اسلام ایک
مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسان کو زندگی کے ہر شعبے میں راہنمائی فراہم کرتا ہے۔ وہ
نابالغ بچے جن کے والد دنیا سے رخصت ہو جائیں ان كو یتیم کہتے ہیں۔ یتیم معاشرے کا
نہایت کمزور طبقہ ہوتے ہیں۔ ان کے ساتھ حسن سلوک کرنا ایمان کا حصہ اور ان کے ساتھ
بدسلوکی کرنا بہت بڑا گناہ ہے۔
الله تعالی نے
قرآن پاک میں کئی مقامات پر یتیموں کا ذکر فرمایا، چنانچہ ایک جگہ فرمایا گیا: اَرَءَیْتَ الَّذِیْ
یُكَذِّبُ بِالدِّیْنِؕ(۱) فَذٰلِكَ الَّذِیْ یَدُعُّ الْیَتِیْمَۙ(۲) (پ
30، الماعون: 1، 2) ترجمہ: کیا تم نے اسے دیکھا جو دین کو جھٹلاتا ہے؟ وہی ہے جو
یتیم کو دھکے دیتا ہے۔
یعنی دین کو جھٹلانے
والے شخص کا اخلاقی حال یہ ہے کہ وہ یتیم کو دھکے دیتا ہے۔ اس آیت میں کفار کا
یتیموں کے سا تھ سلوک بیان کیا گیا جبکہ اس کے مقابلے میں یتیموں کے بارے میں
اسلام کی تعلیمات ملاحظہ کیجئے۔
چنانچہ الله
تعالی یتیموں کے سرپرستوں سے ارشاد فرماتا ہے:
وَ اٰتُوا
الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا
الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ ۪- وَ لَا تَاْكُلُوْۤا
اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْؕ-اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا
كَبِیْرًا(۲) (پ 4، النساء: 2) ترجمہ: یتیموں کو ان
کے مال دے دو اچھے مال کو خراب مال سے تبدیل نہ کرو اور ان (یتیموں) کام مال اپنے
مال کے ساتھ ملا کر مت کھاؤ بے شک یہ بڑا گناہ ہے۔
احادیث
کی روشنی میں:
حضرت ابو
ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسلمانوں میں
بہترین گھر وہ گھر ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کیا جاتا ہو اور
مسلمانوں میں بدترین گھر وہ گھر ہے جس میں یتیم ہو اور اس کے ساتھ برا سلوک کیا
جاتا ہو۔ (ابن ماجہ، 4/193، حدیث: 3679)
حضور ﷺ خود بھی
یتیم تھے، اس لیے آپ کا دل یتیموں کے لیے بہت نرم تھا۔ آپ نے ہمیشہ یتیموں کے حقوق
کی پاسداری کا حکم دیا۔
اسلام
کا پیغام: اسلام
صرف یتیموں سے ہمدردی کا نہیں بلکہ ان کی محبت سے پرورش کرنے، ان کا حق دینے اور
انہیں معاشرے کا باعزت فرد بنانے کا حکم دیتا ہے۔
یتیم بچے
ہماری توجہ، محبت اور تعاون کے مستحق ہیں۔ ان کے ساتھ بدسلوکی کرنا نہ صرف گناہ ہے
بلکہ معاشرے میں ظلم، ناانصافی اور بربادی کا سبب بنتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان کی
کفالت کریں، ان کی دلجوئی کریں اور انہیں وہ محبت دیں جو وہ اپنے ماں باپ سے حاصل
کرنے کے خواہشمند ہوتے ہیں۔