؤطا امام مالک ،1/133،حدیث :298)
(3) حضور اکرم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں : جو
نمازِ عشا سے پہلے سوئے اللہ پاک اُس کی آنکھ کو نہ سلائے۔ (جمع الجوامع، 7/289،حدیث:23192)
(4) امیر المؤمنین
حضرت عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے اپنے حکام کو ایک فرمان لکھا جس میں یہ بھی
ہے کہ جوعشا سے پہلے سوجائے خدا کرے اس کی آنکھیں نہ سوئیں ، جو سو جائے اس کی
آنکھیں نہ سوئیں ، جو سوجائے اس کی آنکھیں نہ سوئیں ۔ (مؤطا امام مالک ،1/35،حدیث :06)
(5) سیِّدُنا فاروقِ اعظم
رضی اللہ عنہ کے فرمان کے متعلق مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں
: جنابِ فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کی یہ دعائے ضرر اظہارِ غضب (یعنی ناراضی ظاہر
کرنے )کے لئے ہے۔ خیال رہے کہ نماز عشا سے پہلے سو جانا اور عشا کے بعد بلاضرورت
جاگتے رہنا (یہ دونوں ہی کام )سنّت کے خلاف اورنبی صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کوناپسندہے لیکن
نماز سے پہلے سو کر نماز ہی نہ پڑھنا اور ایسے ہی عشا کے بعدجاگ کر فجر قضا کر دینا حرام ہے کیونکہ حرام کا ذریعہ بھی حرا م
ہوتا ہے۔ (مراٰۃ المناجیح ،1/377)