الله نے ہر انسان کو محبت، عزت اور رحم دلی کے ساتھ پیش آنے کا حکم دیا ہے۔ خاص طور پر یتیم بچے، جو اپنے ماں باپ کے سائے سے محروم ہوتے ہیں۔ وہ ہماری توجہ اور محبت کے زیادہ حق دار ہوتے ہیں۔ دین اسلام نے بھی یتیموں سے حسن سلوک کی بہت تاکید کی ہے۔ لیکن افسوس کی بات تو یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بعض لوگ یتیموں سے اچھا سلوک نہیں کرتے، ان پر ظلم کرتے ہیں، ان کا حق مار لیتے ہیں یا ان سے بدتمیزی سے پیش آتے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف انسانیت کے خلاف ہے بلکہ الله کے عذاب کو دعوت دینے والا بھی ہے، چنانچہ قرآن کریم میں بھی یتیموں سے بدسلوکی کرنے کو ظلم قرار دیا گیا ہے۔

الله پاک پارہ 4 سورۃ النساء آیت نمبر 10 میں ارشاد فرماتا ہے:

اِنَّ  الَّذِیْنَ  یَاْكُلُوْنَ  اَمْوَالَ  الْیَتٰمٰى  ظُلْمًا  اِنَّمَا  یَاْكُلُوْنَ  فِیْ  بُطُوْنِهِمْ  نَارًاؕ-وَ  سَیَصْلَوْنَ  سَعِیْرًا۠(۱۰) (پ 4،النساء: 10) ترجمہ: جو لوگ ناحق ظلم سے یتیموں کا مال کھاتے ہیں تو وہ اپنے پیٹ میں نری آگ بھرتے ہیں اور کوئی دم جاتا ہے کہ بھڑکتے دھڑے(بھڑکتی آگ) میں جائیں گے۔

اس آیت میں یتیموں کا مال ناحق کھانے پر سخت وعید بیان کی گئی ہے اور یہ سب یتیموں پر الله کی رحمت ہے کیونکہ وہ انتہائی کمزور اور عاجز ہونے کی وجہ سے الله کے مزید لطف و کرم کے حقدار تھے۔ اس آیت میں جو یہ ارشاد فرمایا گیا کہ وہ اپنے پیٹ میں بالکل آگ بھرتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ یتیموں کا مال ناحق کھانا گویا آگ کھانا ہے کیونکہ یہ مال کھانا جہنم کی آگ کے عذاب کا سبب ہے۔ (تفسیر کبیر، 3 / 506)

یتیم کا مال کھانے سے کیا مراد ہے؟ یتیم کا مال ناحق کھانا کبیرہ گناہ اور سخت حرام ہے۔ قرآن پاک میں نہایت شدت کے ساتھ اس کے حرام ہونے کا بیان کیا گیا ہے۔ افسوس کہ لوگ اس میں بھی پرواہ نہیں کرتے۔ عموماً یتیم بچے اپنے تایا، چچا وغیرہ کے ظلم و ستم کا شکار ہوتے ہیں انہیں اس حوالے سے غور کرنا چاہیے۔

یہاں ایک اور اہم مسئلے کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ یتیم کا مال کھانے کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی باقاعدہ کسی بری نیت سی چیز کھائے تو ہی حرام ہے بلکہ کئی صورتیں ایسی ہیں کہ آدمی کو حرام کا علم بھی نہیں ہوتا اور وہ یتیموں کا مال کھانے کے حرام فعل میں ملوّث ہوجاتا ہے جیسے جب میت کے ورثا میں کوئی یتیم ہے تو اس کے مال سے یا اس کے مال سمیت مشترک مال سے فاتحہ تیجہ وغیرہ کا کھانا حرام ہے کہ اس میں یتیم کا حق شامل ہے، لہٰذا یہ کھانے صرف فقراء کیلئے بنائے جائیں اور صرف بالغ موجود ورثاء کے مال سے تیار کئے جائیں ورنہ جو بھی جانتے ہوئے یتیم کا مال کھائے گا وہ دوزخ کی آگ کھائے گا اور قیامت میں اس کے منہ سے دھواں نکلے گا۔

یتیم کہتے کسے ہیں؟ یتیم وہ نابالغ بچہ یا بچی ہے جس کا باپ فوت ہو گیا ہو، اگر اس کے پاس مال ہو اور اپنے کسی ولی کی پرورش میں ہو تو وہ یتیم ہے۔

رسول الله ﷺ نے فرمایا: مسلمانوں میں بدترین گھر وہ گھر ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا جاتا ہو۔ (ابن ماجہ، 4/193، حدیث: 3679)

یتیم کے ساتھ بدسلوکی الله اور اس کے رسول ﷺ کو سخت ناپسند ہے۔ نبی کریم ﷺ نے یتیموں کے حقوق کی حفاظت کو امت پر لازم قرار دیا ہے، یتیموں کو نظرانداز کرنے، ان کا مال کھانے یا ان سے ظلم کرنے والے سخت عذاب کے مستحق ہیں۔

اس سے معلوم ہوا کہ یتیموں سے بدسلوکی یا ان کے مال میں خیانت کرنے والے پر الله کا غضب نازل ہوتا ہے اور قرآن میں اسے آگ کھانے کے مترادف قرار دیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یتیم کے ساتھ ظلم کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔

یتیم معاشرے کا کمزور طبقہ ہے جن کی کفالت اور حسن سلوک کا حکم قرآن و سنت میں بار بار دیا گیا ہے۔ ان سے بدسلوکی کرنا اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے۔ یتیموں سے حسن سلوک صرف دینی حکم نہیں بلکہ ایک انسانی اور اخلاقی ذمہ داری بھی ہے۔ ان کے ساتھ نرمی اور محبت سے پیش آنا معاشرتی ہمدردی اور انسانیت کی علامت ہے۔

اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ دنیا کے فائدے کے لئے کمزوروں پر ظلم نہ کریں، بلکہ الله کے خوف اور آخرت کی جواب دہی کو یاد رکھیں۔

ہمیں چاہیے کہ ہم یتیموں سے محبت، احترام اور نرمی کا برتاؤ کریں تاکہ الله کی رضا، رسول الله ﷺ کی قربت اور جنت کا مقام حاصل ہو۔آمین