نماز وہ عظیم الشان عبادت ہے جو اللہ پاک نے معراج کی رات اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم    کی امت کو عطا فرمائی۔ نماز ہی وہ عظیم عبادت ہے جس کو نبی مکرم نے اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک فرمایا۔ یاد رہے!پانچ وقت کی نماز باجماعت ادا کرنا ہر مسلمان مردو عورت پر فرض ہیں،انہی پانچ نمازوں میں سے ایک نماز”عشا“ہے۔ جس کی اہمیت پر پانچ فرامین مصطفےٰ درج ذیل ہیں:

مؤمن کی علامت: تابعی بزرگ حضرتِ سیِّدُنا سعید بن مسیَّب رحمۃُ اللہِ علیہ سے مروی ہے کہ سرورِ دوجہان صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے:ہمارے اور منافِقین کے درمِیان علامت (یعنی پہچان) عشا و فجر کی نماز میں حاضِر ہونا ہے کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ (مؤطا امام مالک ،1/133،حدیث :298)

آدھی رات عبادت کا ثواب: حضرتِ سیِّدُناعثمان غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ا رشاد فرمایا: جو نمازِ عشا جماعت سے پڑھے گویا(یعنی جیسے)اُس نے آدھی رات قیام کیا اور جو فجر جماعت سے پڑھے گویا (یعنی جیسے) اس نے پوری رات قیام کیا۔ (مسلم ،ص258، حدیث:1491)

منافقت سے آزادی:جو خوش نصیب مسلسل چالیس دن تک فجرو عشا باجماعت ادا کرتا ہے وہ جہنَّم اور مُنافَقَت سے آزاد کردیا جاتا ہے جیسا کہ خادمِ نبی، حضرتِ سیِّدُنا اَنَس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جس نے چالیس دن فجر و عشا باجماعت پڑھی اُس کو اللہ پاک دو آزادیاں عطا فرمائے گا۔ ایک نَار(یعنی آگ) سے ،دوسری نفاق (یعنی مُنافقت) سے۔ (ابن عساکر ،52/338)

دوزخ سے آزادی : امیر المؤمنین حضرتِ سیدُنا عمرفاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالی شان ہے: ’’جو چالیس راتیں مسجد میں باجماعت نمازِعشا پڑھے کہ پہلی رَکعت فوت نہ ہو ، اللہ پاک اس کے لئے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے۔ (ابن ماجہ، 1/437،حدیث:798)

منافق پر بھاری: حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: تاجدارِ مدینہ صَلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عبرت نشان ہے : سب نمازوں میں زیادہ گراں (یعنی بوجھ والی) منافقوں پر نمازِ عشا و فجر ہے، اور جو اِن میں فضیلت ہے اگر جانتے توضرور حاضر ہوتے اگرچِہ سرین (یعنی بیٹھنے میں بدن کاجو حصّہ زمین پر لگتا ہے اُس) کے بل گھسٹتے ہوئے یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔ (ابن ماجہ، 1/437، حدیث :797)

حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اِس حدیثِ پاک کی شرح میں لکھتے ہیں : کیونکہ منافق صر ف دکھلاوے کے لئے نماز پڑھتے ہیں ، اور وقتوں میں تو خیر جیسے تیسے پڑھ لیتے ہیں مگر عشاکے وَقت نیند کاغلبہ، فجر کے وَقت نیند کی لذت انہیں مست کردیتی ہے ۔ اخلاص و عشق تمام مشکلوں کو حل کرتے ہیں وہ ان میں ہے نہیں ، لہٰذا یہ دو نمازیں انہیں بہت گراں (یعنی بہت بڑا بوجھ معلوم ہوتی) ہیں ، اس سے معلوم ہوا کہ جو مسلمان ان دو نمازوں میں سُستی کرے وہ منافِقوں کے سے کام کرتا ہے۔ (مراٰۃ المناجیح، 1/396)