اسلام کی آ مد سے پہلے دیگر برائیوں کی طرح یتیموں کے حقوق دبانا اور ان پر ظلم و ستم کرنا بھی عام تھا۔اسلام نے یتیموں سے برے سلوک کی مذمت کی۔ ان سے اچھے سلوک کا حکم دیا۔اللہ تعالیٰ نے ارشادفرمایا: فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَقْهَرْؕ(۹) (پ 30، الضحی: 9) ترجمہ کنز الایمان: تو یتیم پر دباؤ نہ ڈالو۔

یتیم کسے کہتے ہیں؟ وہ نابالغ بچّہ یا بچّی جس کا باپ فوت ہوگیا ہو وہ یتیم ہے۔ (در مختار، 10/ 416)

حدیث پاک میں ہے: چار قسم کے لوگ ايسے ہيں کہ اللہ تعالیٰ نہ انہيں جنّت ميں داخل کرے گا اور نہ ہی اس کی نعمتيں چکھائے گا،ان میں سے ایک یتیم کا مال ناحق کھانے والا بھی ہے۔ (مستدرک،2/338، حدیث:2307)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اے اللہ! میں دو کمزوروں کی حق تلفی کرنا ممنوع اور حرام قرار دیتا ہوں: (1) یتیم اور (2) عورت۔ (ابن ماجہ، 4/193، حدیث: 3678)

سات گناہوں سے جو تباہ کر دینے والے ہیں بچتے رہو! صحابہ رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ! وہ کون سے گناہ ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، جادو کرنا، کسی کی ناحق جان لینا کہ جسے اللہ تعالیٰ نے حرام قرار دیا ہے، سود کھانا، یتیم کا مال کھانا، جنگ سے بھاگ جانا، پاک دامن بھولی بھالی ایمان والی عورتوں پر تہمت لگانا۔ (بخاری، 2/242، حدیث: 2766)